عاشِق اور مُنافِق کی پہچان

محترم قارئین سلام
عشق بھی کیا عجب شے ہے کہ جِس سے عشق ہو جائے اُسکی ہر اَدا بھلی لگتی ہے عاشق اپنے محبوب کی ہر ادَا کا دیوانہ ہوتا ہے۔ محبوب کا چلنا۔ پھرنا سونا ۔ جاگنا۔ باتیں کرنا۔ دورانِ گفتگو ہاتھوں کا جُنبش کرنا ۔ گیسو کا سنوارنا۔ ناخن کا تراشنا۔ جوتے پہننے کا انداز ہو۔ یا استراحت کا طریقہ ۔ اُسے ہر بات اپنے محبوب کی دُنیا والوں سے جُدا لگتی ہے جو عاشق کے سامنے اُسکے محبوب کی تعریف کرے یا اُسکے محبوب سے عقیدت اور مُحبت رکھے عاشق اُس سے بھی مُحبت کرنے لگتا ہے

اور مُنافق کی پہچان ہے کہ وہ اپنے سوا کسی کو دُنیا میں احترام کے قابل جانتا ہی نہیں وہ اگر کسی کے سامنے حالات اور واقعات سے مجبور ہو کر کسی کی رائے کا احترام کر بھی لے یا کسی کے سامنے اُسکی تعریف کر بھی دے چاہے وہ اُسکا حقیقی حقدار بھی ہو لیکن مُنافق اپنے دِل سے اُس قابل احترام شخصیت کی قدر نہیں کرتا بلکہ مارے حسد کے کہ کیوں لوگ کسی کو اِتنا زیادہ پیار اور مَان دیتے ہیں اِن سِفلی جذبات کی وجہ سے مُنافق اپنے دِل میں حسد اور بغض جیسے جذبات کو پروان چڑھاتا رہتا ہے اور ہلاکت کے عمیق گڑھے میں گِرتا ہی چِلا جاتا ہے۔

قارئین کرام یہ تمام معاملات دُنیاداری کی حد تک بھی کسی ذی ہوش کو قابل قبول نہیں ہونگے اور جب یہ معاملات کسی عام اِنسان کے مُتعلق پسندیدہ نہیں تو پھر یہ سوچ اُس مُتبرک ہستی کیلئے کیسے قابل قبول ہو سکتی ہیں جن کہ مُتعلق حدیث قُدسی میں رب عزوجل اِرشاد فرما دے
لو لاک لما خلقت الارض لو لاک لما خلقت الافلاک
مفہوم، اے محبوب آپکے اظہار کے لئے ہی آسمان اور زمین کو تخلیق کیا

رب کے پیغامِ لولاک میں ہے پنہاں اُسکے محبوب کی عظمتوں کے نِشاں
یہ ستارے، یہ تارے، زمیں، کہکشاں، فلک شمشُ و قمر اور یہ سارا جہاں
آپ ہی پہ فِدا ویلکم ویلکم ، آگئے مصطفٰے ویلکم ویلکم

اور سورۃ الحجرات کی ابتدا ہی محبوبِ خُدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا ادب سکھانے سے ہوتی ہے

اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو (ف۲) اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سنتا جانتا ہے

اے ایمان والوں اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے (ف۳) اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو (ف۴)

بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اﷲ کے پاس (ف۵) وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لئے پرکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے

بیشک وہ جو تمہیں حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں (ف۶)

سورۃ الحجرات آیت ایک تا چار

تفسیر نورالعرفان

یعنی تمہیں لازم ہے کہ اصلاً تم سے تقدیم واقع نہ ہو، نہ قول میں، نہ فعل میں کہ تقدیم کرنا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب و احترام کے خلاف ہے بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی و آداب لازم ہیں۔

شانِ نزول : چند شخصوں نے عیدِالضحٰی کے دن سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے قربانی کرلی تو ان کو حکم دیا گیا کہ دوبارہ قربانی کریں اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی ہے کہ بعضے لوگ رمضان سے ایک روز پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتے تھے، ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم دیا گیا کہ روزہ رکھنے میں اپنے نبی سے تقدم نہ کرو ۔ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

یعنی جب حضور کی بارگاہ میں کچھ عرض کر و تو آہستہ پست آواز سے عرض کرو، یہی دربارِ رسالت کا ادب و احترام ہے ۔
(ف4)
اس آیت میں حضور کا اجلال و اکرام و ادب واحترام تعلیم فرمایا گیا اور حکم دیا گیا کہ ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھیں جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہیں اس طرح نہ پکاریں بلکہ کلماتِ ادب و تعظیم و توصیف وتکریم والقابِ عظمت کے ساتھ عرض کرو جو عرض کرنا ہو کہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے۔

شانِ نزول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ یہ آیت ثابت بن قیس بن شماس کے حق میں نازل ہوئی انہیں ثقلِ سماعت تھا اور آواز ان کی اونچی تھی، بات کرنے میں آواز بلند ہوجایا کرتی تھی، جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ثابت اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں اہلِ نار سے ہوں، حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد سے ان کا حال دریافت فرمایا، انھوں نے عرض کیا کہ وہ میرے پڑوسی ہیں اور میرے علم میں انہیں کوئی بیماری تو نہیں ہوئی، پھر آ کر حضرت ثابت سے اس کا ذکر کیا، ثابت نے کہا، یہ آیت نازل ہوئی اور تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے زیادہ بلند آواز ہوں تو میں جہنّمی ہوگیا، حضرت سعد نے یہ حال خدمتِ اقدس میں عرض کیا تو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اہلِ جنّت سے ہیں۔
براہِ ادب و تعظیم ۔

شان نزول : آیۂِ یٰۤاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور بعض اور صحابہ نے بہت احتیاط لازم کرلی اور خدمتِ اقدس میں بہت ہی پست آواز سے عرض معروض کرتے ۔ ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔
(ف6)
شانِ نزول : یہ آیت وفدِ بنی تمیم کے حق میں نازل ہوئی کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں دوپہر کے وقت پہنچے جب کہ حضور آرام فرما رہے تھے ان لوگوں نے حجروں کے باہر سے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پکارنا شروع کیا، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے، ان لوگوں کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور اجلالِ شانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیان فرمایا گیا کہ بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہل و بے عقلی ہے اور ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی۔

عاشِق اور مُنافِق ۔
تفسیر نورالعرفان سورۃ الحجرات ٓیت نمبر ۹
شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دراز گوش پر سوار تشریف لے جاتے تھے، انصار کی مجلس پر گزر ہوا، وہاں تھوڑا سا توقف فرمایا، اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو عبداللہ ابنِ اُ بَیْ نے ناک بند کرلی۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو رکھتا ہے، حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تو تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی تو سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واپس تشریف لائے اور ان میں صلح کرا دی اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

یہ عشق بھی عجب ہے، ہے نِفاق بھی جُدا سا
اِک عرش کا ہے راہی دوجا سفر، سقر، کا
ishrat iqbal warsi
About the Author: ishrat iqbal warsi Read More Articles by ishrat iqbal warsi: 202 Articles with 1095662 views مجھے لوگوں کی روحانی اُلجھنیں سُلجھا کر قَلبی اِطمینان , رُوحانی خُوشی کیساتھ بے حد سکون محسوس ہوتا ہے۔
http://www.ishratiqbalwarsi.blogspot.com/

.. View More