ایک شخص کے چار بیٹے تھے وہ سب اپنی اپنی جگہ پر گھر کے
علاوہ باقی دنیا کے ساتھ بھی اچھے تعلقات استوار رکھتے ہوئے باعزت زندگی
گزار رہے تھے۔سب اپنے اپنے مزاج،فطرت،عادت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف
تھے ،مگر جہاں گھر اورعزت کی بات آتی یا کوئی معاشرتی معاملہ ہوتا تو سب
ایک زبان ،ایک آواز ہو کر اپنے گھر کا اپنی عزت کا اپنے خاندان کا دفاع
کرتے ،گھر ،یا،خاندان کو کسی قسم کی بیرونی یا اندرونی انچ نہ آنے دیتے ،ان
میں سے دو بیٹے طبیعت کے اتنے سخت نہ تھے وہ اکثر دنیا کے ساتھ چلنے کے لئے
اپنے اندر لچک بھی رکھتے اورمعاملات کو اتنی باریک بینی سے دیکھتے نہ
سوچتے،ہاں البتہ دشمن کے سامنے وہ بھی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے،مگر
دوسرے دو بیٹے انتہائی سخت مزاج،روائتی سوچ کے مالک،اپنے رسم ورواج پر کسی
قسم کا کوئی کمپرومائز نہ کرنے والے،اپنے بات اور اپنے موقف پر کٹ مرنے
والے تھے،ان کی اسی عادت اور مزاج کی وجہ سے گھر کے علاوہ گاؤں،برادری
اوردور دور تک لوگ ان سے ڈرتے،بلکہ انہوں نے بڑے بڑے چوہدراہٹ،بدمعاش،اور
خود کوطاقتور کہنے والوں کو بھی اپنے دباو میں لے رکھا ہوتا تھا،۔اکثر
معاشرتی معاملات ان کی مشاورت سے حل کیے جاتے،وہ کسی کی غلامی
،اجاراداری،کو قبول نہ کرتے،مگران سب میں ایک خوبی تھی کہ وہ سب آپس میں
عزت و احترام کے ساتھ رہتے ان کا والد ان سے بہت خوش تھا ،لوگ اس کی عزت
بھی اسی اتفاق،پیار اور ایک آواز ہونے کی وجہ سے کرتے اکثر لوگ ان کی
مثالیں بھی دیتے ،کیوں کہ سب اپنی اپنی جگہ پر بہت اہم کردار ادا
کرتے،البتہ وہ لوگ جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان پر مسلط ہونا چاہتے
تھے،وہ جو، ان کو اپنا غلام بنا کر رکھنا چاہتے تھے،وہ لوگ جو، ان کی اس
بہادری ،اتفاقی،اور ایک زبان ہونے سے کینا رکھتے،جلتے،حسد کرتے ان کی دن
رات یہ کوشش ہوتی کہ کسی طرح ان کے اندر پھوٹ ڈالی جائے کسی طرح ان کو الگ
کیا جائے،کسی طرح ان کوایک دوسرے کے خلاف کیا جائے اس کام کے لئے دشمن دن
رات اس سوچ و بچار میں لگے رہتے،کیوں کہ جب تک وہ ایک تھے کوئی طاقت ان کو
اپنا غلام نہیں بنا سکتی تھی اور کوئی اپنی اجاراداری بھی نہیں قائم کر
سکتا تھا، ان کے پاس کوئی ایسا طریقہ نہ تھا،مگر دولت،ایک ایسی چیز ہے جس
کے استعمال سے سیاہ سفید سب کچھ ہو سکتا ہے،ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی
کمزوری ہوتی ہے اس کو سمجھ جاو تو بس سب آسان اسی طرح ان کے دشمنوں نے اپنی
دولت کے ذریعے ان کے باپ پر احسان کرنے شروع کئے، ان کو ضروری غیر ضروری
قرضے دینے شروع کر دیے ،جس طرح منہ کو خون لگ جائے یا حرام لگ جائے تو
انسان سب کچھ بھول جاتا ہے پیسے کا نشہ اس سے بھی برا ہے اگر یہ لگا جائے
تو انسان عزت،غیرت،سب کچھ بیچنے کو تیار ہو جاتا ہے ، وقت کی ترقی کے ساتھ
ساتھ دشمن بھی فائدہ اٹھاتے اور ان کے باپ کو ترقی کے سبق پڑھا پڑھا کر اسے
ماڈرن خیالات کا بنا دیااور اس کی اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اپنی جیب
سے یہ کہہ کر پیسے دیتے کہ جب دل کیا واپس کر دینا،کوئی جلدی نہیں،اس طرح
ہر چھوٹے بڑے کام میں اس کی غیر ضروری مدد کرتے اور وہ اس کی ضرورت بنا
دیتے،اس بات پر بیٹوں کا ری ایکشن بھی آتا مگر وہ اس کو ان لوگوں کا احسان
کہہ کر ان کو سمجھاتا یا ڈانٹ دیتا جس پر وہ عزت کی وجہ سے خاموش ہوجاتے،جب
