مختلف قسم کے لوگوں کی خوشیاں مختلف ہوتی ہیں۔ کوئی گدگدی
کرنے پر خوش ہوتا ہے، کوئی لطیفے سن کر، کوئی نہر میں نہا کر، کوئی کسی
گنجے کے سر پر ٹھونگا لگا کر بھاگ جانے سے، کوئی چوری امرود توڑکر کھانے سے
تو کوئی کرکٹ کھیلنے کے دوران آوٹ ہونے پر آوٹ نہ ماننے (روند مارنے) سے
خوش ہوتا۔اس کے علاوہ دولت اور روپیہ پیسہ بھی بہت سے لوگوں کو خوش رکھنے
میں کردار ادا کرتا ہے۔ جیسا کہ اسلم پراپرٹی کا کاروبار کرتا ہے۔ اُس پر
اﷲ کا خاص کرم ہے۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ اور دولت کی یہی ریل پیل اُسے خوش
رکھتی ہے۔ منور اپنے خاندان کا واحد کفیل ہے۔ وہ اپنے ماں باپ اور بیوی
بچوں کو خوش رکھنے کے لیے بہت محنت کرتا ہے۔ جب اُسے محنت کا پھل ملتا ہے
تو اُس کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی۔جاوید کی خوشی کا راز اُس کی محبت میں
چھپا ہے۔ وہ محبت کو ہی اپنی دولت سمجھتا ہے۔ وہ جس سے محبت کرتا ہے اُسے
خوش دیکھ کر ہی خوش رہتا ہے۔ شفاقت کی خوشی اُس وقت دیکھنے کے قابل ہوتی ہے
جب مہینے کے آخر میں اُسے تنخواہ ملتی ہے۔ اُس کی پورے مہینے کی تھکن اور
تکلیف ایک دن کے لیے ختم ہو جاتی ہے۔ انور ایک پہلوان ہے۔ اُس کی دولت اُس
کی صحت ہے۔ وہ ہر وقت اپنی دولت (یعنی صحت) کی حفاظت میں لگا رہتا ہے۔ اچھا
کھانا اور پیٹ بھر کر کھانے کے بعد بھی کھاتے رہنا اُس کی عادت ہے۔ اُس کی
یہی عادت اُس کی خوشی کا باعث بنتی ہے۔سیٹھ وقار ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک
ہے ۔ وہ اپنے منافع کو جمع کرنے کی بجائے ضرب دیتا ہے۔دو سے چار، چار سے
آٹھ اور آٹھ سے سولہ گنا منافع ہی اُسے خوش رکھ سکتا ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا کہ
کاروبار میں منافع کی کمی سیٹھ وقار کی موت کا باعث بن سکتی ہے۔
بچوں کی بھی اپنی اپنی خوشیاں ہوتی ہیں۔ جب وہ خوش ہوتے ہیں تو اُنہیں دیکھ
کر بڑوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔بچے اُس وقت سب سے زیادہ
خوشی کا اظہار کرتے ہیں جب اُن کے ضد کے آگے بڑے بڑوں کے نہیں چلتی اور
اُنہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔بچوں کی ضد زیادہ تر اُس چیز کے
لیے ہوتی ہے جو اُن کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو۔کھانے کے لیے وہی چیز مانگتے
ہیں جسے ڈاکڑ نے اُن کے لیے منع کیا ہوتا ہے۔بسکٹ یا کیک کی بجائے ببل گم
لے کر ہی دم لیتے ہیں ۔ اور اپنی اس کامیابی پر فخر سے " سینی" چوڑی کر کے
اپنے باپ کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہیں جیسے اپنی فتح کا اعلان کررہے ہوں ۔
برف کا گولا ، آئس کریم، چورن چٹنی اور گھٹیا قسم کے کوکنگ آئل میں تلے
ہوئے پاپڑکھا کر اُنہیں جو خوشی ملتی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ بچوں کو دوسرے
بچوں کی چیزیں چھین کر بھی بہت خوشی ملتی ہے۔۔۔ کھیل بھی ایسے ایسے کھیلتے
ہیں جسے دیکھ کر بڑوں کے دل بھی کانپ جائیں۔میرے دونوں بھتیجے اس معاملے
میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
بہت سے لوگوں کی خوشیاں دوسرے لوگوں کے ساتھ جڑی ہوتی ہیں۔ جیسا کہ
عبدالستار ایدھی صاحب کی خوشی بے سہارا لوگوں کی خوشیوں میں پوشیدہ ہے۔ملک
ریاض صاحب بھی اُن لوگوں میں شامل ہے جو دوسروں کی مدد کر کے خوش ہوتے
