سولہویں صدی میں مکران ذکری فرقے کا ایک ریاست
ہواکرتاتھا.ملک جلالان کی وفات کے بعد میرہوت مکران کے حکمران بن گئے۔ میر
ہوت کا دورحکومت سولہویں صدی کی وسط تک رہا۔ اس کے بعد مکران پر ملک خاندان
نے حکمرانی کی۔ مَلک سرداروں کے دورحکومت میں مکران کے حدود مشرقی ایران کے
علاقے میناب ملک چیدگ تک پھیلے ہوئے تھے۔مکران ذکری حاکموں کے دور میں نیم
آزاد وفاقی ریاست تھا جس صدر مقام گہہ قصرقند تھا جبکہ مذہبی مرکز تربت
تھا۔
ڈاکٹرحمید بلوچ کے مطابق سولہویں صدی میں مکران کو فارس، عثمانیہ، مغل
ہندوستان اور پرتگیزیوں کے مابین اقتدار کی رسہ کشی کا نشانہ بننا پڑا۔
چونکہ ریاست مکران اہم ساحلی مراکزکا مالک تھا ان ساحلی بندرگاہوں کے حصول
کے لئے مندرجہ بالاطاقتوں کے درمیان آئے دن جنگ و جدل جاری رہی تھی جس کا
ساحل پر بسنے والے اہلیان مکران کو بھگتنا پڑا۔ مکران کے ساحلی بندرگاہ مغل
ہندوستان اور سلطنت عثمانیہ کے لیے اہم تھے کیونکہ یہ سلطنتیں مکران کے آبی
گزرگاہوں کو تجارت اور مکہ مکرمہ میں حج پر جانے والے مسافروں کے لیے
استعمال کرتے تھے۔ ان آبی گزرگاہوں کو ہمیشہ پرتگیزی قزاق لوٹتے رہتے تھے۔
لہٰذا ان کی بچاؤ کے لیے سلطنت عثمانیہ نے اپنے مشہور امیر البحرسیدعلی
رئیس کو سولہویں صدی میں خلیج فارس میں بھیجا، تاکہ وہ پرتگیزیوں کو اپنے
کئے کی سزا دے سکے۔ سید علی کے مطابق جب وہ ساحل مکران پر لنگراندازہوا
تومکران کے مالک خاندان کے حکمران ملک جلال نے اس کی مدد کی۔اس واقعہ سے
ظاہر ہوتا ہے کہ مکران کے ذکری حاکم سلطنت عثمانیہ کے تابعدار تھے۔مکران کے
ذکری حکمرانوں کے صفوی ایران کے ساتھ تعلقات بھی برابری کی بنیاد پرتھے وہ
ایران کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے تھے۔ اس سارے عرصے میں سوائے ایک
واقعہ کے جب ہرمز کے صفوی گورنرنے مکران پرقبضہ کرنے کی ناکام کوشش کی
تاریخ میں اس طرح کی کوئی اور شہادت موجود نہیں ہے کہ صفوی حکمرانوں نے
مکران سے جنگ کی ہو۔مکران پر ذکریوں کی حکمرانی کے زمانے میں عمان پرخوارجی
حکمرانی کررہے تھے۔ان کے مکران کے ذکری حاکموں کے سے اچھے تعلقات تھے اور
وہ تجارتی رابطوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ مکران اور عمان کے
تجارتی جہاز مشرقی افریقہ، عمان اور مکران کے درمیان تجارتی سرگرمیوں سے
منسلک تھے۔جب نصیرخان کے دور میں مکران کے ذکری ریاست کاخاتمہ ہوا تو بہت
سارے ذکری عمان ہجرت کرگئے اور وہاں کی زندگی میں رچ بس گئے۔مکران کے ذکری
حکمرانوں کے تعلقات مغل ہندوستان کے ساتھ بھی تھے، جب ہندوستان پر شاہ جہان
کی حکومت تھی تو اس کا بیٹاشہزادہ اورنگزیب عالمگیر جنوب مغربی ہندوستان کے
