اس کائنات میں زندگی کے دم سے
حرکت اوررنگا رنگی ہے۔ زندگی کے رنگوں اور کیفیتوں پر سوچنے کے لئے علم ہی
وہ بنیادی زینہ ہے جہاں سے انسان کو عبد اور معبود کے رشتے کی پہچان ہوتی
ہے۔علم ہی ایک ایسا خزانہ ہے جس سے ہر انسان کی اوقات کا بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے علم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اچھے اور بُرے کی تمیز
قائم کی جا سکتی ہے علم ہی ایک ایسا نور ہے جس نور سے ہر اندھیرے گھر میں
اُجالا ہو جاتا ہے لیکن علم کو پھیلانے کے لئے ایک قد آور شخصیت ہے جسے اﷲ
تعالیٰ نے ایک بلند قامت مقام سے نوازا ہے وہ ہے اُستاد جو علم کے نور سے
ہر گھر کو منور کرانے میں اپناکردار نبھاتا ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ آج کا
انسان اپنے کردار سے اس قدرغفلت کیوں برت رہا ہے؟ دور ِ حال میں یہی ایک
اہم مسئلہ ہے جو بے چینی اور اضطراب میں اضافے کا سبب بن چکا ہے۔ دور حاضر
میں ایک طرف جب ملک تعلیمی لحاظ سے عروج پر ہے تو دوسری جانب ہر علاقے میں
بہت سے تعلیمی مسائل درپیش ہیں، جو ہمارے طلباء کی تعلیم و تربیت میں بڑی
رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اپنے تعلیمی نظام پر نظر ڈالی جائے تو صاف معلوم ہوتا
ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام بہت ہی کمزور ہے، جس میں بہتری لانے کی اشد ضرورت
ہے۔
جدید دور میں قدم قدم پر سکولوں کی عمارتیں دیکھنے کو ملتی ہیں ہر جگہ
تعلیمی ادارے تو کھولے گئے لیکن طلباء کو پڑھانے کیلئے تدریسی عملہ دستیاب
نہیں کیونکہ محکمہ تعلیم سے وابستہ لوگ اپنے فرضِ منصبی کو پوری طرح سے
نبھانے میں قاصر ہیں اساتذہ کرام جنہیں بچوں کو تعلیم و تربیت دینے کا ایک
اہم فریضہ سونپا گیا تھا لیکن دورِ جدید کی مڈڈے میل کی تباہ کُن اسکیم نے
اساتذہ کو یہ فرض ِ منصبی ادا کرنے کے لئے اتنا وقت بھی نہ دیا کہ وہ طلباء
کا دیدار کر سکیں۔طلباء کو تعلیم کے انمول زیور سے آراستہ کرنا تو دور کی
بات ہے لیکن ایک اُستاد اپنے شاگرد سے ایک ملاقات بھی نہیں کر پاتا ہے
کیونکہ محکمہ کی خاموش مزاجی نے اساتذہ کو الگ ہی اُلجھنوں میں پھنسا کر
رکھا ہوا ہے ۔مڈدے میل ،مردم شماری اور انتخابات وغیرہ جیسے کاموں پر
اُساتذہ کو مامور رکھ کر طلباء کو بے علمی کی دلدل میں پھنسایا جا رہا
ہے۔ماضی میں اگر چہ طلباء کو مڈ ڈے میل جیسی سہولیات دستیاب نہ تھیں لیکن
تعلیم نظام کسی حد تک بہتر تھاطلباء کتابوں کا بستہ لئے سکول جاتے ہو ئے
نظر آتے تھے لیکن دور ِ جدید میں تعلیمی نظام میں اس قدر بدلاؤ آیا کہ اب
طلباء سکول جاتے ہوئے کتابوں کے بستے نہیں لے جاتے بلکہ جدید طرز کے بنائے
ہوئے بستوں میں پلیٹ، گلاس لے جاتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ یہ طلباء تعلیم
حاصل کرنے نہیں بلکہ کہیں دور سیر و تفریح کی غرض سے جا رہے ہیں گو کہ مڈ
ڈے میل جیسی اسکیم نے طلباء کو تعلیم کا بھکاری بننے کے بجائے پیٹ کا