ہیں۔اسی طرح بہت سے سماجی کارکن اپنی خوشیاں دوسرے لوگوں کی خوشیوں میں
ڈھونڈتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو دوسروں کو
تکلیف پہنچا کر خوش ہوتے ہیں۔دہشت گرد اس کی بہترین مثال ہیں۔اُن کی خوشی
اس بات میں ہے کہ صرف وہی پکے اور سچے مسلمان ہیں اور اُن کے علاوہ سب کافر
ہیں۔ اور کسی بھی کافر کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ۔یہ حق صرف اُنہی کے
پاس ہے اوروہ اپنا یہ حق پوری آزادی سے استعمال کرتے ہیں۔ بے گناہ لوگوں
اور معصوم بچوں کا خون بہا کر اپنے لیے جنت خریدتے ہیں۔
ضمیر دہشت گرد تو نہیں ہے لیکن اُس کی سوچ کسی تخریب کار سے کم نہیں
ہے۔محلے کے لوگوں کو آپس میں مل جل کر بیٹھے ہوئے دیکھ کر اُس کے دل میں
حسد کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ اسلم کو اکرم سے ، نذیر کو بشیر سے ، جمیل کو
خلیل سے مٹھو کو پپو سے اور ساجھے کو ماجھے سے آپس میں لڑانا اُس کا بہترین
مشغلہ ہے۔صرف مشغلہ ہی نہیں بلکہ اُسے اس بات کا نشہ ہے۔ اُسے اپنا یہ نشہ
ہفتہ میں ایک دفعہ ضرور پورا کرنا پڑتا ہے ورنہ اُس کا بدن ٹوٹنے لگ جاتا
ہے۔اُس کی سانسیں اُکھڑ جاتی ہیں۔اُس کے جسم پر چیونٹیاں رینگنے لگتی ہیں۔
تب اُسے شکار کی شدید طلب محسوس ہوتی ہے۔اپنے شکار کی تلاش کے لیے وہ محلے
کی گلیوں میں ادھر اُدھربھٹکتا رہتا ہے۔آج بھی اُس کی حالت غیر ہو رہی تھی
۔ وہ اپنے شکار کی تلاش میں گلی کی نکڑ پر کھڑا تھا۔ کہ اُس کے پاس ایک نئی
ہنڈا سوک آکر رکی جس میں دو مرد اور دو خواتین سوار تھیں ۔ ڈرائیور سیٹ پر
بیٹھے شخص نے اُس کی طرف کاغذ کا ایک ٹکڑا بڑھایا اور اُس پر لکھے ہوئے
ایڈریس کے بارے میں دریافت کیا۔ضمیر نے کاغذ پر ایک سرسری نظر ڈالی ۔وہ
ایڈریس باؤ ندیم کے گھر کا تھا۔ باؤندیم ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے
نوجوان لڑکے کا نام ہے۔پورا محلہ اُس کے کردار کی ضمانت دے سکتا ہے۔ وہ ایک
پرائیوٹ فرم میں مینیجر کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ ضمیر نے مہمانوں کو ساتھ
لیا اور اپنے گھر لے گیا۔اُنہیں چائے پانی پلانے کے بعد آنے کا مقصد دریافت
کیا۔ اُن کی بات سن کر وہ کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد معصوم سا چہرہ بنا
کر بولا کہ "باؤ ندیم کردار کا اچھا لڑکا نہیں ہے ۔آپ اپنی بیٹی کا رشتہ
اُس کے ساتھ طے کر کے بہت پچھتائیں گے۔ مجھے آپ شریف لوگ لگتے ہیں۔اس لیے
بہتر یہی ہے کہ اپنی بیٹی کو اس قسم کے لفنگے اور آوارہ آدمی کے پلے نہ
باندھیں ۔ جس نے بھی آپ کو اس رشتے کے بارے میں بتایا ہے اُس نے ضرور آپ سے
کوئی بدلہ لینے کی کوشش کی ہے" اُن لوگوں نے بڑی حیرانی اور بے یقینی کے
عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا، ضمیر کا بہتر رہنمائی کرنے پر دل کی
گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا اور باؤ ندیم سے ملے بغیر واپس چلے گئے۔ ضمیر
اپنی کامیابی پر بہت خوش تھا۔ کیونکہ اُس کا نشہ بھی پورا ہو چکا تھا اور
مقصد بھی۔ایسا شکار اُس کی توانائی کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔باؤ ندیم اُس
کا پہلا شکار نہیں تھا ۔ ضمیر اپنے مردہ ضمیر کی بدولت ایسے کئی کارنامے
انجام دے چکا ہے۔ |