فادرز ڈے کے موقع اپنے والد انیس احمد صمدانی مرحوم کو
خراجِ تحسین
جدا ہوئے ۱۸ سال ہوگئے لیکن ان کی یاد آج بھی تازہ ہے
ماں کے سا تھ ساتھ والد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک
میں فادر ز ڈے ہر سال جون کی تیسری اتوار کو منایا جاتا ہے۔ بعض ممالک دیگر
دنوں میں بھی اس دن کو اہتمام کرتے ہیں۔۲۰۱۳ میں یہ ۱۶ جون کو منا یا گیا ،
اس سال ۲۰۱۴ء میں جون کی تیسری اتوار ۱۵ جون کو اس دن کو فادرز ڈے کے طور
پر منا یا جارہا ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے حضرت عبد اﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
ارشاد فرمایا ’’اﷲ کی رضا باپ کی رضا میں ہے اور اﷲ کی ناراضی باپ کی
ناراضی میں ہے‘‘۔ایک اور حدیث جو ترمذی شریف ہی کی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ اس
حدیث کے روی ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ’’والد‘‘
کی فرماں برداری میں ہے‘‘۔
ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ ’صحابی رسول حضرت ابو الدروہؓ سے روایت ہے کہ
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔’’باپ‘‘ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تو چاہے
تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اسے بند کردے‘۔اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح
طور پر سامنے آجاتی ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور یہ جنت ماں کی
اطاعت، فرماں برداری اور اس کے رضا میں رکھی گئی ہے تو ’باپ‘ کی خدمت ،
اطاعت اور فرماں برداری اور اس کی رضا کا صلہ جنت میں داخلے کا باعث اور اس
کا درمیانی دروازہ ہے۔گویا ماں کی خدمت اور اطاعت کے ساتھ ساتھ باپ کی
اطاعت و فرماں برداری بھی لازم و ملزوم ہے۔ کوئی اگر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ
ماں کی خدمت کرکے جنت میں چلا جائے گا خواہ باپ کی فرماں برداری نہ کرے تو
یہ ممکن نہیں ۔ دونوں کی خدمت، اطاعت و فرماں برداری لازم و ملزوم ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ ارشاد فرماتے ہیں’تین آدمی ایسے ہیں جن کی دعا کبھی
رد نہیں ہوتی، باپ، مظلوم اور مسافر‘۔تابعی حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں’ باپ
کی دعا اور اﷲ عز و جل کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا‘۔ام المومنین
حضرت عائشہ ․صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہوا ، اس کے ساتھ ایک بزرگ بھی تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے اس شخص سے دریافت کیا کہ
تمہارے ساتھ یہ (بزرگ) کون ہیں؟ اس شخص نے جواب دیا ۔یا رسول اﷲ ﷺیہ میرے
والد بزرگوار ہیں۔ یہ سن کر آں حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’ والد کے
ادب و احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے ان سے آگے ہر گز نہ چلنا کہ اس سے ان کی
بے ادبی ہوگی۔ اپنے والد کے بیٹھنے سے پہلے ہر گز نہ بیٹھنا اور ان کا نام
لے کر انہیں نہ بلانا اور ان کی وجہ سے کسی کو گالی نہ دینا کہ جواباً وہ
