عورتوں کے حقوق اور اسلام ۔۔۔
(usman ahsan, liverpool , UK)
آجکل میڈیا پر حقوق نسواں کے
حوالے سے بہت کچھ سننے کو ملتا ہے اور بہت سی تنظیمیں اور این جی اوز بھی
اس سلسلے میں سرگرم عمل ہیں اور انکو چلانے والے زیادہ تر سیکولر اور روشن
خیال لوگ ہیں اور وہ مغرب کی مثالیں دے کر یہ تاثر دینے کی کوشیش کرتے ہیں
کہ اسلام عورتوں پر حد سے زیادہ پابندیاں بھی لگاتا ہے اور اسکے حقوق دینے
میں بھی کنجوسی سے کام لیتا ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ انھوں نے اپنی خواہشات
اور بے راہروی و فحاشی و عریانی کو حقوق کا نام دے رکھا ہے۔ حقوق کے نام پر
عورت کو بازار کی زینت بنا دیا ہے۔ وہ مسلمان بیٹیاں جنھیں صفا و مروہ پر
بھی دوڑنے کی اجازت نہ تھی انھیں حقوق کے نام پر دوسرے ممالک بجھوا کر کبڈی
اور کرکٹ کھلوائی جا رہی ہے۔ اہل مغرب بے راہروی و عریانی کی جن آخری حدوں
کو چھو کر وآپس آنا چاہتے ہیں بدقسمتی سے ہمارا میڈیا اور این جی اوز ہمیں
اس دلدل میں دھکیلانا چاہتے ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور یہ حقوق
الله کے ساتھ حقوق العباد کا بھی درس دیتا ہے، اسلام ہماری خواہشات کے تابع
نہیں اور نہ یہ موم کی ناک ہے کہ جسطرف چاہا موڑ لیا۔ اسلام نے عورتوں کو
وہ حقوق دیے کہ اپنے تو کجا پرائے بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکے، چونکہ
ہمارے اکثر سیکولر مغرب سے بڑے مرعوب ہیں اسلئیے ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیں،
جان فریز لکھتا ہے، اسلام نے عورت کو یہ احساس دلا کر کہ وہ انسان ہے اور
مرد کے برابر حقوق رکھتی ہے اس پر پورا اعتماد کیا اسے آذادی دی اور عورت
نے انتہائی ذمہ دارانہ احساس کے ساتھ اس اعتماد کو بڑھاوا دیا اور ثابت
کردیا کہ وہ اپنی عصمت وعفت کی حفاظت خود کرسکتی ہے۔ ( Islam in Early
Years page. 19 )۔ عورت کے ساتھ اسلام سے پہلے دنیا کے مختلف تمدنوں میں جو
کچھ کیا جاتا تھا وہ تاریخ انسانی کا ایک حصہ ہے جس سے اہل علم آگاہ ہیں،
عورت کو کبھی بھی انسان سمجھ کر مرد کی برابر سطح پر نہیں رکھا گیا وہ
ہمیشہ مرد کا کھلونا رہی اور مرد ہمیشہ اسے اپنی منشا کے مطابق مسلتا اور
کچلتا رہا ، گھر تھا یا بازار ، بتکدہ تھا یا معبد ، چوک تھا یا چوراہا ہر
جگہ اسکی عصمت و عفت کے سودے ہوے اور ستم بالائے ستم جو عزتوں کے سوداگر
تھے وہ معزز و محترم قرار پائے اور جسکی عصمت تاتار ہوئی، جسکی تجارت کی
گئی وہی ہر جگہ رسوا ہوتی تھی۔ پھر سسکتی ہوئی انسانیت کے بکھرے ہوئے
گیسئوں کو سنوارنے والا دنیا کے بگڑے نظاموں کو سدھارنے والا، جنت کو عورت
کے قدموں میں بچھانے والا ، بیٹی کو رحمت الہی کہنے والا رحمت کائنات بن کر
اس دنیا میں جلوہ گر ہوا اور اسلام کی تعلیمات سے دنیا کو روشناس کراوایا
اور سب میں حقوق کی خیرات بانٹی۔ اسلام نے آکر جہاں پچھلی تہذیبوں اور