دورے پرآیا۔ اگرچہ اورنگ زیب راسخ العقیدہ سُنی تھی لیکن اس نے ذکری حاکموں
کے متعلق کسی قسم کا کوئی فتویٰ صادر نہیں کیا۔
نصیر خان نوری تاریخ بلوچستان میں پہلے شخص تھے جس نے مذہبی لبادہ کی آڑ لے
کرمکران پر حملہ کیا۔ اس کی بنیادی وجوہات میں اس کے دربارکے مذہبی علماء
کے ذکری فرقے کے خلاف اُسے اکسانے کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی منشا بھی شامل
تھی۔مکران پر نصیرخان نوری کا حملہ اس لیے اہم تھا کہ وہ اس کے ذریعے ساحل
مکران کے اہم تجارتی بندرگاہوں کو اپنی تحویل میں لے سکے اور اُس کے ساتھ
ساتھ مکران کے اہم بیش بہادولت بھی اسے مال غنیمت کے طور پر ملنے کی امید
تھی۔نصیر خان نوری کا مکران پر حملہ تاریخ بلوچستان پر سیاہ باب ہے ذکری
فرقے کی تاریخی کتب کے مطابق انہوں نے نہ صرف اہلیان مکران کا قتل عام کیا
بلکہ انہوں نے ان کے بزگوں کی ہڈیاں قبروں سے نکال کرانہیں جلایااور اُس کی
راکھ کو گھوڑے کی لید سے ملاکر زمن پر پھیلایادیا۔اور اُن کی خواتین کے
قمیضوں میں زندہ بّلیاں چھوڑ دئیے تاکہ انہیں ہزیت پہچائی جاسکے۔ نصیرخان
نوری کے مکران پر حملے کی وجہ حاکمِ کیچ ملک دینارگچکی کی ذکری فرقے سے
وابستگی بتائی جاتی ہے۔ آج تک اس فرقے کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا گیا ہے۔
ان میں سے چند مستشنیات کو چھوڑ کر زیادہ ترتعصب اور کم علمی کی بنیادپرہی
لکھے گئے ہیں جس میں فرضی داستانوں کا سہارا لیا گیا ہے اور اصل سباق و
سیاق سے ہٹ کر مفروضوں کی بنیاد پر مسخ شدہ تاریخ پیش کی گئی ہے۔ ضرورت اس
بات کی ہے کہ ذکری فرقے کی تاریخ کو اصل ماخذوں کے حوالے سے بیان
کیاجائے۔بلوچستان کی عمومی تاریخ کی طرح مکران میں ذکری فرقے کے ابتدائی
ماخذوں کے حوالے سے مواد انتہائی نایاب ہیں۔ ذکری فرقے سے متعلق تاریخی
حوالوں کا آغازخان قلات میر نصیر خان نوری کے مکران پر حملے سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عنایت بلوچ کا خیال ہے کہ اس کے حملے کے دوران تمام تاریخی دستاویزات
کو تباہ و برباد کرکے ضائع کردیاگیا ہے جو کچھ باقی بچ سکا وہ زبانی
روایتوں اور ذکرازکارکے طریقہ کار اور چندپرانے صحیفوں پر مشتمل
ہے۔سیدمحمدجونپوری کے نظریہ مساوت نے ہندوپاک کے لاکھ لوگوں کو
متاثرکیا،اور مہدوی حوالہ جات کے مطابق بہت سارے والیان ریاست نے مہدوی
طریقہ تعلیم سے متاثر ہوکر سید محمدجونپوری کے ہاتھ بیعت کی۔ سید محمد
جونپوری کے تعلیمات کا زیادہ اثر جنوبی بلوچستان بلخصوص مکران کے باسیوں
پرپڑا۔
مکران کے باسیوں اور اس کے والی نے سید محمد جونپوری کی تعلیمات سے متاثر
