رب دو جہاں نے یہ کائنات تخلیق کی تو خوبصورتی اور قرینہ
اسکا اہم جزو پایا۔
مادی چیزوں کے ساتھ ساتھ اسے سجایا تو خوبصورت رشتوں کے ساتھ اسکی رونق میں
اضافہ کیا۔ دنیا کی رونق تو رشتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔
اور باپ اور بیٹی کا رشتہ دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ ہے۔
کیونکہ اس رشتہ میں کائنات کی خوبصورتی کا ہر رنگ موجود ہے، موسم جیسی سختی،
ہواؤں جیسی نرمی اور پھولوں جیسا خلوص اور خوبصورتی۔
اس رشتے کی خوبصورتی کو وجاحت سے بیان کرنے کے لئے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
اور حضرت فاطمہ ؓ کی ذات اقدس کو بطور نمونہ پیش کیا۔ حضرت فاطمہ ؓ حضور
صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ ؓ کی اکلوتی پیٹی تھیں، آپ نے معراج رسالت
کے بعد۵ بعثت میں بتاریخ ۲۰ جمادی الثانی یوم جمعہ مکہ معظمہ میں جنم لیا۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو آپ ؓ سے بے انتہا محبت تھی۔ جب آپ کمسن تھیں تو
آپ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کو اپنی آغوش میں اٹھا لیتے اور آپ ؓ کے لبوں پر بوسہ
دیتے۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا تھا کہ جب وہ (حضور ﷺ) حضرت جبرائیل
علیہ السلام سے ساتھ معراج پر تشریف لے گئے تو انہوں نے حضور ﷺ کو محبت کا
سیب دیا تھا، حضور ﷺ نے اس سیب کو کھایا اور حضرت فاطمہ ؓ کا نقطہ وجود
قائم ہوا، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’عائشہ ؓ! جب میں جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو فاطمہ ؓ کی خوشبو سونگتا ہوں
اور دہن فاطمہؓ سے میوۂ جنت کا لطف اٹھا تا ہوں۔
حضرت فاطمہ ؓ پانچ برس کی تھیں تو ان کی والدہ کا انتقال ہو گیااور آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت حضرت ام سلمہ ؓ کے ہاتھوں انجام پائی۔
آپ ؓ بچپن سے عفت و طہارت کا پیکر تھیں آپ ؓ بچپن سے حضور ﷺ کے قری تھیں۔
آپ ﷺایک بار صحنِ کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے کہ ابو جہل نے حالت سجدہ
میں اونٹ کی اوجڑی حضور ﷺ کی پشتِ مبارک پر رکھ دی۔حضرت فاطمہ ؓ نے آکر
پشتِ مبارک دھوئی اور اوجڑی ہٹا دی، حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایک دن دشمن بھی
مغلوب ہوگا اور خدا میرے دین کو بلند عطا کرے گا۔
حضور ﷺ کی اپنی بیٹی سے محبت مثالی تھی۔ آپ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ کو جنت کی
تمام عورتوں کی سردار قرار دیا ہے۔
جب حضرت فاطمہ ؓ سنِ بلوغت میں پہنچی تو حضور ﷺ نے حضرت علی ؓ کو آپ ؓ کے
لئے بطور شریک حیات منتخب کیااور ددعا فرمائی کہ اے اﷲ میں انہیں اور انکی
اولاد کو شیطان سے شر سے تیری پناہ میں دیتا ہوں پھر محبت کرنے والے باپ نے
حضرت علی ؓ سے فرمایا کہ فاطمہ ؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے کوئی ایسی بات نہ
کرنا کہ اسے ملال ہو۔
آپ باپ بیٹی میں ذہنی و طابقت بہت کمال کی تھی۔ ایک مرتبہ حضور ﷺ نے ممبر
پر یہ سوال کیا کہ عورت کے لئے سب سے بہتر چیز کہا ہے؟ یہ بات سیدہ تک
پہنچی آپ نے جواب دیا کہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ نہ اس پر کسی
غیرمرد کی نظر پڑے اور نہ کسی غیر مرد پر اسکی نظر پڑے۔ رسول ﷺ کے سامنے یہ
جواب پیش ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا، کیوں نہ ہو فاطمہؓ میرا ہی ایک جزو ہے۔
حضرت فاطمہ ؓ کو حضور ﷺ نے ایک نصیحت کی تھی کہ علیؓ سے بے جا سوال نہ
کرنایہ دنیا میں سب سے اعلیٰ اور افضل ہے لیکن دولت مند نہیں ہے۔
آپ نے ایک فرمانبردار بیٹی کی حیثیت سے آپ نے یہ بات گرہ سے باندھ لی۔
ٓآپ نے اپنے پدر بزرگ والے کے ہمراہ ۱۰ ہجری میں آخری حج فرمایا۔ حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ فاطمہ ؓ بہشت میں جانے والی عورتوں کی سردار ہیں۔ آپ کی
رضا سے اﷲ کی رضا حاصل ہوتی ہے، جس نے فاطمہؓ کو ایذا دی اس نے مجھے(حضور
ﷺ) کو ایذا دی۔
حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ مردوں میں بہت کامل لوگ گزرے ہیں لیکن عورتوں میں صرف
چار عورتیں کامل گزری ہیں۔
مریم ؓ، آسیہ ؓ، خدیجہ ؓ اور فاطمہ ؓ اور ان میں سب سے بڑا درجہ کمال
فاطمہؓ کو حاصل ہے۔
علما کا بیان ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ زہراؓ سے اس
قدر محبت تھی کہ آپ ﷺ انہیں اپنا محنتِ جگر کہتے تھے۔
جب کسی غزوہ میں تشریف لیجاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ سے ملاقات
کرتے، جب حضرت فاطمہؓ آتی تھیں آپ ﷺ تعظیم میں کھڑے ہو جاتے اور اپنی جگہ
پر بٹھا تے تھے۔ مختلف کتب محاص میں کوجود ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایانے فرمایا
کہ ــ’’ فاطمہؓ میرا جزو ہے جو اسے اذیت پہنچائے گا وہ مجھے اذیت دے گا‘‘۔
مؤرخین و محدثین کا اتفاق ہے کہ نزول آیہ طیہر کے بعد سرور دو عالم در
فاطمہؓ پر نو ماہ مسلسل بوقت نماز صبح جاکر آواز دیتے اور فطرِ مسرت میں
فرمایا کرتے تھے کہ اﷲ نے تمہیں ہر طرح کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رکھا ہے۔
باپ بیٹی ایک دوسرے کی آنکھو ں کی ٹھنڈک تھے، وقتِ آخر سرورِ کائنات ﷺ کا
سرِ مبارک حضرت فاطمہؓ کے زانو پر تھا۔
حضرت فاطمہؓ حضور ﷺ کی وفات کے بعد پچھتر دن بعد انتقال فرماگئیں۔
یہ ہیں باپ بیٹی کے رشتے کے چند خوبصورت پہلوجو مسلمان ہونے کی حیثیت سے
ہمارے لئے قابلِ تقلید ہیں اور حضرت فاطمہؓ نے چودہ سو سال پہلے علمی صورت
میں پیش کر دیئے تھے۔ |