لفظ میرے اساتذہ کی کمال عطا ء اور عنائت سے میرے رفیق
ہیں۔سوچ سے پہلے پروں کے پرے اترتے ہیں۔ایک سے بڑھ کے ایک تیکھا لفظ لیکن
پچھلے سات سال سے ایک مضمون ایسا ہے کہ جب بھی اس پہ لکھنے کی کوشش کی سارے
لفظ آنسو بن کے آنکھوں کے راستے بہہ جاتے ہیں اور میں اپنی حرماں نصیبی کا
ماتم کرتا رہ جاتا ہوں۔دراصل یہ انہی کی تربیت ہے انہی کا عمل۔اپنے دکھ اور
اپنی مصیبتیں عام کرنے کی نہیں ہوتیں اور نہ اپنے بین یہ تو اﷲ اور بندے کا
معاملہ ہوتا ہے۔کہنا ہو کچھ کرنا ہو لکھنا ہو تو اﷲ کی مخلوق کے لئے کہو
لکھو اور ہو سکے تو کچھ کر لو کہ مخلوق اﷲ کا عیال یعنی خاندان ہے۔اﷲ کو اس
سے بڑا پیار ہے۔حاجی میر افضل صاحب اﷲ انہیں غریقِ رحمت کرے، ساری حیاتی اس
کا عملی نمونہ بنے رہے۔ سرکاری ملازم تھے۔عیالدار تھے اور پھر دس میں سے
پانچ معذور بچے۔تھوڑی سی تنخواہ۔ہمیشہ عسرت میں بسر کی اور کمال یہ کہ
تنخواہ ملتے ہی گھر کے سودا سلف کی فکر بعد میں کرتے اور اپنے گاؤں اپنے
علاقے میں قال اﷲ اور قال الرسول ﷺکا غم پہلے۔اپنے بچوں سے زیادہ انہیں ان
بچوں کی فکر ہوا کرتی جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اﷲ کی راہ میں نکلے ہوئے تھے۔
بچپن ان بچوں پہ رشک کرتے گذرا ۔رشک کیا حسد کہئیے کہ ابا جی ہم سے زیادہ
ان سے پیار کرتے ہیں۔ ہمارے حصے کا انہیں کھلاتے ہیں۔ گاؤں میں مذہب سے
لگاؤ تو بہت تھا کہ سبھی مسلمان تھے۔ غربت لیکن اس قدر تھی کہ خدا سے پہلے
لوگوں کو پیٹ کی فکر ہوا کرتی۔نماز پڑھنے کا رواج تو تب ہوتا کہ کسی کو
نماز کا طریقہ معلوم ہوتا۔روزے البتہ تواتر سے رکھے جاتے کہ ان میں کھانے
پینے کے جنجھٹ سے مذہبی آڑ میں سہارا مل جایا کرتا۔ شہروں میں لوگ اپنے
پانچ اور سات سالہ بچوں کی روزہ کشائی کی تصویریں اخباروں میں چھپواتے
ہیں۔اس لحاظ سے تو ہمارے علاقے کے سارے بچے ہی اخبار میں چھاپنے لائق تھے
کہ تین سال کی عمر میں روزے رکھنا شروع کرتے۔ابا جی گاؤں سے شہر آئے تو
انہیں اندازہ ہوا کہ ہم اﷲ سے کتنی دور ہیں۔گاؤں میں دینی تعلیم اور ایک
شاندار مسجد ان کا خواب تھا۔وہ چاہتے تھے کہ اﷲ کا نور ان کے بھائی بندوں
تک بھی پہنچے ۔اس علاقے میں بھی اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کے نغمے
گونجیں۔ میں نے انہی سے سیکھا کہ وسائل کی کمی آپ کے ارداوں کی راہ میں
کبھی حائل نہیں ہوتی۔لگن ہو اور جذبے صادق تو اﷲ کریم غیب سے اسباب پیدا
کردیتا ہے۔
خود دار ایسے کہ اپنی کسی ضرورت کے لئے کبھی اپنی اولاد سے بھی کچھ نہ
مانگا۔اﷲ کے لئے لیکن انہوں نے جھولی پھیلانے میں بھی کبھی عار نہ
سمجھی۔گاؤں میں ان کے ساتھ پیدل سفر بڑی آزمائش ہوا کرتا۔ میل کا سفر
گھنٹوں میں طے ہوتا۔ راستے میں ملنے والے ہر شخص سے اس کے نومولود
اورنوزائیدہ تک کا احوال نام لے کے پوچھا کرتے۔وسائل ہیں سہولیات ہیں لیکن
ہمیں اپنی بھی خبر نہیں ہوتی انہیں سب کا پتہ ہوتا اور سب کی وہ خبر رکھا
کرتے ۔مخلوق سے انہیں اﷲ واسطے کا پیار تھا۔کسی کا غم کسی کا دکھ اور کسی
کا مسئلہ ان کا اپنا دکھ اور مسئلہ ہوتا تھا۔جب تک مسئلہ حل نہ ہو
جاتاانہیں سکون نہیں ملتا تھا۔نرم ونازک اس قدر کہ چلتے ہوئے پاؤں پہ چھالے
پڑ جایا کرتے لیکن مسجدکا کام انہوں نے شروع کیا تو اس کا تعمیراتی سامان
اپنے کندھوں پہ ڈھویا کرتے۔اکیلے چلے تھے ان کی محنت اور خلوص سے لوگ ملتے
گئے اور کارواں بننا شروع ہوا۔مسجد بن گئی تو اس کے لئے اپنے وقت کے جید
علماء کی خدمات حاصل کیں۔تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع ہوا تو قرآن پاک کی
تعلیم کے لئے ایک مدرسے کی داغ بیل ڈالی۔ بچے پڑھنے لگے تو ان کا کھانا خود