ہوکر مہدویت (ذکریت) اختیار کرلی۔ کچھ مورخوں کا خیال ہے کہ مکران میں ذکری
فرقے کی ابتداء سترہویں صدی میں بلیدی حاکموں کے دور میں ہوئی۔ ان مورخوں
نے اہم ذکری ماخذ’’ درصدف‘‘ جیسے قاضی ابراہیم نے اٹھارویں صدی میں تحریر
کیا تھا۔ کو سرے سے نظرانداز کیا جس کے مطابق مکران میں ذکری فرقے کا آغاز
سولہویں صدی میں ملک حاکموں کے دور میں ہوا۔ چونکہ نصیر خان نوری والی قلات
نے ذکری فرقے کے اہم ماخذوں کو اپنے حملہ مکران میں تباہ وبرباد کرکے ضائع
کیاتھا لہٰذا اس فرقے کے بابت بنیادی ماخذانتہائی قلیل ہیں اور بھی عام
آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔ مکران کے حکمران چونکہ مہدوی تحریک سے متاثر
تھے لہٰذا یہ ممکن ہے کہ ان کی طرزِ حکمرانی پرسید محمد جونپوری کے تعلیمات
کا اثر ہواجن کا لبالب یہ ہے۔
۱۔مہدوی، مساوات پر مبنی ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے تھے جس میں
معاشی پیداوار عوام الناس میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کئے جاسکیں۔ اس
معاشرے میں اجتماعی محنت کو بنیادی درجہ حاصل ہے
۔۲۔ فرد کی وفات کے بعد اس کی جائیداد کو سماج اور ضرورت مند افراد میں
برابر تقسیم کیاجاتاتھا۔
۳۔ذکری فرقے کے ماننے والے بلا تخصیص رنگ و نسل برابر ہیں۔
۴۔اپنے بھائیوں کی امداد اور مشکل قوت میں کام آنا ذکریت کی بنیادی جُز ہے.
۵۔ذکری فرقے میں عورتوں کو اہم مقام حاصل ہے اور برابری کی بنیاد پر ان سے
برتاؤ کیا جاتاہے۔
مشہور بلوچ مؤرخ میرگل خان نصیر تاریخ بلوچستان میں اسی حملے کے حوالے سے
لکھتے ہیں کہ: ملک دینارگچکی کی سرداری سے قبل کیچ پر بلیدیوں کی سرداری
تھی۔ ملک دینار گچکی ان دنوں ذکری فرقے کا خلیفہ تھا۔بلیدی خاندان کا آخری
حکمران شئے قاسم تھاجوشئے بلار بھتیجاتھا۔ اُسے ملک دینار گچکی کے ہاتھوں
ہوئی اور وہ جنگ میں مارا گیا۔ اس طرح مکران پر گچکیوں کی حکومت قائم ہوئی۔
ان کے زمانے میں ذکری فرقہ مکران میں کافی پھیلا پھولا۔شئے بلال کا بیٹا
نور محمد بلیدہی کیچ سے ہجرت کرکے قلات پہنچا اور چند سال میرنصیرخان نوری
کی خدمت میں رہا ۔ اُس نے ذکریوں کے ارتداد سے میرنصیرخان نوری کو روشناس
کرایا اور اس کے دل میں ذکریوں کے خلاف انتہائی نفرت پیدا کرکے میرنصیر خان
نوری کو کیچ پر حملہ کے لیے جانے پر آمادہ کرلیا۔میر نصیر خان نوری نے
1756-57میں اپنے قبائلی دستوں کو سمیٹ کر پنجگور کے راستے کیچ پر حملہ
کردیا۔ ملک دینار گچکی سردار کیچ کی مختلف ٹولیوں کے ساتھ اثناء راہ تربت
تک معمولی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ اور ہر بار ملک دینار کی ان غیر منظم ٹولیوں