بھی تمہارے والد کو گالی دے ‘۔ان احادیث مبارکہ سے باپ کی قدر و منزلت واضح
ہوجاتی ہے۔بقول شاعر عابیؔ لکھنوی
اگر ہو گود ماں کی تو فرشتے کچھ نہیں لکھتے
جو ممتا رُوٹھ جائے تو کنارے پھر نہیں دکھتے
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمامے بھر کے دکھ عابیؔ
سُنا ہے باپ زِندہ ہوتو کانٹے بھی نہیں چُھبتے
میرے والد محترم کا نام انیس احمد صمدانی تھا۔ ہم انہیں ’پاپا‘ کہا کرتے
تھے۔ جب کے والدہ کو ہمیشہ ’امی‘ کہا۔ باوجود اس کے کہ جس گھر میں ہم سات
بہن بھائی یکے بعد دیگر آئے ہم سے پہلے ہمارے والد صاحب کے دو بھائی (جلیس
احمد، مغیث احمد) اور تین بہنیں نسیمہ خاتون، مبینہ خاتون اور تسلیما
خاتون) موجود تھے اور وہ سب ہمارے والد صاحب کو بھائی صاحب اور ہماری امی
کو بھابی کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ اکثر گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے کہ گھر کے
دیگر افراد اپنے بڑوں کو جو کہتے ہوں وہی ان کے بچے بھی کہنے لگتے ہیں لیکن
ہم نے اپنے والدین کو بھائی صاحب اور بھابی نہیں کہا۔ اس کی بنیادی وجہ جو
سمجھ میں آتی ہے کہ ہمارے امی اور ابا رشتوں کو اہمیت دیا کرتے تھے۔ جس سے
جو رشتہ ہے اس کا احترام اور اہمیت دینے کا درس ان کا پہلا سبق تھا۔بعض
احباب اس بات کو اہمیت نہیں دیتے یا انہیں شوق ہوتا ہے کہ بچے انہیں بڑے
رشتہ سے مخاطب کریں مثلاً رشتہ چچا یا ،یا ،تائی یا چچی کا ہے انہیں ممی یا
ڈیڈی پکارا جارہا ہے، رشتہ پھوپی یا پھوپا کا ہے بچے ا نہیں پاپا اور امی
کہہ کر پکار رہے ہیں۔ بظاہر یہ عام اور چھوٹی بات لگی ہے لیکن انسان جس
رشتہ سے پکارا جاتا ہے اس سے اس کے وقار کا اندازہ ہوتا ہے۔ بعض لوگ دادا،
دادی، نانا اور نانی کے رتبے پر پہنچتے ہیں تو وہ اپنے پوتوں، پوتیوں ،
نواسے اور نواسیوں سے دادا ، دادی، نانا یا نانی کہلوانا پسند نہیں کرتے ۔
حالانکہ جب بچے انہیں ان کے رتبے سے پکارتے ہیں تو ان کی ان کی اس پکار سے
جو خوشی محسوس ہوتی ہے اس کا کوئی مول نہیں۔ ہمارے والدین نے ہمیشہ رشتوں
کو اہمیت دی۔ جس کا جو رشتہ ہے اسے اسی نام سے مخاطب کرانے کی تلقین کی۔
میں بھی اپنے والدین کی طرح رشتوں کی سچائی اور اہمیت کا قائل ہوں میرے بچے
مجھے ’ابو‘ اور اپنی ماں کو ’امی‘ ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح میرے پوتے مجھے
’دادا‘ او دادی کو ر’دادی‘جب کہ میرا نواسہ ارحم اور نواسیاں نیہا اور کشف
نانا اور نانی ہی کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ وقت ہوتا ہے جب ان کی اس پکار سے
میرے اندر خوشی کی ایسے لہر دوڑتی ہے جو مجھے توانا کردیتی ہے۔اردو کے
شاعرمعراج فیض آبادی نے کہا کہ میرے بچے مجھے بوڑھا ہونے نہیں دیتے ۔ میں
کہتا ہوں کہ میرے پوتے ، (پوتی ابھی نہیں ہے) ، نواسہ اور نواسیاں مجھے
توانا اور تندرست رکھتے ہیں انہیں دیکھ دیکھ کر اور ان کی زبان سے دادا اور
نانا سنتا ہوں تو میری روح توانا ہوجاتی ہے۔ بقول شاعر
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