ان دشمنوں نے دیکھا کہ ہم نے اس پر اتنا احسان کر دیا ہے کہ اب یہ ہماری
کوئی بات بھی نہیں ٹالے گا اور اگر یہ ہماری بات نہیں ماننے گا تو ہم اس سے
اپنے قرض کا مطالبہ کریں گے جس سے یہ مجبور ہو جائے گا ،اسے ہر حال میں
ہماری بات ماننی پڑے گی۔ انہوں نے سب سے پہلے تو اس کے کان بھرے کے تمہارے
یہ خود غرض بیٹے تمہیں دنیا کے ساتھ نہیں چلنے دیتے،تم اگر ان کی بات مانتے
رہے تو کل اکیلے ہو جاو گے۔یہ تو بے وقوف ہیں اب زمانہ بدل گیا،بیٹوں کے
باپ کا ذہن اہستہ آہستہ بدلنے لگا اور وہ چھوٹی چھوٹی بات کر ان سے اختلاف
کرنے لگا تنقید کرتا،اور اکثر اوقات ان کو یہاں سے چلے جانیکا بھی کہہ
دیتا،بیٹوں کو یہ اچھی طرح سمجھ آچکی تھی کہ یہ سب دشمن کی چال ہے انہوں نے
ہمارے باپ کو پہلے قرض دے دے کر اس کو اپنے احسان تلے دبایااور اب کو اس سے
اپنا مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔وہ اکثر اپنے باپ کو سمجھاتے،اسے بتاتے کہ
ایسا نہیں یہ سب لوگ آپ کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں،یہ ہمیں الگ کرنا چاہتے
ہیں مگر وہ ایک ہی بات کرتا کہ ان الگ ہو کر ہم نہیں زندگی نہیں گزار
سکتے،ان کا ہم پر بڑا احسان ہے،دشمنوں نے بڑی صفائی سے ان کے اندر ایک
دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کی کہ سب ایک دوسرے کے سامنے مخالف بن کر کھڑے ہو
گئے،اور پھر ایک ایسا وقت بھی ایا کہ ایک گھر میں رہنے والے ایک چولہے پر
پکانے والے اپنی اپنی اجاراداری ،اور اپنی اپنی ڈفلی کا مطالبہ کرنے
لگے،جیسے ہی ان کے اندر پھوٹ پڑی تو دشمنوں نے اپنی اپنی ہمدردیاں جیتانے
کے لئے سب کو اپنی حمایت،اور ساتھ دینے کی پیش کش کر دی،اور یوں یہ گھر جو
کل تک ایک مثال تھا آج عبرت کا نشان ہی نہیں بنا بلکہ لوگ ان پر ہنستے
ہیں،ان کو دوسرے گاؤں جاننے کے لئے بھی مشکلات ہیں،وہ لوگ جو کل تک ان کو
اپنے نظر آتے تھے آج ان پر مسلط ہیں۔جو لوگ اجتماعی مفاد کو چھوڑ کر ذاتی
مفاد کی خاطر اپنے ہوش،عقل،اوررسم ورواج بھول جائیں تو غلامی ،بدنامی،ان کا
مقدر بن جاتی ہے،پھر وہ بھی ان پر برستا ہے جس کی اپنی کوئی حیثیت نہیں
ہوتی۔
ہم اپنے ملک میں دیکھے تو پاکستان کی کہانی بھی بالکل ایسی ہی ہے ،وہ سرحد،
وزیرستان، پٹھان، فاٹہ، قبائلی علاقے،جنہوں نے اس وطن کی آزادی میں اپنا
قلیدی کردار ادا کیا،جو آج بھی اس ملک کی خاطر بے سرو سامان بھی لڑنے کٹ
مرنے کو تیار ہیں ،ان ہی کو ملک کا دشمن سمجھا جا رہا ہے ،ان کو مارنے کے
لئے ملک کے اندر خانہ جنگی شروع ہے،ہمارے حکمران ہے کہ ائی ایم ایف سے قرضے
لئے جا رہے ہیں ،امریکہ کی غلامی کو اپنی آزادی سمجھ کر اسے اپنا آقا تسلیم
کئے بیٹھے ہیں اگر اس سے دور رہنے کی بات کی جائے تو یہ بھوکا مرنے کا خوف
دیلا کر عوام کو ڈراتے ہیں،جو پہلے ہی بھوکی مر رہی ہے۔حکمرانوں میں اتنی
جرت نہیں کہ وہ حقیقت بیان کر سکیں جب کہ سب کچھ ان کے سامنے ہوتا ہے ملک
میں دہشت گردی پھیلانے میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کے ثبوت بھی ملتے ہیں مگر
پھر بھی الزام خود اپنے اوپر لگا کر اپنا مفاد حاصل کرتے ہیں،ان کو یاد
رکھنا چاہئے کہ یہ ملک ،یہ عوام ہے تو ان کا مفاد بھی ہے اگر یہی نہ رہے تو
پھر یہ کس کو بیچ کر اپنی دولت کمائیں گئے۔اور کس کے نام پر اپنی چوہدراہت
قائم کریں گے۔ان کو سمجھ آئے گی مگر دیر سے۔۔۔۔ |