تمدنوں ے بہت سے معیار جڑ سے اکھاڑ پھینکے وہیں عورتوں پر بھی خصوصی توجہ
دی اور آن واحد میں عورت کو قدموں سے اٹھا کر مسند تکریم اور تقدیس پر بٹھا
دیا ۔ اسلام آیا ساتھ ہی رشتوں کا احترام آیا اور حرمتوں کے وہ پیمانے وضع
ہوے کہ جنکے تحت عورتوں کو ویسے ہی حقوق دیے گے جیسے حقوق مردوں کو دیے گے۔
ارشاد ہوا ولھن مثل الذی علیھن انکے حقوق بھی ہیں جیسے انکے فرائض ہیں ۔ یہ
عرب معاشرے میں ایک انقلاب تھا جس سے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ذہن
اندھیروں سے نکل کر روشنیوں میں آگیا ہو، کچلی اور پامال عورت کو قرآن نے
اپنے پاؤں پر کھڑا کردیا اب عورت میں جرات آتی ہے حوصلہ و خود اعتمادی آتی
ہے کہ اب وہ امیرالمئومنین عمر کا دامن پکڑ لیتی ہے اور کہتی ہے کہ رک جاؤ
عمر تمھیں یہ اختیار کس نے دیا کہ خدا کے حکم میں ترمیم کرے وہ تو حق مہر
میں ہمارے لئیے ڈھیروں سونا بھی قبول فرماتا ہے اور تم حق مہر کی مقدار
مقرر و متعین کرتے پھرتے ہو اور حضرت عمر فرماتے ہیں کہ تمھارا شکریہ تم نے
مجھے میری حثیت یاد دلا دی اور حکم ربی بھی یاد دلا دیا جب تک تم جیسی
عورتیں موجود ہیں عمر رستے سے بھٹک نہیں سکتا۔ اسلام عورت کو وہ مقام دیتا
ہے کہ کائنات کی سب سے عظیم ہستی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عورت سے
مشورہ فرماتے ہیں اور اسکا مشورہ اتنا دانشمندانہ ہوتا ہے کہ الله کے رسول
صلی الله علیہ وسلم اس پر عمل فرماتے ہیں جسکے تسلی بخش نتائج حاصل ہوتے
ہیں۔ یہ عورت ام سلمہ تھیں اور مشورہ صلح حدیبیہ کے موقع پر دیا گیا۔
امیرالمئومنین حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ اپنے دور خلافت میں شفا بنت
عبدالله سے مشورہ لینے میں پیش قدمی فرماتے ہیں۔ حضرت انس رضی الله عنہ سے
روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے خواتین اور بچوں کو
کسی تقریب سے وآپس آتے دیکھا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا تم سب میرے محبوب
لوگوں میں ہو تین بار یہ جملہ دہرایا ( بخاری کتاب المناقب ، مسلم کتاب
فضائل صحابہ ) ۔ آج ایک وسیع عنوان پر قلم اٹھا بیٹھا ہوں جسے سمیٹنا دشوار
ہورہا ہے بہت کچھ اس عنوان کے تحت لکھنا چاہتا ہوں مگر تنگی وقت کے پیش نظر
آئندہ مضمون میں عرض کروں گا خاص کر جدید دور میں ملازمت خواتین اور سماجی
خدمات اور پردہ کے حوالے سے۔ آخر میں صرف اتنی گذارش کروں گا کہ خواتین کو
حقوق این جی اوز اور مغربی فنڈز سے نہیں مل سکتے اگر حقوق لینے ہیں تو آؤ
میرے آقا و مولا صلی الله علیہ وسلم کی دہلیز پر۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
عورت اگر بہن بن کر قرآن پڑھے تو عمر کو اسلام کی طرف پھیر دیتی ہے
عورت اگر ماں بن کر قرآن کی تلاوت کرے تو بیٹا کربلا میں نیزے کی نوک پر
قرآن سناتا ہے۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ ۔۔۔۔ |
|