بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الشیخ عبداللہ بن عبدالرحیم البخاری حفظہ اللہ سے پوچھا گیا سوال اور اسکا
جواب اردو ترجمہ و مفہوم کے ساتھ.
سوال: "آپ کی اس پر کیا راۓ ہے جو کہے کہ "میں علم حاصل کر رہا ہوں تاکہ
میں علماء میں سے ایک (عالم) بن جاؤں؟".
الشیخ عبداللہ بخاری: "لا حولہ ولا قوۃ الا باللہ"
ترجمہ و مفہوم: "اللہ کی توفیق و مدد کے بغیر کسی گناہ سے بچنے کی طاقت اور
کوئی نیکی کرنے کی قوت نہیں"
یہ قول جائز نہیں ہے اور ایک منکر (رد کیا گیا) قول ہے.
بلکہ ایک بندے پر یہ لازم ہے کے علم حاصل کرے تاکہ اللہ عزوجل سے مل سکے جب
کہ وہ (اللہ عزوجل) اس سے خوش ہو.
جیسا کہ ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا:
علماء کی دو اقسام ہیں.
ہاں، اور انہوں نے برے علماء کا ذکر کیا کہ وہ اپنے اقوال سے لوگوں کو جنت
کی طرف بلاتے ہیں اور افعال (اعمال) سے جہنم کی طرف.
ہر دفعہ جب انکا قول کہتا ہے "جلدی بڑھو" تو انکے افعال (اعمال) کہتے ہیں
"ایسا مت کرو".
وہ عاجز نظر آتے ہیں مگر حقیقت میں وہ "راہ چلتے ڈاکو" ہیں.
اسلیے یہ ضروری ہے کے آدمی اخلاص کے ساتھ اپنے اس عمل کو اللہ کے لیے خاص
کرے. اور اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس قسم کے اقوال بولے.
وہ صرف علم حاصل کرے تاکہ اس سے جہالت دور ہوجاۓ اور یہ سیکھنے (تعلیم) کے
لیے کہ اس کے نفس پر کیا ضروری (فرض) ہے.
(اس کے بعد الشیخ عبداللہ بخاری حفظہ اللہ نے قرآن مجید کی ایک آیت کی
تلاوت کی):
(قُلْ هَذِهِ سَبِيلِيَ أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا
وَمَنِ اتَّبَعَنِي)
(حوالہ: سورۃ یوسف سورۃ نمبر 12 آیت نمبر 108)
ترجمہ، مفہوم: "کہ دیجۓ، یہی میرا راستہ ہے; میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں علم
و بصیرت سے. میں اور وہ جو میری اتباع کرے. اور اللہ عز وجل ہر قسم کے شرک
سے پاک ہے اور میں مشرکین میں سے نہیں."
یہ انسان پر واجب ہے کہ وہ سیکھے تاکہ وہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے.
اور (اگر) ایک آدمی کبھی بھی عالم نہ بن سکے:
تو کیا وھ علم حاصل کرنا چھوڑ دے گا؟
کب وہ عالم بنے گا: کیا یہ ایک یا دو دن میں ہوگا، یا سال یا دو سال میں،
یا مہینہ یا دو مہینہ میں؟
وہ اپنی ساری زندگی بیٹھا رہے (علم حاصل کرنے کے لیے) اور پھر بھی (عالم)
نہ بن پاۓ. تو وہ ناکام ہوجاۓ گا، اللہ عزوجل کی پناہ طلب کی جاتی ہے. |