میں نے فقیر (گداگر) کو دیکھا جو
ہر جانے آنے والے سے ایک روپیہ کا سوال کر رہا تھا میں نے بابو صاحب (کلرک)
کو دیکھا جو اکثر منیجر بننے کی خواہش کا اظہار کرتا نظر آتا ہے میں نے ایک
ایسا دوکاندار بھی دیکھا جسے چھپن کروڑ کی چوتھائی درکار تھی اور اُسے وہ
مِل بھی گئی ہر ایک مانگنے والا اپنے حساب سے مانگ رہا ہے جو ناظم ہے وہ
ایم پی اے بننا چاہتا ہے ایم پی اے صوبائی وزیر کی دوڑ میں شامل ہے ۔ ایم
این اے وزارت عظمیٰ کا طلبگار ہے۔ مانگ تو ہر ایک ہی رہا ہے مگر دُنیا مانگ
رہا ہے ایک محدود تعداد کے علاوہ کون ہے جو رات دن دامنِ مصطفےٰ مانگ رہا
ہو ایمان پر خاتمہ کی دُعا مانگ رہا ہو قبر میں رُخِ مصطفےٰ کا تمنائی ہو
حشر میں سایہ لوائے حمد مانگ رہا ہو رضائے خُدا مانگ رہا ہو رضائے محمد
مانگ رہا ہو (عزوجل و صلی اللہ علیہ رآلہ وسلم ) مانگنا ہی ہے تو وہ مانگو
جسے مانگنے کے بعد کسی شے کی حاجت نہ رہے مدینہ مانگو بقیع مانگو دیدار
کعبہ مانگو گنبد خضریٰ کے جلوے مانگو دُنیا بھی کوئی مانگنے کی شے ہے کہ
سوھنے مصطفےٰ کا فرمانِ عبرت نشان ہے مفہوم دُنیا مُردار ہے اور اِسکا
چاہنے والا کتا ہے۔ کیا کبھی کسی قیدی کو قفس کے لئے دُعا کرتے دیکھا ہے
ٹپک پڑتا ہے رہ رہ کر قلم کی آنکھ سے آنسو
قفس میں بیٹھ کر جب آشیاں تحریر کرتے ہیں
ایک حدیثِ پاک کا مفہوم ہے دُنیا مومن کیلئے قید خانہ اور کافر کیلئے جنت
ہے لیکن اس کا مطب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی ذمہ داریوں سے منہ چُرائیں
رہبانیت کی راہ پر چل پڑیں صرف کہنا یہ چاہتا ہوں کے اپنی زندگیوں کو اللہ
عزوجل اور اُسکے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرضی کے مطابق
گزارنے کی کوشش کریں تو انشااللہ ہمارے گھر میں ہمارے کاموں میں ہمارے وقت
میں برکتیں ہوجائیں اور اگر تنگدستی
گھروں کا رُخ کر لے تو صدقات کی جانب توجہ بڑھائیں انشااللہ کشادگی ہو
جائیگی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب تنگدستی آتی ہے تو لوگ صدقات بھی روک لیتے
ہیں کہ بجٹ مُتاثر نہ ہو جائے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خیرات و صدقات
بڑھا دیتے تاکہ تنگی سے نجات ملے کیونکہ اللہ عزوجل قُرآن پاک میں اِرشاد
فرما رہا ہے
ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں (ف۵۴۷) اُس دانہ کی
طرح جس نے اوگائیں سات بالیں (ف۵۴۸) ہر بال میں سو دانے (ف۵۴۹) اور اللہ اس
سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللّٰہ وسعت والا علم والا ہے
سورۃ البقرہ آیت نمبر 261
(ف547)
خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل تمام ابواب خیر کو عام ہے خواہ کسی طالب علم
کو کتاب خرید کر دی جائے یا کوئی شِفا خانہ بنا دیا جائے یا اموات کے ایصال
ثواب کے لئے تیجہ دسویں بیسویں چالیسویں کے طریقہ پر مساکین کو کھانا
کھلایا جائے۔
(ف548)
اگانے والاحقیقت میں اللہ ہی ہے دانہ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے
مسئلہ:اس سے معلوم ہوا کہ اسناد مجازی جائز ہے جب کہ اسناد کرنے والا غیر
خدا کو مستقل فی التصرف اعتقاد نہ کرتا ہو اسی لئے یہ کہنا جائز ہے کہ یہ
دوا نافع ہے، یہ مضر ہے، یہ درد کی دافع ہے، ماں باپ نے پالا عالم نے
گمراہی سے بچایا بزرگوں نے حاجت روائی کی وغیرہ سب میں اسناد مجازی اور
مسلمان کے اعتقاد میں فاعل حقیقی صرف اللہ تعالٰی ہے باقی سب وسائل۔
(ف549)
تو ایک دانہ کے سات سو دانے ہوگئے اسی طرح راہِ خدا میں خرچ کرنے سے سات سو
گناہ اجر ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں ایک کہاوت مشہور ہے کہ جو دُنیا میں راہ خدا میں ایک خرچ کرتا ہے
اُسے دس دُنیا میں اور ستر آخرت میں ملتے ہیں اُن احباب کی توجہ اِس آیت
مُبارکہ کی جانب مبذول کروانا چاھتا ہوں کہ رب عزوجل تو ایک کے بدلے سات سو
یا اُس سے بھی زیادہ دینا چاہتا ہے ایک ہم ہیں کہ دس گُنا سے آگے سوچتے ہی
نہیں۔
اُسکے تو عام ہیں الطاف۔ شہیدی۔ سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کِسی قابل ہوتا
اے طائر لاہوتی اُس رزق سے موت اچھی
جِس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی |