قانون سورہا ہے، لوگ مر رہے ہیں

پنجاب کی جس پولیس نے دو عورتوں سمیت دس افراد کو دن دھاڑے ہلاک کر کے علامہ طاہر القادری پاکستانی سیاست میں ایک بار پھر ان کردیا، یہ پولیس والے اگر ایک گولی ہوا میں بھی چلا دیتے تو فرزانہ کی جان بچ جاتی۔فرزانہ جسے غیرت کے نام پر اپنوں نے اس مملکت خداداد پاکستان میں دن دھاڑے عدالت کے احاطے میں سنگسار کرکے مار دیا۔ میری رات کی نیند درخت پر رسی سے جھولتی اس تیرہ سالہ لڑکی کی تصویر کے سبب اڑ جاتی ہے، جو اخبارات میں شائع ہوئی ہے۔ یہ بچی پنجاب کے کسی دیہات میں سر شام حوائج ضرورت کے تحت نکلی تھی۔ اگلے دن اس کی لاش ملی، انسانوں نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو درندوں بھی نہیں کرتے۔میری نظروں میں اس پچھتر سالہ بوڑھی عورت کی درخواست بھی گھوم رہی ہے، جس میں اس نے پولیس اور عدالت سے انصاف کی دھائی دیتے ہوئے، کہا ہے کہ ایک شخص اس بیوہ عورت کے گھر میں رات کو گھس آیا اور اس کی آبرو ریزی کی۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورا معاشرہ عفریت کا روپ دھار گیا ہے، نہ بچیاں محفوظ ہیں نہ بوڑھی خواتین، نہ گھروں میں نہ محلوں میں ۔ عورت جو ماں بہن بیٹی بیوی بن کر ہر ایک کو پیاری ہوتی ہے، لیکن جب انتقام کے شعلے بلند ہوں تو اسی پھول کو کوئی روندتا ہے، کوئی اسے قتل کرتا ہے، کوئی اسے مسل کر پھینک دیتا ہے۔اب پاکستان خواتین کے خلاف تشدد بشمول جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی بدنام ہے۔ پنجاب میں رواں سال یکم جنوری سے 31 مارچ تک خواتین پر تشدد کے 1400 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں قتل، اغوا، خودکشی اور جنسی زیادتی کے واقعات شامل ہیں۔چھوٹے دیہات نہیں ، ضلع فیصل آباد، لاہور جیسے شہر ان تشدد کے واقعات میں سر فہرست ہیں۔ تیزاب گردی کے واقعات، اغوا کے واقعات کو تو شمار ہی نہیں کیا جاتا۔میں نے ابھی آمنہ کی تو بات ہی نہیں کی۔اس بیچاری کو تو اپنے پر ہونے والی زیادتی کے بارے میں شکایت درج کرانے کے لئے اور اپنا کیس آگے لانے کے لیے خودسوزی کرنا پڑی۔ کس کو سزا ملی، کس کے ہاتھ قلم ہوئے، مظفرگڑھ کی آمنہ جنسی زیادتی کاشکار ہوئی۔ پولیس نے اس کی سنوائی نہ کی اور وہ اس جانبدارانہ سلوک کی وجہ دنیا ہی سے کوچ کرگئی۔کیا سپریم کورٹ کے از خود نوٹس اور وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے غفلت برتنے پر پولیس اہلکاروں کی معطلی اور سرزنش جیسے اقدامات سے آمنہ واپس آجائے گی۔ پنجاب کے ہی دو شہروں میں بچیوّں کو زندہ جلانے اور گولیاں مار کر نہر میں پھیکنے پر بھی کسی کو کوئی ملال نہیں ہے۔ یہ خون خاک نشیاں ہے۔ جو رزق خاک ہو رہا ہے۔ ملک میں قانون موم کی ناک ہے، طاقت والے اس سے کھیل رہے ہیں۔ قانون کے موثر نفاذ کے بغیر اس کی حیثیت صرف ایک دستاویز سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن کون عملدرآمد کرائے گا، اور کس سے کرائے گا۔ اس پولیس سے جو کمزوروں پر گولیاں چلاتی ہے، اور طاقت والوں کو سلام کرتی ہے۔جنسی زیادتی کے مقدمات میں واقعاتی شہادت کی بجائے صرف گواہی پر توجہ مرکوز رکھی جاتی ہے جس سے اکثر انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوپاتے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اب بھی خواتین کو کسی نہ کسی حوالے سے تشدد کا سامنا ہے اور اکثر وہ اس کے خلاف کچھ کر بھی نہیں سکتیں۔۔۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہرتین میں سے ایک عورت یالڑکی کبھی نہ کبھی تشددکاشکارضروربنی ہے۔عورت فاونڈیشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دوہزار دس کے دوران خواتین پر تشدد کے لگ بھگ آٹھ ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔ جبکہ دوہزار گیارہ میں ان واقعات کی تعداد آٹھ ہزار پانچ سو انتالیس رہی۔یعنی ان واقعات کی تعداد میں چھ اعشاریہ سات چارفیصد اضافہ ہوا ہے۔ غیرت کے نام پر عورتوں پرتشدد ، خاص طور پر غیرت کے نام پر قتل، تیزاب سے حملوں اور خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے کتنے اعلان، کتنے دعوی ہوچکے، حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی ہوئی ہے۔لیکن نتیجہ کیا ہے، یہ واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ قانون کے نفاذ کا عمل کمزور،ا نتظامیہ، عدلیہ اور پولیس بے حس۔کس سے فریاد کی جائے۔ اسلام نے عورت کو بلندی کا مقام دیا۔نہ ہمیں اس مقام کا احساس ہے اور نہ اس وقار و تقدّس کا ۔ خواتین معاشرے کا اہم جز ہیں جن کے بغیر بالخصوص معاشرتی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ خواتین ہر روپ میں قابل احترام و عزت ہیں،اسلام نے اسکا ایک مقام متعین کیا ہے جسے تسلیم کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ہمارا میڈیا،جو ڈرامے دکھا رہا ہے، اس سے کونسے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایمیزون نے تو جنسی تشدد کے موضوع پر لکھی کتابیں ہٹا لی ہیں۔ تو کیا ان ڈراموں اور فلموں ، اشتہارات کو بند نہیں کیا جاسکتا۔ہم نے کتنے جنسی درندوں کو سزائیں دی۔ ہمیں اپنی نسلوں کی حفاظت کرنا ہے تو کڑوی گھونٹ پی کر معاشرہ میں پولیس کی تطہیر، عدالتوں سے انصاف، اور دلوں میں خوف خدا پیدا کرنا ہوگا۔
 
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387594 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More