میرے والد صاحب نے ایک حویلی نما گھر میں آنکھ کھولی۔ یہ حویلی آزاد منزل
کہلاتی تھی۔ حویلی کے مالک میرے والد صاحب کے دادا شیخ محمد ابرہیم آزاد
تھے اسی مناسبت سے یہ حویلی آ زاد منزل کہلاتی تھی۔ آ زاد صاحب ہندوستان
ریاست بیکانیرکے نامی گرامی وکیل تھے ۔بعد میں بیکانیر ہائی کورٹ کے چیف
جسٹس ہوئے۔ پیسے کی ریل پیل تھی ۔ پیسہ اچھائی اور برائی دونوں کام خوب خوب
انجام دیتا ہے۔ والد صاحب کے دادا حضور کی دولت نے ان کی اولاد کوسہل پسند
بنادیا ، آٹھ بیٹوں میں سے ایک یا دو ہی اپنے والد کے نقش قدم پر چلے
باقیوں نے اپنے والد کی دولت کو ہی اپنا مستقبل سمجھا ان میں سے ایک میرے
دادا بھی تھے یعنی میرے والد صاحب کے والد ِ محترم جو خود دار، دادی ان سے
بھی زیادہ خود دار تھیں۔ دولت کی چمک کچھ ہی دن میں ماند پڑ گئی ۔دادا نے
مختلف کاروبار کیے لیکن کسی میں بھی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اس صورت
حال نے ہمارے والد صاحب کو کم عمری میں ملازمت کرنا پڑی۔ اس زمانے میں وکیل
ہونے کے ساتھ ساتھ منشی ہونا بھی پڑھے لکھے لوگوں کا خاص ذریعہ معاش تھا
چناچہ والد صاحب منشی ہوگئے۔ مالی حالات نے انہیں صرف مڈل تک ہی تعلیم حاصل
کرنے دی اور وہ میٹرک بھی نہ کر سکے۔ اس زمانے کا مڈل پاس آج کل کے ایم اے
سے بہت آگے تھا۔ ان کی ملازمت کا سلسلہ جو ہندوستان میں شروع ہوا تھا زندگی
کے اختتام تک جاری و ساری رہا لیکن انہوں نے اپنی اولاد کو پڑھائی کی نہ
صرف ترغیب دی بلکہ ہمارے پڑھنے کے ب تمام وسائل مہیا کیے۔ والد صاحب مرحوم
کی خواہش تھی کہ ان کی اولادزیادہ سے زیادہ علم حاصل کرے۔
میری امی اورابا ۱۵مارچ ۱۹۴۷ء بروز ہفتہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ،گویا
قیام پاکستان سے صرف چھ ماہ قبل۔ والد صاحب ملازمت کی وجہ سے راجستھان کے
شہر گنگا نگر میں بہ سلسہ ملازمت رہا کرتے تھے، جب کہ دیگراہل خانہ بیکانیر
میں رہتے تھے۔ میرے والدین کی شادی کو چھ ماہ بھی نہ ہوئے تھے کہ پاکستان
کے قیام کا اعلان ہو گیا ۔ ہندوستان سے مسلمان ہجرت کرکے پاکستانی علاقوں
میں آنے لگے۔میرے والد صاحب ہندوستان کے شہرگنگا نگر کی عدالت میں پیشکار
تھے انہوں نے وہاں سے پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنا یا، ان
کے والد اور بہن بھائیوں نے بعد میں ہجرت کی اور کراچی منتقل ہوئے۔
پاپا مستقل مزاج تھے۔ ۱۹۴۷ء میں ہندوستان سے کراچی ہجرت کی ، ابتداء میں
ایک پرائیویٹ کمپنی ’انٹر نیشنل فارورڈنگ ‘ میں ملازمت کی جب یہ کمپنی بند
ہوگئی تو ایک اورکمپنی میں ملازمت مل گئی جس کے مالاکان پارسی تھی۔ تین
بھائیوں کی یہ کمپنی ’ایس پی گاندھی اینڈ کمپنی ‘ کہلاتی تھی ،تین بھائیوں
میں مینو، بہرام اور خورشید تھے۔ پاپا اسی کمپنی سے ریٹائر ہوئے ۔پرائیویٹ
کمپنی میں کام کرنے والے بہت جلد دل برداشتہ ہوجاتے ہیں اور ایک سے دوسری
اور دوسری سے تیسری جگہ ملازمت کرتے ہیں لیکن والدصاحب میں حوصلہ، قوت
برداشت ، در گزر کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔اپنی زندگی کا طویل عرصہ ایک
ہی کمپنی میں ملازمت کرتے ہوئے گزارا۔