کو منتشر ہوناہی پڑتا۔ تاکہ تربت کے نواح میں ملک دینارخود ایک بہت بڑی
جمعیت کے ساتھ میرنصیر خان نوری کے لشکر کت سامنے صف آراء ہوگیا۔ زبردست
لڑائی ہوئی اور آخرکار ملک دینارنے شکست کھاکرتمپ کے قلعہ میں جاکر دم لیا۔
اور اس کا بیٹا بھاگ کر گوادر چلاگیا۔(جو بعد میں مسلمان بن کر شیخ عمر کے
نام سے مشہور ہوا)۔ میر نصیرخان نے تربت سے آگے بڑھ کر تمپ کے قلعہ میں ملک
دینارکو پھر گھیرلیا۔ کئی دن تک قلعہ کا محاصرہ جاری رہا۔ آخر کار ملک
دینار مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دئیے اور گرفتار ہوا۔میر نصیر خان نے ملک
دینار گچکی کو بہ زورشمشیر نماز پڑھنے کو کہالیکن ملک دینار گچکی نے انکار
کردیا۔ قاضی اور علماء نے ہرچندملک دینارگچکی کو سُنی بنانے کی کوشش کی۔
لیکن ذکری فرقے کے خلیفہ ہونے کی اور اپنے مذہبی عقیدہ پر قائم رہنے اور
ذکری فرقے کی بقا کو پیش نظر رکھ کر اُس نے نماز پڑھنے سے انکار کیا اور
اپنے روحانی عقیدے پرڈٹا رہا۔ الغرض میر نصیر خان نے مایوس ہوکر اُس کے قتل
کا حکم دے دیا۔ سابق حاکم کیچ شئے بلال بلیدہی کے بیٹے نور محمد بلیدہی نے
تلوار کمان سے نکال کر ذکری فرقے کے خلیفہ ملک دینار گچکی کا سر تن سے جدا
کردیا۔ملک دینار کے قتل سے فارغ ہوکر میر نصیر خان تمپ سے واپس کیچ پہنچا
اوراُس کے بیٹے میر عمر کوگرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے چند وقت
کیچ میں مقیم رہا۔
نصیرخان کے پیشتروخوانین قلات کا وطیرہ تھا کہ جب ان کے دشمن ہتھیار ڈال
دیتے تھے تو وہ فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے ان کی جان بخشی کرلیتے تھے۔ لیکن
نصیر خان جسے تاریخ بلوچستان میں ’’ نوری‘‘ اور ’’ولی‘‘ اور ’’خان اِعظم‘‘
کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اُس نے ذکری فرقے کے خلیفہ اور حاکمِ کیچ ملک
دینار گچکی کے معاملے میں اپنے پیشروؤں کی روایات کو پامال کیا اورہتھیار
ڈالنے کے باوجود اُن کی جان لے لی۔9جب کہ میر نصیر خان نے قلعہ تمپ میں ملک
دینار گچکی کا محاصرہ کیا ہوا تھا۔ ملک دینارنے اپنے بھائی میر شاہ بیگ کو
خفیہ راستے سے قلعہ سے نکال کر احمد شاہ ابدالی کے پاس فریادی قندھار
بھیجواتھا۔ شاہ بیگ کے قندھار پہنچنے پر احمد شاہ ابدالی نے اپنے ایک تیز
رفتار قاصد کے ذریعے میر نصیرخان کے نام اپنا شاہی فرمان روانہ کیا۔مکران
میں خون بہانے اور فتح حاصل کرنے کے باوجود احمد شاہ کے حکم پر میر نصیرخان
جس طرح بے نیل و مرام واپس ہوا تھا، وہ اسے کبھی مراموش نہیں کرسکتاتھا، اس
وقت مکران میں میر نصیر خان کے اقتدارسے تقریباآزاد ہوچکاتھا۔اور میرعمر بن
