کبھی لیاری کو قریب سےدیکھا ہے؟؟؟؟؟

خوف ودہشت کی علامت سمجھے جانے والے لیاری کا ایک اور چہرہ جو شاید لیاری سے باہر کے لوگوں اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہے وہ یہاں کی روایات ،کھیل اور محبت کے رنگ ہیں یہاں رہنے والے واجہ کسی زمانے میں پورے شہر کی پہچان ہوا کرتے تھے جنہیں لوگ عزت و احترام سے پکارا کرتے تھے اوراپنی محفلوں میں کسی واجہ کی شرکت کو اپنے لئے باعث فخرواعزاز سمجھتے تھے اس کی ایک وجہ تو فٹبال ،باکسنگ ،اور سائیکلنگ جیسے شعبوں میں ان کی کارکردگی تھی تو دوسری وجہ ان واجاز کی جانب سے ملنے والا پیار تھا کہ جوکسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی

لیاری جو ماری پور روڈ سے شروع ہوتا ہوا بہار کالونی اوربہار کالونی سے شیرشاہ پل اور پھر اس پل سے ہوتا ہوا میوہ شاہ قبرستان پھر عثمان آباداور گارڈن سےچیل چوک ،اور چیل چوک سے لیمارکیٹ اور پھر لیمارکیٹ سے کھارادر ،اور کھارادر سےنیا آباد پھر آگرہ تاج ماری پور روڈ پر اختتام پذیر ہوتا ہے،مخلتف ذاتوں ،زبانوں،مذاہب اور گروہوں پر مشتمل ایک گنجان آباد علاقہ ہے، ،جہاں تمام قومیتوں و گروہوں کے لوگ بلا کسی خوف و خطر کے ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے وہ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں۔۔۔

یہاں کی گلیاں چاہے جتنی بھی تنگ و تاریک کیوں نہ ہوں پر یہاں لوگوں کے دل اتنے ہی کھلے اور محبت سے بھرپورملتے ہیں۔۔۔ قریب سے اس علاقے کو دیکھا جائے تو یہاں کی زندگی ہمیں باقی دنیا سے مخلتف ملے گی۔۔۔ اس علاقے کی منظر کشی اگرلفظوں میں کی جائے تو یہاں ہمیں ہنستے مسکراتے چہرے،،،صبح صبح ناشتے کیلئے بجیا اور چھولے خریدتے لوگ،، گلی محلوں میں بزرگوں کی بیٹھکیں، شام کے اوقات میں فٹبال ہاتھ میں لئے،کندھوں پر بیگ چڑھائے پریکٹس پر جانے والے فٹبالرز،،، جگہ جگہ تلتی مچھلیوں کی خوشبوؤں سے آراستہ ٹیے ،،،گلیوں میں گھر کی دہلیز پرٹافیاں بیچتی ادھیڑ عمر خواتین،، اپنے علاقوں کی انجمنوں میں چھوٹے بچوں کو علم کے قیمتی زیور سے آراستہ کرتے تعلیم یافتہ نوجوان،کمہار واڑہ میں مٹکے اور مٹی کے برتن سجاتی نانیاں،،،،اور گھروں کے باہر چبوتروں پر بیٹھے سیاسی و ملکی حالات کے تجزیہ کار اوراپنی چھتوں پر کبوتروں کو سیٹیاں بجاتے کبوتری دیکھنے کو ملتے ہیں۔یہاں کے رہنے والے ان لوگوں کی زندگی کا قریب سے جائزہ لیا جائے تو ان کی زندگی ایسی دکھائی دیتی ہے جیسے یہاں کہیں کبھی کسی غم نے آنے کی جرات نہیں کی ہوگی باجود اس کے کہ سب غم صرف ان ہی لوگوں کے نصیب میں آئے ہیں۔۔۔

یہاں نوجوانوں کی اکثریت ہمیں اریب قریب کی مارکیٹوں جوڑیا بازار،،،لائٹ ہاؤس،ڈینسو ہال میں مزدوری یا ان ہی مقامات پر گدھا گاڑی ،سی این جی رکشہ یا سوزوکی چلاکر اپنا گذر بسرکرتی نظر آتی ہے۔۔۔۔

کسی زمانے میں لیاری سیاست کا گڑھ بھی سمجھا جاتا تھا کہ جہاں آمریت اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی تھی،،قید و بند کی صعوبتیں سہنے والے سیاسی کارکن یہاں اب بھی مجالس میں اپنی داستانیں بیان کرتے نظر آتے ہیں -

باکسنگ اور فٹبال جیسے اہم شعبوں میں بھی اس علاقے نے جہاں اپنا ایک مقام پیدا کیا ہے تو وہیں یہاں کے نوجوانوں نے ملکی و بیرون ملک اپنا لوہا بھی منوایا ہے ،،،، تمام تر حالات اور واقعات سے بے خبر یہاں کے لوگوں کو اب بھی ان کھیلوں سے اتنی ہی دلچسپی ہے کہ جیسے کے پہلے تھی ،،،ان دنوں جاری فٹبال کے عالمی مقابلوں کے دوران بھی یہاں کی گلیاں کسی میلے کا منظر پیش کرتی نظر آتی ہیں ،،لوڈشیڈنگ اور دیگر مشکلات کے باوجودجگہ جگہ جگمگاتی اسکرین کے گرد لوگوں کا جم غفیر اور اپنی اپنی ٹیموں کیلئے گونجتے فلک شگاف نعرے اورمیچ کے ہاف ٹائم کے دوران جاری مقابلے پر بحث و مباحثے اور میچ کے اختتام پرخوشیاں مناتے ان لوگوں کی مسکراہٹیں دیکھ کر دل سے یہی دعا نکلتی کہ اے خدا یہاں کی رونقیں اسی طرح قائم و دائم رکھ۔۔۔(آمین)

Amjad Buledi Baloch
About the Author: Amjad Buledi Baloch Read More Articles by Amjad Buledi Baloch: 13 Articles with 12479 views i am journalist.. View More