پاپا رحم دل اور دوسروں کی پریشانیوں اور مشکلات کو حل کرنے میں ہر وقت
تیار رہا کرتے۔ہم کراچی کی ایک کچی بستی آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے۔
کچھ کچا اور کچھ پّکّا لیکن کشادہ مکان تھا، جس میں ہمارا خاندان یعنی امی
، ابا ، سات بہن بھائیوں کے علاوہ ہمارے دو چچا(جلیس احمد اور مغیث احمد)
اور دو پھو پھیاں (موبینہ خاتون اور تسلیمہ خاتون) بھی رہا کرتے تھے۔کمانے
والے ہمارے والد صاحب ہی تھے ،ہم سب بہن بھائی چھوٹے اورپڑھ رہے تھے، شاید
ہمارے چچا بھی کچھ کرنے لگے تھے، صحیح یاد نہیں، گزر بسر اچھے طریقے سے ہو
رہا تھاکیوں کہ والدصاحب اور والدہ دونوں ہی فضول خرچ نہیں تھے، قنائت پسند
تھے، تھوڑے کو بہت جانتے تھے ، ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو ہی دیکھا کرتے
تھے ، ہم نے انہیں کبھی اپنے سے اوپر والوں کے بارے میں بات کرتے نہیں
سنا۔ہمارے خاندان کے کئی احباب کو جب رہائش کی مشکلات کا سامنا ہوا تو والد
صاحب نے بے چون و چرا انہیں اپنے گھر میں جگہ دی۔ ان میں لئیق احمد مرحوم
جو ہماری امی کے رشتہ کے بھائی ہوتے تھے۔ وہ نامسا عد حالات سے دوچار ہوئے
ملازمت جاتی رہی لیکن خوددار تھے، حالات کا مقابلہ کرتے رہے ، اتنی مشکل آن
پڑی کے کرائے کے گھر میں رہنا بھی مشکل ہوگیا، مجبو رناً ہمارے والد صاحب
سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا انہوں نے بے چوں و چراں کرایہ کا مکان چھوڑ کر
اپنے گھر منتقل ہونے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ انہیں بمعہ ساز و سامان اپنے
گھر لے آئے۔ ہمارے والد صاحب اﷲ مغفرت کرے کسی بھی اپنے یا پرائے کا دکھ
تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا اس کی مدد کرنے میں کسی سے
مشورہ کرنا تو دور کی بات دیر نہیں کرتے تھے۔ یہ پہلا واقعہ نہ تھا وہ ایسا
پہلے بھی کئی بار کر چکے تھے۔ میرے والد صاحب کے ماموں جناب غلام مصطفی
سبزواری مرحوم کے سالے ضمیرحسن سبزواری مالی طور پر پریشانی کا شکار ہوئے
اور ان کے ساتھ بھی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کرایہ کے مکان میں رہنا مشکل
ہو گیا ۔ اس وقت بھی ہمارے والد صاحب نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی ،
ہمارے گھر کا صحن کافی بڑا تھا ، کمرے تو شاید ایک یا دو ہی تھے،آنگن میں
چھونپڑی ڈالی اور ہنسی خو شی کافی عرصہ رہتے رہے۔
خاندانوں کو اپنے گھر پناہ دینے کے علاوہ انفرادی طور پر مختلف شخصیات کو
دوران تعلیم اپنے گھر رکھنا، ان کے کھانے پینے کا ااہتمام کر نا بھی ہمارے
والد صاحب مرحوم کی زندگی کا حصہ تھا۔، ہمارے خاندان کے وہ احباب جو اندرون
ملک سے کراچی میں حصول تعلیم کے لیے آئے اکثر کو ہمارے والد صاحب نے اپنے
گھر پناہ دی اور جب تک انہوں نے اپنی تعلیم مکمل نہ کر لی، ان کی تمام تر
سہولیات کا خیال رکھا، مجھے ان میں سے بعض کے بارے میں علم ہے ،ایک شیخ
طاہر حسن جو میرے والد صاحب کے چچا’’ مفیق احمد مرحوم‘‘ کے متبنیٰ بیٹے
تھے، دوسرے شاہد احمد صدیقی واجد احمدمرحوم کے صاحبزاے تھے۔ میری یاد داشت