ملک دینار گچکی کی سرداری سے مکران پر ذکریوں کی طاقت پھر بحال ہوچکی تھی۔
اس لیے اب احمد شاہ ابدالی کی مداخلت بیجاکے قصہ کو نپٹانے کے بعد میر
نصیرخان نے پھر مکران کی طرف توجہ کی اور ایک مختصر وقفے کے بعد ایک
جرأرلشکر لے کر پنجگور کے راستے کیچ پر حملہ کردیا۔پنجگور سے میر نصیر خان
نے میر عمر گچکی کو لکھا کہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکراطاعت قبول کرے مگر
میر عمر نے اطاعت پزیر ہونے سے انکار کردیااور مقابلہ پر نکل آیا۔ میر نصیر
خان نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ پنجگور سے آگے بڑھا، کیچ کے نواح میں میر
عمرکے لشکر کے ساتھ اس کی مڈبھیڑ ہوئی، میر عمر شکست کھاکر ناصرآبادکی طرف
فراف ہوگیااور میرنصیرخان نے کیچ پر قبضہ کرلیا۔جب میر عمر شکست کھا کر
ناصرآبادکے قعلہ میں پناہ گزین ہوچکا تھا، مکرانی قبائل جوق درجوق اس کے
پاس ناصرآباد کے قعلہ میں جمع ہورہے تھے۔چند دن سستانے کے بعد میر نصیرخان
نے ناصرآبادپر حملہ کردیا۔میر عمر گچکی اپنے بہادر ساتھیوں کے ساتھ قلعہ سے
باہرنکلا ، قلعہ کے سامنے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔مکرانی لشکر نے جم کر
مقابلہ کیااور ایسی شدید مزاحمت پیش کی کہ جس کی نظیر نہیں دیکھی گئی
تھی۔آخرکار ایک شدید معرکہ آرائی کے بعد سردارمیر عمر گچکی شکست
کھاکرگرفتار ہوگیا۔ اور اس کا لشکر منتشر ہوکر راہِ فرار اختیار کرگیا۔
میرقاسم گچکی بھی اس لڑائی میں سردار میر عمر کے ساتھ گرفتار ہوا۔اس لڑائی
میں میر نصیر خان کے لشکر کابھی شدید نقصان ہوا، بقول ’’میسن‘‘ انگریزسیاح
،میرنصیر خان کی طرف سے ایک میرپُردل خان ذگرمینگل اور آٹھ سو افراد لشکر
اس معرکہ میں کام آئے، کہتے ہیں کہ میر نصیرخان کو اس تباہ کن فتح پر خوشی
نہیں ہوئی بلکہ اسے ایک شدیدصدمہ ہوا کہ جنگی لباس اتار کر اُس نے ماتمی
چادر اوڑھ لی اور لشکریوں کو ذکریوں کے قتل و غارتگری کا عام حکم دے دیا۔
جنہوں نے ذکریوں کو ڈھونڈ ڈھونڈکرقتل کیا۔آخرکارکئی دنوں تک ناصرآباداور
کیچ میں بربریت کامظاہرہ کرنے کے بعد میر نصیر خان نے واپسی کا ارادہ کیا۔
لیکن اس مرتبہ کیچ کوخودسر نہ چھوڑا بلکہ اس پر قضے کو بحال رکھنے کی
خاطرمیرنصیرخان نے میر دوستین ولد سردار فقیر محمد میرواڑی کو کیچ کا حاکم
مقرر کرکے قلعہ تربت میں مامور کیا۔اور میر زرک سردارزہری کوسات سو آدمیوں
کے ساتھ میردوستین کا فوجی معاون مقرر کرکے قلعہ میری میں متعین کردیا۔ اور
خود سردار میرعمرگچکی میر قاسم اور دیگراسیرانِ جنگ کو ساتھ لے کر اپنے
