کتابوں سے دوری

کتابیں شعور و آگہی بخشتی ہیں ۔کتابیں علم و عرفاں کے نئے دریچے وا کرتی ہیں ۔ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہیں کہ کتابوں سے ہی یہ جہاں منور ہے ۔ہر بڑے آدمی کو بڑا آدمی بنانے میں کتاب نے اہم کردار اد کیا ہے ۔ دنیا کے ہر علم کا سب سے بڑا منبع کتاب ہی ہے ۔ کتاب ہی سے علم پروان چڑھتا ہے ۔ کسی دانا نے خوب کہا: بغیر کتابوں کے گھر ایسا ہے ، جیسے بغیر روح کے جسم ۔

مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں کتابیں پڑھنے کا رجحان دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ بھی کتابوں سے دور بھاگتے ہیں ، جنھیں کتابوں کے قریب ہونا چاہیے تھا۔ طالب ِ علم اور استاذ نے اپنے آپ کو فقط نصابی کتابوں تک محدود کر دیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلومات کی کمی کا شکار ہوتے ہیں ۔ انھیں صرف وہی معلوم ہوتا ہے ، جو یہ نصابی کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔ کتابوں سے دوری کا رجحان نہ استاذ اور شاگرد کے لیے مفید ہے ، نہ عام لوگوں کے لیے ۔ کتابیں نہ پڑھنے کی وجہ سے جہالت جنم لیتی ہے ۔ جہالت کا مطلب ہوتا ہے : "جذبات کی رو میں بہہ کر باوجود کم علم ہونے کے سب کچھ کہہ دینا ۔ " یہ بات طے ہے کہ کم علم شخص ہی جذباتی ہوتا ہے ۔ بہت زیادہ پڑھا لکھا اور باشعور شخص ہر بات تول تول کر بولتا ہے ۔ہمارے ہاں ہر دوسرا آدمی تبصرہ نگا ر ہے ۔ جسے دیکھو، حالات ِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے ۔ اس تبصرے کی سب سے اہم خصوصیت "جذباتی رائے زنی " ہوتی ہے ۔ یعنی "تبصرہ نگار" جس شخص کو پسند نہیں کرتا ، وہ اس کے لیے دنیا کو سب سے مغضوب ترین شخص ہوتا ہے ۔ یہ سطحی معلومات کا شاخسانہ ہوتا ہے ۔ اور سطحی معلومات کی ایک وجہ کتابوں سے دوری بھی ہے ۔

کتابوں کے رجحان میں کمی کی بہت سی وجوہات ہیں ۔ موبائل ، انٹرنیٹ اور جدید ٹیکنالوجی بھی اس کی ایک وجہ ہے ۔ جدید ٹیکنالوجی کے فائدے تو بہت ہوئے ، مگر اس کے نقصانات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہی کتابیں پڑھنے کے رجحان میں کمی آئی ہے ۔ پہلے جن کے ہاتھوں میں کتابیں نظر آتی تھیں ، اب ان کے ہاتھوں میں موبائل ، آئی پیڈ اور لیپ ٹاپ وغیرہ نظر آتا ہے ۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ کتابوں کا نعم البدل ہے ۔ اس لیے اب کتابوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔ میں اس نظریے کی نفی کرتا ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں ، کتابیں اس وقت بھی انٹر نیٹ سے زیادہ "مستند " ہیں ۔ پھر یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ ترقی یافتہ قومیں ٹیکنالوجی میں اگر چہ ہم سے بہت آگے ہیں ، لیکن اس کے با وجود انھوں نے کتابوں سے دامن نہیں چھڑایا ۔ وہاں ہر سال کئی کتابیں چھپتی ہیں ، جنھیں وسیع پیمانے پر پڑھا جاتا ہے ۔

کتابوں سے دوری کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب وہ مصنفین نہیں رہے ، جن کا اسلوب قاریئن کو گرما دیتا تھا ، یہ سچ ہے کہ لوگ دن بہ دن کتابوں سے دور ہوتے جارہے ہیں ، لیکن احمد ندیم قاسمی ، قدرت اللہ شہاب ، اشفاق احمد ، واصف علی واصف ، مولانا مودودی ، خواجہ حسن نظامی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، چراغ حسن حسرت وغیرہ جیسے نثر نگار اور مرزا غالب ، میر تقی میر ، علامہ اقبال ، فیض احمد فیض ، ن۔م۔ راشد، ناصر کاظمی ، قتیل شفائی وغیرہ جیسے شاعربھی تو نہیں رہے ، جن کی نثر اور شاعری پرسکون لہروں کو متلاطم کردیا کرتی تھی ۔

آخر میں فقط اتنی گذارش ہے کہ کتابوں سے دوری کی اس عادت سے چھٹکارا پانا ہمارے لیے از حد ضروری ہے ، کیوں کہ زندہ قوموں کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اپنا رشتہ کتابوں سے قائم رکھتی ہیں ۔ وہ کبھی یہ نہیں کہتیں کہ " کتابوں کا دور اب نہیں رہا۔"
 

Naeem Ur Rehmaan Shaaiq
About the Author: Naeem Ur Rehmaan Shaaiq Read More Articles by Naeem Ur Rehmaan Shaaiq: 122 Articles with 146213 views میرا نام نعیم الرحمان ہے اور قلمی نام نعیم الرحمان شائق ہے ۔ پڑھ کر لکھنا مجھے از حد پسند ہے ۔ روشنیوں کے شہر کراچی کا رہائشی ہوں ۔.. View More