بھکاری بنا دیا۔اُستاتذہ حضرات جو بچوں کو تعلیم دیتے وہ دن بھر مڈ ڈے میل
کے حساب وکتاب میں اُلجھے ہوئے ہوتے ہیں صبح سے لے کر دوپہر تک جب کوئی بھی
استاد کلاس میں پڑھانے کے لئے حاضر نہیں ہو پاتا ہے تو اتنے میں کلاس میں
اُستاد کے بدلے ایک وازوان آجاتا ہے جو ان طلباء کو ٹوٹے پھوٹے پلیٹوں میں
کھانا دیتا ہے کھانا بھی اس قسم کا دیا جا تا ہے کہ جیسے جانوروں کو چارہ
ڈالا جاتا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ تعلیم اب ’’عام‘‘ نہیں بلکہ
تعلیم اب’’آم‘‘ ہو گئی ہے جو کہ پھیلائی نہیں جاتی بلکہ کھائی جاتی ہے کبھی
مڈ ڈے میل کی صورت میں تعلیم کو ’’آم‘‘ سمجھ کر اس کا مزہ چکھا جا تا ہے تو
کبھی ایک ہی جگہ پر دو عہدوں پر قبضہ جما کر تعلیم کے اس عظیم اور مقدس
پیشے کا بیڑا غرق کر کے تعلیم کوعام کرنے کی آڑ میں تعلیم کو ’’آم‘‘ سمجھ
کر اس کا بھر پور مزہ چکھا جا تا ہے۔ جس کی ایک تازہ مثال علاقہ گُول کے
محکمہ تعلیم کے بد نظمی اور اندھیر نگری چوپٹ راج سے بخوبی لگایا جا سکتا
ہے ۔جہاں محکمہ تعلیم اتنا معذورہو چکا ہے کہ کچھ بن نہیں آتا انسانیت کا
سرعام گلہ گھونٹا جا رہا ہے حق تلفی کابازار اس طرح سے گرم ہے کہ محکمہ
تعلیم سے وابستہ اعلیٰ عہدوں پر فائض عملہ نے دو دو عہدوں پر اپنا قبضہ جما
کر رکھا ہے کوئی بھی پرسان حال نہیں ہے طلباء کے مستقبل روشن ہونے کی کوئی
اُمید باقی نہیں، ہوگی بھی کیسے کیونکہ اس علاقہ میں انتظامیہ اورحکومت اب
تک ایک قابل فخر اور درست تعلیمی نظام بنانے میں ناکام رہا ہے۔ اس حوالے سے
مضمون میں زیرِ شامل تصویر کارٹون کی شکل میں بنائی گئی ہے۔ اس کارٹون میں
ایک ایسا خیمہ دکھایا گیا ہے جس میں چند طلباء بستہ اٹھائے داخل ہو رہے
ہیں، جبکہ خیمے کی دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اٹھائے باہر نکل رہے ہیں۔
اِس کی یہی وجہ ہے کہ جو اساتذہ بچوں کو علم کے نور سے منور کرتے اُن
اساتذہ کو دیگر کاموں میں اُلجھا کر رکھا ہوا ہے اُن کے پاس طلباء کو
پڑھانے کے لئے وقت ہی دستیاب نہیں ۔خاص کر علاقہ گُول جو کہ ایک پسماندہ
اور دور دراز علاقہ ہے کے ساتھ اس قدر سوتیلا سلوک برتا جا رہا ہے کہ جہاں
عرصہ چار سے زونل آفسیر تعینات کرانے میں محکمہ اور انتظامیہ بری طرح سے
ناکام ہو چکا تھا اپنی معذور صلاحیت پہ پردہ ڈالنے کے لئے ہائر سکینڈری
سکول گُول کے پرنسپل کو ہی زونل آفیسر کے عہدے پہ بھی تعینات رکھا گیا تھا
جو یہاں کے زیر تعلیم طلباء کے لئے سمِ قاتل سے کم نہیں تھا اس دوران طلبا
ء کا کتنا زیاں ہوا اس سب کا ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے۔اب خدا خدا کر کے
زونل ایجوکیشن آفیسر کو تعینات کیا گیالیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر
چار سال کی طوالت کے بعدیہاں( زیڈ ا ی او) کو تعینات کرنے کی آخر کیا
وجوہات تھیں جبکہ اس علاقہ میں ایسی باصلاحیت شخصیتیں موجود ہیں جو کہ زون
گُول کے تعلیمی نظام میں کسی حد تک بہتری لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔اب
جس شخصیت کو( زیڈ ای او) کے لئے تعینات کیا گیا ہے اُن سے زون گُول کی عوام
کو بہت سی اُمید وابستہ ہیں ۔اور اُمید ہے کہ وہ زون گُول کے دور دارز کے
تعلیمی اداروں میں بہتری لانے میں اپنا بھرپور کردار نبھا کر تعلیمی نظام
میں بہتری لائیں گے۔ کیونکہ ایک زونل آفیسر جسے پورے زون کی ذمہ داری ہوتی
ہے جو پورے زون کو اپنی نظر میں رکھ کر دور دراز کے اسکولوں میں دورہ کر کے
زون کے تعلیمی نظام میں سدھار کو برقرار رکھتا ہے۔لیکن کیا ایک ہی ملازم دو
عہدوں پر تعینات رہ کر یہ کام انجام دے سکتا ہے یہ فیصلہ عام لوگوں کے ہاتھ
میں ہے ۔اور خاص کر اﷲ رب العزت کو خاطر نظر رکھ کر دو عہدوں پر تعینات اُن
آفیسران کو بھی یہ سوچنے کے لئے اپنا ایمان جگانا ہو گا کہ کیا واقعی میں
یہ کام انجام دینے میں ہم پوری طرح سے کامیاب ہو بھی رہے ہیں یا کہ یہ صرف
وقت گذاری ہے۔
اس بات سے قطعاً انکار نہیں کہ ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے ہماری
حکومت کبھی مفت کتابیں اور کبھی مفت یونیفارم تو فراہم کردیتی ہے، لیکن یہ
خبر نہیں لی جاتی کہ اس علاقے کے طلباء میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان کس حد
تک پست ہوچکا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اگر ہمارے تعلیمی اداروں میں انسپیکشن
کی غرض سے بھولے بھٹکے کوئی چیک کرنے آ بھی جائے تو اسے مختلف مہمان
نوازیوں سے فیضیاب کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے، جس کے بعد چیکر اپنی رپورٹ
میں زیرنظر ادارے کو بہترین اداروں میں شمار کر لیتا ہے۔جس وجہ سے ہمارے
تعلیمی نظام کو اب تک کوئی مثبت راستہ نہیں مل سکا۔ ہمارے طالب علم آج بھی
ایسی کشتی پہ سوار ہیں جو روز بروزڈگمائی جا رہی ہے ۔
معتدد علاقہ جات میں تعلیمی نظام اتنا گِر چکا ہے کہ امتحانا ت کے وقت
نتائج کی پرسنٹیج کو برقرار رکھنے کے لئے مجبوراً طلباء کو نقل کرائی جاتی
ہے تاکہ نتائج ٹھیک آئیں نہیں تو اُساتذہ کی تنخواہیں بند کی جاتی ہیں اپنی
تنخواہوں کے چشمے کو جاری رکھنے کی خاطر مجبوراً طلباء کو نقل کرائی جاتی
ہے جس وجہ سے نقل کی وباء میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اوربد انتظامی کی
وجہ سے تعلیمی نظام دن بدن بگڑتا چلا جا رہا ہے ۔سرکاری سکولوں میں نقل کی
وباء تو پہلے سے ہی تھی لیکن اب نجی سکولوں میں بھی نقل کی وباء بڑی تیزی
پھیلتی جا رہی ہے اس کے پیچھے بھی محکمہ تعلیم کاہاتھ کارِ فرما ہے نجی
تعلیمی اداروں میں جہاں بچوں کے پڑھانے کے عملے کی تعلیمی قابلیت گریجویشن
سے زائد ہونی چاہیے لیکن نجی سکولوں میں اس کے برعکس کام چلاؤ سرکار ہے
دسویں پاس عملہ بچوں کو تعلیم و تربیت دے رہا ہے جوکہ محکمہ ایجوکیشن کے
ضابطے کی خلاف ورزی ہے لیکن ایسا تب ہی ہو پا رہا ہے جب ان نجی اداروں اور
محکمہ ایجوکیشن کی آپسی ملی بھگت کا ٹانکہ فِٹ ہے یہی وجہ ہے کہ نجی سکولوں
میں بھی تعلیمی نظام بگڑتا جا رہا ہے۔ |