بقایا لشکر کے ساتھ عازمِ قلات ہوا۔سردارمیر عمر، میرقاسم اور کئی دیگر
معتبر گچکی جو ، اب تک ذکری فرقے کے پیروکار تھے، میر نصیر خان کے پاس قلات
میں قید تھے۔ اور مکران میں میردوستین اور میر زرّک کی موجودگی میں تقریباً
امن بحال ہوچکا تھا۔کیچ کے پسماندہ گچکیوں میں سے سردار میر عمر کی گرفتاری
کے بعد سرداری کے کئی دعویدار پیداہوچکے تھے۔جو سرداری حاصل کرنے کے لیے
میرنصیر خان کی خوشامدیں کیا کرتے تھے۔ لیکن میر نصیر خان کا ارادہ اب کیچ
میں کوئی گچکی سردار مقرر کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ جب سردار میر قاسم اور میر
عمر کو قلات میں نصیر خان کے ارداے کا علم ہوا تو سخت گھبرائے اور مکران
میں پھر بغاوت پھیلانے کی کوشش میں لگ گئے۔ ایک رات گچکی ، ایک کثیر جمعیت
کے ساتھ تربت کے قلعہ میں اچانک داخل ہوگئے۔ میر دوستین میرواڑی کے آدمی
حواس باختہ ہوکر سراسیمہ ہوگئے۔ لیکن میر دوستین نے مردانہ وار مقابلہ
کیااور ماراگیا۔ اور اُس کے ساتھی سرپرپاؤں رکھ کر بھاگ گئے۔ اور گچکیوں نے
تربت قلعہ پر قبضہ کرلیا۔کیچ میں ایک ہمہ گیر بغاوت پھیل گئی۔ دوسرے دن
باغیوں نے قلعہ تربت نکل کر قلعہ میری پر شدید حملہ کیا۔ میر زرّک پر سخت
دباؤ ڈالاگیا، جس سے میر زرّک کے حوصلے ہوگئے اور رات کے وقت اپنے آدمیوں
کو قلعہ میں محصور چھوڑ کر میر زرّک صرف چند سواروں کے ساتھ خفیہ راستے سے
قلعہ سے باہرنکلا اور شب و روز ایک کرکے قلات پہنچا۔کیچ اب پھر میرنصیرخان
کے ہاتھوں سے نکل گیاتھا۔ لیکن اس نے گچکی قیدیوں کو پھر بھی رہا نہ کیا۔
بلکہ سرداران قبائل کو ایک مضبوط لشکر جمع کرنے کا حکم دے دیا۔ سردار
میرعمراور میرقاسم کو جب خان کے ارادوں کا علم ہوا تو وہ خوفزدہ ہوگئے۔ ان
کو معلوم تھا کہ اس دفعہ مکران پہنچ کر میرنصیرخان کیچ میں کیا کچھ تباہی
نہ مچائے گا۔ اس لئے کیچ کو تباہی سے بچانے کے لیے اور اپنی آزادی حاصل
کرنے کے لیے انہوں نے ایک اور راستہ اختیار کیا یعنی ذکریت سے تائب ہوگئے۔
میر نصیرخان کٹر مذہبی آدمی تھا اس کو جب یہ اطلاع ملی تو بہت خوش ہوا۔ اسی
وقت میرشئے عمر کو قیدسے نکال کع خلعت پہنایا اور اس کے ساتھوں کو انعام و
کرام سے سرفراز کیا اور پھر چنددنوں کے بعد میر شئے عمر کو کیچ کی سرداری
پر بحال کرکے سردار حاجی محمد خان شاہوانی کی سربراہی میں ایک امدادی
لشکرکے ساتھ کیچ روانہ کردیا۔سردار میرشئے عمرخان نے کچھ عرصہ بلامزاحمت
سرداری کی۔ مگر چونکہ وہ ذکریت سے تائب ہوگیاتھا اس لیے گچکی جو زیادہ تر
ذکری تھے، اُسے پسند نہیں کرتے تھے اور رفتہ رفتہ انہوں نے اس کے چھوٹے
بھائی میرشکراللہ کو جو، اب تک ذکری تھا، اس کے مقابلے پر کھڑا کردیا۔