میں ہے کہ شکیل احمد سبزواری جو میرے ماموں زادبھائی تھے جب پنجاب سے کراچی
آئے تو ہمارے ہی گھر قیام کیا۔صوفی محمد احمد مرحوم بھی بہت عرصہ ہمارے ہی
گھر میں رہے۔ہم نے کسی لمحے اپنے والد صاحب کی زبان سے یہ بات نہیں سنی کہ
انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا، گویا وہ نیکی کر کے بھول جانے والوں
میں سے تھے۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ یہی حکمِ خدا وندی بھی ہے۔سورۃ
النحل آیت نمبر ۹۰، ارشادباری تعا لیٰ ہے’’ خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے
اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے ۔ ‘‘ ۔مجھے اچھی طرح
یاد ہے کہ ہماری گھر کی قریب ترین مسجد جس میں پاپا نماز پڑھنے جایا کرتے
اور اس کی انتظامی امور میں بھی شریک رہے کے پیش امام طویل عرصے تک ہمارے
گھر ایک وقت کھانا کھانے آیاکرتے تھے۔
ہمارے خاندان کے بزرگ فقہ حنفی سے تعلق رکھتے تھے،نذر و نیاز ، محفل میلاد
اوردرود و سلام کے قائل تھے ۔ میرے والد صاحب بھی انہی نظریات پر عمل پیرا
رہے۔ہم نے انہیں جوانی میں بھی نماز سے غافل نہیں دیکھا، ہمارے گھر کا
ماحول مذہبی تھا، گھر میں نعتِ رسول مقبولﷺ اورمیلاد کی محفلیں منعقد ہوا
کرتی تھیں۔ ہر اسلامی مہینے میں اس کے تقدس کی مناسبت سے پروگراموں
کااہتمام کیا جاتا جس میں ہمارے قریبی عزیز رشتہ داربھر پور شرکت کیا کرتے۔
محرم الحرام میں عاشورہ کے دن گھر میں حلیم کی دیگ پکا کرتی،ہمارے قریبی
عزیز شروع شب ہمارے گھر آجایا کرتے ، رات بھر رَت جگا رہتا، صبح ہوتے ہی
حلیم کی تقسیم شروع ہوجاتی، گھر میں کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا۔ ہماری
امی ذوق وشوق سے ہر سال اس کا اہتمام کیا کرتیں، ماہ ربیع الا ول میں گھر
کا ماحول زیادہ مذہبی ہوا کرتا تھا، محفل میلاد کا انعقادہوا کرتا۔
گیارھویں شریف کو نیاز کی دیگ ، ماہِ رجب کی ۲۲ تاریخ کو گھر میں کونڈوں کی
ٹکیاں تیار ہوتیں، اس رات بھی ہمارے قریبی عزیز رشتہ دار شروع رات سے ہمارے
گھر آجاتے ، رات بھر جشن کا سما ں ہوا کرتاتھا ،دن بھر مہمانوں کی آمد جاری
رہتی تھی۔ماہ ِ شعبان کی پندرھویں شب خصو صی عبادت کا اہتمام ہوا کرتا، امی
اس دن سوجی اور چنے کی دال کا حلوہ پکایا کرتیں اور رات میں ہمیں قبرستان
جانے کی تاکید کیا کرتیں، شروع میں ہم شیر شاہ کے قبرستان جایا کرتے تھے
جہاں پر میرے دادا اور دیگر احباب مدفن ہیں، جب ہم دستگیر منتقل ہوگئے تو
یٰسین آباد کے قبرستان جانا ہمارا معمول بن گیا، اب میرے ابا اورامی اِسی
قبرستان میں مدفن ہیں۔ ماہِ رمضان کا پورا مہینہ موسم بہار کی طرح ہوا کرتا
تھا۔ عبادت کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کا خصو صی اہتمام ہوتا۔پاپاکھانے کے
شوقین تھے، عام دنوں میں بھی اور ماہ رمضان میں خاص طور پر دسترخوان بے
شمار قسم کے کھانوں کی اشیاء سے بھرا ہوا ہوتا۔ پاپا کے اس دنیا سے رخصت
ہوجانے کے بعد یہ سلسلہ کم ہو ا پھر ختم ہی ہو گیا۔
ہم نے کبھی اِمی اورابا کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا، حتیٰ کہ