پکاتے ان کے کپڑے بھی دھوتے۔ہمارے لئے وہ ہمیشہ ایک انتہائی سخت گیر باپ
رہے لیکن ان بچوں کے لئے وہ بریشم کی طرح نرم تھے۔وقت کے جید علماء کو
وقتاََ فوقتاََ بلایا کرتے۔آج ہمارے ہاں ایک مہمان آ جائے تو تھرتھلی مچ
جاتی ہے ۔سوچتا ہوں کہ وہ کیسے بے سرو سامانی کے اس عالم میں بیسیوں
مہمانوں کو ہفتوں سنبھالا کرتے تھے۔مہمانداری کے اس اعزا ز میں ان کے
بردارِ نسبتی ملک گل حسن مرحوم نے خوب رفاقت نبھائی۔
اﷲ کریم اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے۔ان کی زندگی ان آزمائشوں اور
امتحانوں سے عبارت تھی۔گردے اور گنٹھیا کی تکلیف اور پھر شوگر کا مرض۔آخری
سالوں میں عارضہ قلب بھی لاحق ہوا۔ لیکن چہرے پہ بچوں جیسی معصومیت اور ہمہ
وقت رقصاں مسکراہٹ۔اﷲ کی مخلوق سے پیار کا انہیں یہ صلہ ملا کہ ان کے سارے
خواب پورے ہوئے۔علاقے میں سات گاؤں ہیں اور شاید ہی کسی گاؤں کا کوئی محلہ
ایسا ہو جس میں کوئی حافظِ قرآن نہ ہو۔ ایک شاندار مسجد اور اس کا بلندو
بالا مینار اور مسجد کے ساتھ بچیوں کے لئے ایک شاندار مدرسہ ان کے خواب کی
مکمل تعبیر ہے۔گلی بنیاں میں بنائی ان کی مسجد کو علاقے میں مرکزی حیثیت
حاصل ہے اور اسی مدرسے سے حفظ کی دستار باندھنے والے ایک نہایت چہیتے اور
محترم سید محبوب حسین شاہ اس کے خطیب اور مدرسے کے مہتمم ہیں۔علاوہ ازیں
دوسری مساجد میں بھی اب تعلیم و تعلم کا سلسہ جاری ہے اور علمائے کرام دین
اسلام کی ہمہ وقت ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں۔
وہ ہر سال سولہ جون کو اپنے مرشد پیر سید محمود شاہ صاحب کی اجازت سے ختم
قرآن کی ایک شاندار تقریب منعقد کیا کرتے۔ مرشد کی وفات کے بعد یہ ان کے
ایصال ثواب کی تقریب بن گئی۔اپریل دو ہزار چھ میں اپنے اعزا واقارب سے
ملاقاتیں کی۔ جو دور کہیں بستے تھے انہیں فون کیا۔اکثر لوگوں کو بتایا کہ
شاید اب ملاقات نہ ہو۔مئی کے آخری ہفتے میں ناسازیِ طبیعت کی بناء پہ
ہسپتال میں ایڈمٹ ہوئے۔اسی دوران اپنے بھانجے اور میرے دوست محمد اسلم کو
بتایا کہ سولہ جون میرا آخری دن ہو گا۔اپنے دوست کا خیال رکھنا لیکن وقت سے
پہلے اسے یہ بات نہ بتانا۔اس نے کچھ دن تو یہ بات اپنے تک رکھی لیکن پھر
مجھ سے ذکر کر دیا۔ میں کہ ان رموز سے واقف نہ تھا بات کو پا نہ سکا اور
اسے مذاق پہ محمول کیا۔ زندگی بھر کبھی ان کے چہرے کی سمت دیکھنے کی ہمت نہ
ہوئی لیکن آخری دو سالوں میں انہوں نے مجھے اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بھی
ان کی تربیت کا انداز تھا۔ سولہ جون دو ہزار چھ کو انہوں نے سوائے میرے
میری اہلیہ اور بیٹے کے باقی سب تیمارداروں کو سالانہ ختم قرآن کی تقریب
میں گھر بھیج دیا۔جمعہ کا دن تھا ۔نماز کے وقت ان کی طبیعت بگڑنا شروع
ہوئی۔انہوں نے دو دفعہ انتہائی بلند آواز سے یا رسول اﷲﷺ کہا۔پھر کلمہ پڑھا
اورسولہ جون کو عین نماز جمعہ کے وقت ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر
گئی۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
ابا جی دنیا میں نہیں رہے لیکن ہر سال ان سے محبت کرنے والے سولہ جون کو
جمع ہو کے انہیں یاد کرتے اور ان کے ایصالِ ثواب کے لئے دعا گو ہوتے ہیں۔
وہ ہم میں نہیں لیکن ان کی کہی ہوئی باتیں اور ان کا عمل ہمارے لئے مشعل
راہ ہے۔اﷲ کریم نے ان کے بعد زندگی ہمارے لئے بہت آسان کر دی ہے لیکن مخلوق
کی خدمت میں ہم ان کے پاسنگ بھی نہیں۔ قارئین سے درخواست ہے کہ جہاں ان کی
مغفرت کے لئے دعا کریں وہیں یہ دعا بھی کریں کہ اﷲ کریم ان کی اولاد کو
خدمت خلق کی ان کی سنت جاری و ساری رکھنے کی توفیق دے آمین |