سردار شئے عمر نے میر شکر اللہ کو دبانا چاہا اس سے میر شکر اللہ کو کیچ کا
سردار مقرر کردیا اور میر شئے عمر کیچ سے فرار ہوکر بمقام گنداوہ میر نصیر
خان کے پاس پہنچا۔
میرنصیرخان اب مکران کو اپنا حصّہ لیے بغیر اس طرح چھوڑنا نہیں چاہتاتھا۔
مکران پر پے درپے حملوں میں اس کا جانی اور مالی نقصان بہت ہوچکاتھا۔اس لیے
میرنصیرخان نے میرکرم شاہ سردار پنجگور اور میرشئے عمرسردار کیچ سے اس
نقصان کے عوض میں جو،ان کی سرداریوں کو بحال کرانے اور مکران میں امن قائم
کرنے میں ہواتھا، ان کی کیچ اور پنجگور کی ملکیت سے نصف آمدنی کا مطالبہ
کیا۔ سردار کرم شاہ اور سردار میرشئے عمرکو نکار کی جرأت نہیں ہوسکتی تھی۔
کیونکہ ان کو معلوم ہوچکاتھاکہ وہ میر نصیر خان کی امدادواعانت اور سرپرستی
کے بغیر ذکریوں کے مقابلے میں اپنی حفاظت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ اس لیے
انہوں نے بلاچون و چرا کیچ اور پنجگور کی نصف آمدنی میر نصیر خان کو
دینامنظور کرلی۔ اس طرح مکران پر میرنصیرخان کی گرفت مضبوط اور قبضہ مستحکم
ہوگیا۔سردار شئے عمر کے مقابلے میں ذکری طائفہ اب تک مضبوط تھا۔ سردار شئے
عمر ذاتی طور پر بھی کمزور اور سرداری کا اہل نہ تھا۔ بلیدی کیچ پر
میرنصیرخان کے حملوں اور اپنی تباہی کا کارن شئے عمر کو خیال کرتے تھے۔ اس
لیے اس سے ناراض تھے اور ہمیشہ بدلہ لینے کی تاک میں رہا کرتے تھے۔ آخرکار
ایک دن موقع پاکر شئے قاسم بلیدی نے سردار شہ عمر کو قتل کردیا۔ اس سے
مکران میں پھر خانہ جنگی شروع ہوگئی اور سردار شئے عمر کا بیٹا شئے محمد
فرار ہوکر میرنصیرخان کی خدمت میں قلات پہنچا۔اس دفعہ نصیر خان نے آخوند
فتح محمد کو لشکر دے کر میر شئے محمد کی امداد کو کیچ روانہ کیا انہوں نے
شئے قاسم بلیدی سے معرکہ کرکے اُس کی سرداری چین کر شئے محمد کو سردار مقرر
کیا۔کیچ کے گچکیوں اور بلیدیوں نے معفقہ طور پر ان کی سرداری کی مخالفت کی
اور اپنی طرف سے شئے بائیان کوسردار مقررکرنا چاہا۔ شئے محمد، شئے بائیان
اور شئے قاسم کو آخوند اپنے ساتھ لے کر واپس قلات چلا آیا اور معاملہ نصیر
خان کے ساتھ رکھا۔ نصیر خان شئے محمد کی جگہ شئے بائیان کو کیچ کا سردار
مقرر کردیا۔ اسی وقت میرنصیر خان شئے قاسم بلیدی کو سردار سئے عمر کے قتی
کے جرم میں قتل کرنا چاہتا تھا لیکن آخوند محمد نے اُن کی جان بچائی۔میر
نصیر خان نے شئے بائیان کو کیچ کا سردار مقرر کرنے کے بعد میر چزوشاہوانی
کے ساتھ ایک لشکر دے کر کیچ روانہ کردیا میر چزو شاہوانی نے کیچ پہنچ کر
سردار شئے بائیان کو قلعہ میری میں بٹھاکر نصیرخان نوری کی طرف سے تمام