دونوں کو کبھی اونچی آواز سے بولتے نہیں سنا۔ اس میں ہمارے پاپا کا بھی
کمال تھا۔ وہ انتہائی صلح جو قسم کے انسان تھے،پان دان ہمارے گھر کی روایت
تھی، پاپااور امی دونوں ہی پان کھا یا کرتے، پاپا اپنے ساتھ پان کی ڈبیا
اور بٹوا رکھا کرتے تھے، امی کی دیگر ذمہ داریوں میں پان بنا کر دینا بھی
تھا،مجھے یاد ہے کہ پاپا شروع میں سیگریٹ بھی پیا کرتے تھے، جب پان کھا نا
شروع کیا تو سیگریٹ پینا چھوڑ دی۔ میرے سب ہی بہن بھائیوں نے اپنے امی ابا
کی اس روایت کو جاری رکھا ہوا ہے لیکن میَں ان دونوں ہی چیزوں یعنی پان اور
سیگریٹ سے ہمیشہ بچا رہا اور اب بھی بچا ہوا ہوں۔
ہمارے گھر کا دستر خوان ہمیشہ دراز رہاجوہمیشہ فرشی ہوا کرتا تھا، ہم نے
ہمیشہ نیچے فرش پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ طویل عرصہ رہنے والے مہمان بھی
ہمارے گھر میں اکثر رہے۔ در اصل ہمارے ابا جان انتہائی نرم دل،مہمان
نوازاور کسی کی دکھ تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے، جب بھی کسی رشتہ دار نے اپنی
پریشانی کا اظہار کیا تو وہ فوراً اپنی خدمات حاضر کر دیا کرتے ۔ نتیجہ یہ
ہوتا کہ وہ شخص ہمارے ہاں مستقل مہمان ہوجایا کرتا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں
۔ حتیٰ کہ پوری پوری فیمیلی کو ہمارے ابا جان اور امی نے اپنے گھر میں پناہ
دی وہ کافی عرصہ تک ہمارے گھر میں رہتے رہے۔ گویا ہمارا گھر مہمان سرائے
بھی تھا، ہم میں سے کسی کی یہ مجال نہیں تھی کہ ان کے فیصلہ پر اُف بھی
کرتے بلکہ وہ وقت بہت ہی ہنسی خوشی گزرتا۔
جب ہم سب بھائی بڑے ہوگئے ، کسی حد تک مالی طور پرآسودہ حال بھی، باہمی
مشورہ سے کراچی کے کسی اچھے علاقے میں منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کی گئی،اس
منصوبہ پر عمل کی صورت ایک ہی تھی کہ اس مکان کو جس میں ہم گزشتہ کئی
دہائیوں سے رہ رہے تھے، جسے پاپا نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے رفتہ رفتہ
تعمیر کیا تھا سیل آوٹ کر دیا جائے۔پاپا کے لیے یہ ایک تکلیف دہ فیصلہ تھا۔
امی بھی پا پا کے ساتھ تھیں، شروع میں وہ تیار نہ ہوئے لیکن جب انہوں نے
دیکھا کہ ان کی اولاد کی یہی خواہش ہے تو وہ اپنی اولاد کی خواہش کے آگے
دست بردار ہوگئے۔انہیں آمادہ کرنے میں ہماری امی نے اہم کردارادا کیا ،
مغیث چچا بھی پاپا کو ذہنی طور پر آمادہ کرنے میں پیش پیش تھے ۔ نومبر۱۹۸۶ء
میں ہم دستگیر سوسائیٹی کی آبادی آصف نگر میں منتقل ہوگئے۔ یہ ۱۲۰ گز پر
بنا ہوا مکان تھا ، گنجائش کم تھی ، مکین زیادہ تھے ، لیکن اس وقت دلوں میں
کشادگی تھی ، رفتہ رفتہ مکان میں بھی بڑھاوا آتا گیا یعنی ۱۲۰ گز کا مکان
جو زمینی منزل پر مشتمل تھا گرؤنڈ پلس ٹو ہوگیا ۔ستمبر ۱۹۹۷ء میں ایک ایسا
سانحہ رونما ہوا جس نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا۔وہ ہمارے والد صاحب کا صدمۂ
ارتحال تھا۔پاپاانجائینا کے بھی مریض تھے، شوگر بھی تھی لیکن انہیں پیشاب
میں تکلیف کے باعث ابن سینا اسپتال، گلشن اقبال میں داخل کرایاگیا تھا جہاں
