الجواب: حضرت عائیشہ کی نکاح کے وقت عمر

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

الجواب: حضرت عائیشہ کی نکاح کے وقت عمر

محترم عثمان احسن صاحب آپ کا جواباً آرٹیکل میں نے پڑھ لیا ہے. پہلی بات یہ ہے کہ بعض لوگ انکار حدیث کا جواب دیتے دیتے خود انکار حدیث کے فتنہ میں پھنس جاتے ہیں، اللہ اس فتنہ سے محفوظ رکھے، آمین. دوسرا میری ذاتی راۓ میں جب کسی دین کے ایشو پر بات کی جاۓ تو پھلجھڑیاں چھوڑنے اور ہنسی مزاح کی کیفیت پیدا کرنے کی بجاۓ اپنے مداع کو سنجیدہ انداز میں بیان کرنا چاہیے تاکہ پڑھنے والا اس سے سنجیدگی سے سیکھنے کی کوشش کرے اور تحقیق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے، نہ کے ہنس کر قرآن وحدیث کے باب کو ٹال جاۓ. اسی طرح آپ ہمیں مرفوع اور موقوف کا فرق نہ بتلاۓ، الحمد للہ ہم اس فرق کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ جب صحابی کہے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا یا ایسے کہا تو اب وہ حکم مرفوع ہوجاتا ہے. اس ابتدایہ کے بعد چند باتیں عرض ہیں:

اس حدیث عائیشہ رضی اللہ عنہا کے ایک راوی ہشام بن عروہ ہے. اس کے علاوہ بھی بہت سے راوی ہیں جن سے یہ روایت بیان کی ہیں. ان میں سے چند ایک یہ ہیں اسود بن یزید بن قیس التحعی دیکھیں مسند احمد اور سنن نسائ. ابو سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف الزہری دیکھیں سنن نسائ الصغری وکبری وغیرھم

راوی ہشام بن عروہ کے جس کے بارے میں کمزور و اختلاط جیسی ضعف کو ثابت کرنے کے لیے آپ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، اور پھر تاریخی مندرجات لکھ ڈالے. حیرت یہ ہے کہ یہ ضعف ابو حاتم الرازی، احمد العجلی، محمد بن سعد، دارقطنی، یعقوب بن شیبہ، ابن حبان، بخاری، مسلم، ترمذی، ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن الجارود، حاکم، ذہبی، ابن حجر العسقلانی اور ایک جم غفیر جیسے محدثین کو نظر نہیں آیا اور انہوں نے اسے ثقہ وصدوق قرار دیا ہے؟ گویا ان کے مقابلہ میں یا تو آپ کی جرح مقدم ہے یا پھر آپ کی پیش کی گئی جروح مردود ہے

(مزید تفصیل کے لیے دیکھیں صحیح بخاری کا دفاع: صفحہ 67، 68)

اگر پھر بھی کوئی کہے کہ ہشام بن عروہ رحمہ اللہ آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہوگیے تھے جیسے کا آپ نے ارشاد فرمایا (اور یہ روایت ان سے کسی مدنی نے بیان نہیں کی) تو اسکے پانچ جوابات ہیں:

حافظ ذہبی نے فرمایا: اور ہشام کو کبھی اختلاط نہیں ہو .1
(میزان الاعتدال جلد 4 صفحہ 301)

2. ہشام بن عروہ سے یہ روایت دو مدنیوں (عبدالرحمن بن ابی الزناد اور سعید بن عبدالرحمن) نے بیان کی، اور انکی روایت حسن درجہ کی ہے.

3. اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ ہشام بن عروہ نے یہ حدیث مدینہ میں بیان نہیں کی اور نہ اسکا کوئی ثبوت ہے کہ عراقیوں نے ان سے یہ حدیث مدینہ جاکر نہیں سنی مگر صرف عراق میں ہی سنی.

4. اسی طرح ہشام بن عروہ اس روایت میں منفرد نہیں، بلکہ امام زہری نے انکی متابعت کر رکھی ہے.

5. اس روایت کے ایک اور راوی عروہ بن زبیر (المتوفی 94 ھجری) ہیں، آپ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں اور اس روایت میں منفرد نہیں.

آخر میں عرض ہے کہ جن علماء نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا وہ یہ ہیں:

امام بخاری (صحیح بخاری)
امام مسلم (صحیح مسلم)
امام سفیان بن عیینہ، آپ نے فرمایا: ثنا ہشام بن عروۃ وکان من جید ما یرویہ
مفہوم: ہمیں ہشام بن عروہ نے حدیث سنائ اور وہ جو حدیثیں بیان کرتے تھے ان میں سے یہ بہت اچھی تھی. (مسند الحمیدی: 233
ابن حبان (صحیح ابن حبان: 7097
ابن الجارود (المنتقی: 711
(حاکم (المستدرک
ذہبی (تلخیص المستدرک)
(بغوی (شرح السنۃ
ابو نعیم (المستخرج علی صحیح مسلم) وغیرھم

گویا معلوم ہوا کہ علم حدیث کی رو سے یہ حدیث بلکل صحیح ہے اور حدیث کی بے شمار کتب میں یہ موجود ہے. خیر القرون زمانہ تدوین حدیث اور زمانہ شارحین حدیث یعنی نویں صدی ہجری تک کسی ثقہ وصدوق سنی عالم نے اس حدیث کو ضعیف نہیں کہا، لہذا اسکے صحیح ہونے پر اجماع ہے. اور اس مسئلہ پر بھی اجماع ہے.

(البدایہ والنہایہ لابن کثیر جلد: 3 صفحہ 129)

خیر القرون، زمانہ تدوین حدیث اور زمانہ شارحین حدیث یعنی 900 ھ تک کے علماۓ حق میں سے کسی ایک ثقہ و صدوق عالم سے صراحتا یہ بات قطعا ثابت نہیں کہ سیدہ عائیشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح یا رخصتی کے وقت ان کی عمر اٹھارا سال یا اسکے قریب تھی اور اس سلسلے میں حبیب الرحمن کاندھلوی صاحب، جاوید احمد غامدی صاحب، عزیز احمد صدیقی صاحب وغیرہ منکرین حدیث نے جو بیت العنکبوت اور تانا بانا بنا ہے، علم و انصاف و تحقیق کے میدان میں اسکی کوئ حیثیت نہیں.

تنبیہ: قرآن مجید سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہے کہ نابالغہ سے نکاح ہوسکتا ہے، اللہ عزوجل نے فرمایا:

وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا

ترجمہ، مفہوم: تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں حیض سے ناامید ہوگئ ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینہ ہے اور انکی بھی جنھیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو.."

‏(حوالہ سورۃ الطلاق سورۃ نمبر 65 آیت نمبر 4

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیشہ حق بیان کرنے، حق سننے یا پڑھنے اور حق پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ، آمین

یہ تلخیص تحقیق ہمارے شیخ محدث العصر حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ کی ہے.

manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 448801 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.