باشندگان کیچ کے نام ایک عام اعلان جاری کیا کہ سردار شئے بائیان کی بطور
سردار کیچ اطاعت قبول کی جائے۔ بلیدیوں نے پھر انکار کیا درحقیقت شئے بلال
کے توسط سے بلیدی کیچ کی سرداری کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ کسی گچکی
کی سرداری برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ بلیدیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میر چزو
شاہوانی کی طاقت ناکافی تھی۔ اس لیے نصیر خان نوری نے بلیدیوں کی سرکوبی کے
لیے مزید لشکر روانہ کیا۔ بلیدیوں نے چزوشاہوانی کے لشکر کا خوب مقابلہ کیا
مگر کئی لاشیں میدان میں چھوڑ کر منتشر ہوگئے۔چالیس معتبر بلیدیوں نے آکر
میر چزوشاہوانی کو سلام کیا۔ مگر میر چزونے نہایت سفّاکی اور بیدری کے ساتھ
ان سب کو تہہ تیغ کردیا۔اور اس ناشائستہ اور معطون طریقے سے اس نے بلیدیوں
کی شورش کا کاتمہ کردیا۔کیچ پر مکمل قضہ کرنے بعد اب نصیرخان نوری ایرانی
علاقہ کسر قند پر قبضہ کرنے کا ارادہ کرچکے تھے۔ چنانچہ ساروان اور
جھالاوان کا کلہم لشکر ساتھ لے کر کیچ پہنچے اور یہاں سے میرچزوشاہوانی کے
زیر کمان لشکر بھی ساتھ لے کر میر نصیر خان دزّک کی طرف آگے بڑھا اور بغیر
کسی مزاحمت کے اُس نے دزّک پر قبضہ کرلیا اور سردار نعمت اللہ خان کو خلعت
دے کر تمام دزّک و کسر قند کا حاکم مقرر کردیا۔کیچ پہنچ کر میر نصیر خان کو
پھر ذکریوں کے ابھارکی خبر ملی اس فتنہ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے
میر نصیر خان نے ایک مرتبہ پھر ذکریوں کا قتل عام کا حکم دے دیا۔ بے شمار
ذکری قتل ہوئے۔ بہت سے تائب ہوگئے اور کئی علاقہ چھوڑ کر کہیں اور نکل گئے۔
ان کے مال مویشی لُوٹے گئے، آبادیاں تاراج کی گئیں اور جائیدادیں ضبط کی
گئیں۔ الغرض اس متشدد طریقہ پر ذکریوں کے ساتھ نپٹنے اور آئندہ بغاوت کرنے
کیے تمام ذرائع کو مسدود کرنے کے بعد میرنصیرخان قلات کو واپس لوٹا۔
اسی طرح ایک آزاد ذکری ریاست دنیا کے نقشے سے غائب ہوگیااور ذکری فرقہ کے
بیشتر افراد بے یارومددگارخدا کے رحم و کرم پر رہے اور کسی کو ذرا بھی موقع
ملا تو وہ وہاں سے کوچ کرگیا اور ایران سے لے کر خلیج ، سندھ اورہندوستان
تک ہجرت کرگئے کیوں کہ انہیں مکران کے سنی علمائے کرام کے متعصب رویوں اور
من گھڑت کہانیوں کی وجہ سے مذہبی اور سماجی امتیازکا سامنارہا اوراٹھارویں
صدی کے وسط سے مکران خوانین قلات کے ماتحتی میں آیااور اسی زمانے میں مکران
کے مقامی خودمختار میر اور کہدہ ایک انسانیت سوز تجارت میں سرگرم ہوگئے جس
میں ٓزاد پیدا ہونے والے انسانوں کو غلام بناکرانہیں حیوانوں کی طرح بازار
میں فروخت کیا گیا۔ |