یوں تو ہمارا معاشرہ اسلامی
معاشرہ کہلاتا ہے لیکن اگر رسم و رواج پر ایک نظر دوڑائی جائے تو ہمیں اس
میں بہت سے نقائص نظر آئیں گے۔ ذیل میں معاشرے کی چند فضول رسومات کا ذکر
کیا جا رہا ہے:
منگنی کی رسم آج کل ضروری سمجھی جانے لگی ہے جبکہ اس کی کوئی شرعی حیثیت
نہیں ہے۔ اس رسم میں غریب اور متوسط طبقے کا آدمی پِس کر رہ جاتا ہے
کیونکہ اس قسم کی تقریب میں بات طے ہونے پر چھوٹی تقریب کا اہتمام کیا جاتا
ہے پھر منگنی کی بڑی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کھانے کا اہتمام
ہوتا ہے اور اس کیساتھ لڑکے اور لڑکی کو تحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔ قیمتی
جوڑے اور سونے (گولڈ) کی چیزیں دی جاتی ہیں۔ اگر اس میں کوئی کمی رہ جاتی
ہے تو باتیں بنائی جاتی ہیں بلکہ بعض گھرانے تو منگنی توڑنے سے بھی دریغ
نہیں کرتے۔ اکثر ہمیں ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں کی منگنی ٹوٹ گئی
لڑکی میں کوئی نہ کوئی خامی ہوگی جب ہی ٹوٹ گئی ہے۔بغیر سوچے سمجھے یہ جملے
کہہ دیئے جاتے ہیں۔ اکثراوقات زیادہ عرصہ منگنی رہنے سے بھی یہ صورتحال
پیدا ہو جاتی ہے۔ بعض لوگ نہایت دھوم دھام سے منگنی کرتے ہیں اور دو تین
سال کے بعد شادی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آج کے زمانے میں ایک پل کسی کا
بھروسہ نہیں اور ہم سالوں کا معاہدہ کرتے ہیں جبکہ نوجوان نسل کی پسند
بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔اگرچہ ہمارے معاشرے میں کچھ گھرانے ایسے بھی ملیں
گے جہاں بات پکی ہو جانے کے بعد شادی ہوجاتی ہے مگر یہ تعدادنہ ہونے کے
برابر ہے۔
مہندی کی غیر شرعی رسم کو بھی ہمارے معاشرے کے بیشتر گھرانے انجام دیتے ہیں
۔اس رسم کا انعقاد کرنے والے اپنے رشتہ داروں کو اپنے ہاں مدعو کرتے ہیں
اور پھر یہ رسم دیر رات تک چلتی ہے جس سے خاص طور پر دور دراز کے رہنے والے
قرابت داروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تمام لوگ گھر جاتے
ہیں تو نصف شب گزر چکی ہوتی ہے ۔جن کی اپنی ذاتی سواریاں ہوں تب بھی ڈاکو
اور لٹیروں کا ڈر لگا رہتا ہے کیوں کہ خواتین زیورات سے لدی ہوتی ہیں لیکن
اصل شامت تو ان خواتین و حضرات کی ہوتی ہے جس کے پاس اپنی ذاتی سواری نہیں
ہوتی اور رکشہ اور ٹیکسی والے رات زیادہ ہونے کی وجہ سے منہ مانگا کرایہ
وصول کرتے ہیں۔
جہیز دینا ہمارے پیارے نبی ﷺکی سنت مبارکہ ہے۔ آپﷺ نے اپنی لاڈلی بیٹی
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو جہیز میں روئی سے بھرا ہوا موٹے کپڑے
کا بستر، چمڑے کا دستر خوان، چمڑے کا تکیہ جسمیں کھجور کے پتے بھرے ہوئے
تھے، پانی کے لئے ایک مشکیزہ اور کوزہ اور نرم اون کا ایک پردہ دیا تھا ۔لیکن
آج اگر ہم اپنے آس پاس نظر ڈورائیں تو ہمیں بیحد اسراف نظر آتا ہے۔ یہ
ایک ایسی فضول رسم بن چکی ہے جس نے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کی نیندیں
حرام کر رکھی ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ قرض کے بوجھ تلے دب کر رہ جاتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں لڑکے والوں کی طرف سے جہیز کا مطالبہ بھی ایک معاشرتی
مسئلہ بن چکا ہے جس میں سازوسامان کیساتھ ساتھ اکثر گھر کی ڈیمانڈ بھی کی
جاتی ہے جبکہ کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں کہ اگر ماں باپ اپنی حیثیت کے مطابق
کم جہیز دیں تو ایسی لڑکیوں پر طعنہ زنی کی جاتی ہے۔اگرچہ ایسی مثالیں ہر
