باغ یونین آف جرنلسٹ کے عہدیداران کی تقریب حلف برداری

باغ محکمہ برقیات کی مہربانی سے بجلی آتی ہے اور ہاتھ لگا کر پھر غائب ہو جاتی ہے،میں گرمی میں اپنے کمرے میں بیٹھا بجلی آنے کی انتظارمیں کتاب کا مطالعہ کررہا تھا،کہ باغ کے نامور صحافی،سماجی کارکن افراز گردیزی کا فون آیاکہ آج باغ میں یونین آف جرنلسٹ کے عہدیداران کی تقریب حلف برداری ہے،آپ بھی تشریف لائیں،اس کی اطلاع تو مجھے پہلے سے تھی مگر جانے کا پروگرام اس فون کے بعد بنا،سید افراز گردیزی کے حسن اخلاق،سچائی،عاجزی،اور اپنے کام سے کمنٹمنٹ اور دیانت داری جیسی بے شمار خوبیوں سے میں زمانہ کالج سے واقف ہوں۔میں اپنے مقررہ وقت پر اس تقریب میں پہنچ گیا،مگر حسب روایت تقریب کچھ تاخیر سے شروع ہوئی،اس تقریب میں عوام علاقہ،کے علاوہ تاجر برادی کے سربراہان،سماجی اور این جی اوز کے عہدیداران،اور سیاسی شخصیات نے بھی شرکت کی یہ تقریب زیر صدارت راجہ عبدلحفیظ،اور مہمان خصوصی شیخ مقصود تھے، حلف برداری کے دوران صحافیوں سے اﷲ کو حاضر ناضر رکھ کر حلف لیا گیا کہ وہ بلا تفریق ،تعصب،برادری ازم،قبیلائی ازم،کسی سیاسی شخصیت کے دباو میں آئے بغیر غیریب،مجبور،بے بس،مزدور،کمزور،اور پیسے ہوئے طبقے کی آواز بنیں گے۔عوام اور علاقے کے مسائل ایوانوں تک پہنچانے میں کوئی کیسر نہیں آٹھا رکھے گے۔معاشرے کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔ اس تقریب میں مقررین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صحافیوں کے مسائل پر روشنی ڈالی،صحافی کی زمہ داریوں کو سراہا،صحافی کن کن مسائل اور مشکلات سے گزر کر اپنے فرائض کی انجام دہی کرتا ہے،اس کو اس کے بدلے میں کوئی معاوضہ کوئی اجرت نہیں ملتی۔صحافی کو فکر معاش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کو سچ اور حق بات لکھنے پر بھی خطرات ہوتے ہیں۔اور کسی سیاسی لیڈر کی بے جا تعریف نہ کرنے پر بھی اس کو سخت نتائج کے سامنے کی دھمکی ملتی ہے۔افراز گردیزی نے اپنی تقریر میں بڑے اچھے الفاظ میں صحافی کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی تقریب میں کسی صاحب کا نام لکھتے ہوئے راہ جائے تو مسئلہ،کسی کے نام کے ساتھ ،سید،راجہ،مہاراجہ،سردار،نہ لکھا ہو تو ناراضگی، اور اگر کسی کا نام پورا لکھ دیا جائے تو الزام،ہم کس کس کی بات کو سننے اور ماننے،بعض اوقات تو ہمیں اپنی جان پر کھیل کر رپورٹنگ کرنی پڑتی ہے،ہمارے پاس سوائے قلم کے کچھ نہیں ہوتا۔اکثر اوقات ، ہمارے ساتھیوں کو،کالم کاروں کو،نہ صرف گالیاں دی جاتی ہیں بلکہ ان کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں۔ایک صحافی ہی تو ہے جس نے ہمیشہ سر سے کفن باندھا ہوتا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی تعریفیں تو ان سے سننا چاہتی ہے مگر ان کو روزگار دینے میں کوئی پالیسی ،کوئی قانون نہیں بناتی،صحافی کی بھی تنخواہ ہونی چاہئے،یہ بھی اسی معاشرے کا کھاتا پیتا انسان ہے یہ کب تک حق و سچ کے ساتھ ساتھ اپنے روزگار کی جنگ لڑتا رہے گا۔مقررین نے صحافتی ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی ،اس تقریب کے مہمان خصوصی شیخ مقصود نے اپنی تقریر کے دوران صحافیوں کی مکمل حمایت کا علان کیا ،ان کی خدمات کو سراہا،اور ان کو سچ لکھنے اور حق کی بات کرنے پر دھمکیاں دینے والوں کو شرم دلائی، ان کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی ہی نہیں کراوئی بلکہ ان کے لئے امداد کا علان بھی کیا، شیخ مقصودنے باغ کی خستہ حالی،تعمیر و ترقی ،لوٹ کھسوٹ،کرپشن، بدعنوانی،اقربا پروری،اور میرٹ کی پامالی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس نے معاشرے کو تباہ کر دیا،یہ لوگ محض ٹی اے ڈی اے اور تنخواوں کی خاطر اسمبلی میں جاتے ہیں ان کو عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں اور نہ یہ عوام کوکسی خاطر میں لاتے ہیں سوائے ووٹ لینے کے ان کا عوام سے کوئی واسطہ نہیں،باغ ڈسٹرکٹ ہسپتال کی حالت زار پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ وہاں پر ڈاکٹر نام کی کوئی چیز نہیں نہ ادویات ہیں مریض بے بس مجبور اور بے سہار ہ پڑے ہوئے ہیں،کوئی ان کا پرسان حال نہیں،وزیر صحت خود اس بات کا عتراف کر چکے ہیں کہ عوام کو ان ہسپتالوں میں آنے کے بجائے کسی حکیم،یا ساہی کے پاس جانا چاہیے،جس محکمے کا وزیر یہ کہتا ہے اس محکمے کا کیا حال ہوگا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔۔اور افسوس اس بات کا بھی ہے کہ یہی عوام جو آج لا وارثوں کی طرح پڑی ہے جس کا کوئی پوچھنے والا نہیں ،ان ہی کے ووٹوں سے یہ وزیر،اور مشیر بنتے ہیں۔یہ ڈاکٹر یہ حکمران،یہ سیاست دان عوام کے خون پسینے کی کمائی سے لیے جانے والے ٹیکس سے مراعات اور تنخوائیں لیتے ہیں،شیخ مقصود نے ان کو شرم دلاتے ہوئے کہا کہ آپ عوام کی مشکلات اور مسائل کا سوچے،ان کو ریلیف دیں تنخواہ آپ کو میں دونگا۔۔

میں نے آج تک کسی سیاست دان کی بات کا یقین نہیں کیا کیونکہ یہ سب رٹے ہوئے جملے ہوتے ہیں سیاست دان جس دن سچ بولے گاا س دن اس ملک کی قدیر بدل جائے گی،شیخ مقصود سے میری پہلی دفعہ ملاقات ہوئی ان کو دیکھ کر مجھے ان میں سیاست دان کم اور ایک انسان ہمدرد انسان زیادہ چھپا ہوا نظر آیا،ان کی باتوں میں صداقت تھی جس کو کسی تعریف کے سہارے کی ضرورت نہیں۔میں ان کے گوزش گزار کرتا چلوں کہ جس طرح ہمیں اپنے سکول،ہسپتال،دفتر،محکمہ برقیات،اور تمام عوامی خدمت کے نام سے بننے والے ادارے،اجڑے ہوئے ،بے حال،اورکرپشن کا گڑھ نظر آتے ہیں یہی حال انسان کے اپنے اندر کا ہے ،یہ انسان جو بھائی بھائی تھے ان سیاست دانوں نے اپنے مفاد کی خاطر لڑا لڑا کر ان کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیا،یہاں پربرادری ۔علاقہ،قبیلہ،گاؤں،خاندان،ضلع،خطہ یہاں تک کے انڈیا کے ڈراموں کی طرح سیاست دانوں کا پیدا کیاتعصب،بھائی کی بھائی کے خلاف نفرت گھر گھر میں پہنچ چکی ہے۔یہاں پر انسانی حقوق سے کس طرح کھلواڑ ہو رہا ہے یہ متاثرین ہی جانتے ہیں۔مگر یہ میرا یقین ہے کہ دنیا کی عدالت سے تو یہ خود کو سفارش کروا کر بچ جائیں گے مگر ایک عدالت اور بھی ہے جس میں محمود و ،ایاز،برابر ہیں،جس میں کسی کی چوہدراہت نہیں چلتی،یہاں پر راقم کو ،حق و سچ لکھنے پر،غریب ،بے بس ،مجبور کی آواز بننے پرکئی بار سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑا،بلکہ تاحال بھوگت بھی رہا ہے،ہم ایک خطے کی پہچان ہیں مگر ہمیں گروپوں میں،برادریوں میں،علاقوں میں،خاندانوں میں تقسیم در تقسیم کر دیا گیا،جب تک شیخ مقصود جیسے سماجی اور انسانی ہمدردی رکھنے والے موجود ہیں اس معاشرے میں بہتری آنے کی امید بھی موجود ہے۔ بس عوام میں شعور آنے کی دیر ہے۔
iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69525 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.