پر ان کا پراسٹینڈ گلینڈکا آپریشن ہوا، نہیں معلوم کیا پیچیدگی ہوئی دوسرے
دن ہی طبیعت بگڑگئی، ۵ستمبر ، بروز جمعہ ،صبح صادق کے وقت اس دنیائے فانی
سے رحلت کر گئے۔ انااﷲو انا علیہ راجیعون،باغباں نے اپنے گلشن کے ایک ایک
پودے کی دل و جان سے آبیاری کی تھی، اپنا خون پسینہ ایک کیا تھا، دن کو دن
اور رات کو رات نہیں سمجھا تھا، اس کی محنت کا ثمر تھا کہ باغباں کا لگا یا
ہوا ہرہر پودہ تناور درخت بن چکا تھا،ہر درخت چھاؤں دینے کے قابل ہو چکا
تھا۔ اب وقت آگیا تھا کہ باغباں کو اپنے درختوں کی چھاؤں سے راحت میسر آتی،
وہ سکون و آرام سے زندگی بسر کرتا، لیکن مالکِ کا ئنات نے قسمت میں کچھ اور
ہی لکھا تھا۔ باغباں کا کام پورا ہوچکا تھا، اب اُسے اُس دنیا میں جانا تھا
جس کی تیاری بھی اس نے کر لی تھی۔ اس نے خاموشی سے اﷲ کے حکم کو لبیک کہا
اور اپنے ہرے بھرے گلشن کو الودع کہا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی دنیا
وہاں بسالی جہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔پرنم آنکھوں، دکھے دل کے ساتھ
پاپا کے بیٹوں، پوتوں، نواسوں اور دیگر احباب نے انہیں آخری آرام گاہ پہنچا
یا،ہم بھائیوں نے لرزتے ہاتھوں پاپا کے جسد خاکی کو لحد میں اتارا اور
انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خدا حافظ کہا۔
آج میں از خود دادا اور نانا بن چکا ہوں لیکن جب کبھی کوئی مشکل یا پریشانی
آتی ہے والد صاحب کی یاد شدت سے آجاتی ہے۔ وہ میرا آئیڈیل تھے ۔ میں نے
اپنی زندگی ان کے بتائے ہوئے اور سکھائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزارنے کی
کوشش کی ہے۔چند دن پہلے کی بات ہے کہ پاپا کی جائیداد یعنی ہمارے آبائی گھر
کی شرعی تقسیم کے وقت ہم سب بہن بھائی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے تاکہ اپنا
شرعی حصہ حاصل کرسکیں۔مکان کی فروخت کے بعد شرعی تقسیم کی یہ صورت نکالی
گئی کہ یہ مکان قانونی طور پر اب میرے نام ہوجائے اور پھر اس کی فروخت عمل
میں لائی جائے ۔ چنانچہ رجسٹرار کے سامنے میرے تمام بہن بھائیوں نے اپنا حق
میرے نام منتقل کرنے کا اقرار کیا۔ یہ مجھ پر ان کا اعتماد ، بھروسہ تھا
اور مجھ پر بھاری ذمہ داری بھی، اﷲ تعالیٰ مجھے اس ذمہ داری کو ایمان داری
اور سچائی کے ساتھ سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ میری ہر گز ہر گز یہ
خواہش نہیں تھی کہ جائیداد کی شرعی تقسیم اس طرح ہو لیکن قانونی تقاضے پورے
کرنے کے لیے یہی صورت شاید آسان تھی۔ جتنے وقت میں رجسٹرار کے آفس میں رہا
پاپا کے متعلق سوچتا رہا ان کی زندگی جو ایک کھلی کتاب تھی میری نظروں کے
سامنے فلم کی طرح چلتی رہی۔انہوں نے اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو سب کچھ
دیا دنیا سے رخصت ہوکر بھی اپنی اولاد کو لاکھوں دے گئے۔بے شک باپ ایک عظیم
ہستی کا نام ہے۔پاپا آپ کو ہمارا سلام، پرور دگار عالم ہمارے والد صاحب کی
مغفرت فرمانا، ان کے چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف فرمانا، انہیں جنت الفردوس
میں اعلیٰ مقام عطا فرمانا۔ آمین۔ |