گھرانے میں نہیں ملتی لیکن جہیز کے نام پر بھیک مانگنے والے معزز بھکاری
بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں۔
ہمارے ہاں آج کل دعوتوں میں کھانے پر بے تحاشا اسراف نظر آتا ہے ۔نت نئی
قسم کی ڈشیں پیش کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے کھانے کا زیاں بھی ہوتا ہے۔اکثر
اوقات ایسابھی دیکھنے میں آتاہے کہ صاحب حیثیت لوگوں کی دیکھا دیکھی غریب
اور متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنی چادر دیکھے بغیر پائوں پھیلانے سے نہیں
کتراتے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے موجودہ معاشرے میں سادگی اور قناعت
پسند لوگ بھی موجود ہیں لیکن یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
وقت کی قدر نہ کرنا بھی ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑاالمیہ ہے۔ ہمارے ہاں
تقاریب میں جو وقت دیا جاتا ہے اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ افسوس کی بات تو
یہ ہے کہ ہمارے یہاں دیر سے آنے کو معیوب سمجھنے کی بجائے فیشن سمجھا جاتا
ہے اور اس پر فخر کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے جو لوگ غلطی سے وقت پر پہنچ
جاتے ہیں انہیں دیر تک انتظار کی ہزیمت برداشت کرنی پڑتی ہے ۔
معاشرے کی مندرجہ بالا فضول رسومات کا سد باب کیسے ہو؟
اس کے لیے منگنی کی رسم کو ختم کیا جائے۔ جماعت کی سطح پر اس رسم پر پابندی
عائد کی جائے ۔ سادگی کے ساتھ منگنی کی رسم ادا کی جائے اور سال چھ مہینے
میں شادی کرکے اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں۔ ضروری ہے کہ پہلے با حیثیت لوگ
مثال قائم کریں۔
مہندی کی غیر ضروری رسم کے جڑ سے خاتمے کے لئے معاشرے کے ہر فرد کو مثبت
اقدامات کرنے ہونگے۔ہمیں اپنی شادی بیاہ کے پروگراموں سے اس رسم کو مٹانا
ہوگا۔ اس سے وقت اور پیسوں کی بچت ہوگی جبکہ دور دراز کے قرابت دار بھی
پریشانی سے محفوظ رہیں گے۔
اگر ہمارے پیارے نبی ﷺ کی سنت مبارکہ کو اپناتے ہوئے جہیز میں سادگی اختیار
کریں تو اس سے اسراف بھی ختم ہوگا جبکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ ذہنی
اذیت سے محفوظ رہیں گے۔ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم اپنے رویئے میں مثبت
تبدیلی لائیں۔
کھانے میں صرف ون ڈش کو رواج دیا جائے تو غریب اور متوسط طبقے کے لوگ
مستفید ہونگے۔موجودہ معاشرے میں اگرچہ یہ سسٹم نہ ہونے کے برابر ہے لیکن
مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب بھی ایسی برادریاں موجودہیں جہاں
چاہے امیر ہو یا غریب کھانے میں صرف ون ڈش کا اطلاق ہوتا ہے۔لہذا اس ضمن
میں اگرحکومتی سطح پر ٹھوس اقدامات کئے جائیں تو اس سے دو رس نتائج برآمد
ہو سکتے ہیں۔ یہ کام مشکل ضرور ہے لیکن اگر ارادہ پکا ہواور لوگوں کا تعاون
بھی ملے تو نا ممکن کچھ بھی نہیں رہے گا۔
آج اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کے بارے میں کھوج لگائیں تو ہمیں پتا چلے گا
کہ ان کی کامیابی کا ایک عنصر وقت کی قدر کرنا بھی ہے۔ہمارے معاشرے کے
لوگوں میں وقت کی قدر کے حوالے سے آگہی فراہم کرنے کے لیے حکومتی اور
برادری سطح پر سیمینار منعقد کئے جائیں ۔اس ضمن میں بہترین نتائج حاصل کرنے
کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم اپنی زندگی کو ہمارے پیارے نبی ﷺ کی
سنت کے ڈھانچے میں ڈھال کر اسلامی طریقے سے گزاریں گے تو ہمارے معاشرے سے
فضول رسم و رواج کا با آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے۔ |