عذابِ مسلسل
(Zubair Amanat , Jalalpur Jattan, Gujrat)
حبس زدہ تپتی دوپہر میں دوزانو
بیٹھا ننھی سی بچی کے ہاتھوں کی حرارت اور بھیگی آنکھوں میں گم تھا۔ سوچ
رہا تھا وقت کتنی جلدی بدل جاتا ہے آج سے چار سال قبل جس سیلاب زدہ بچی کو
دیکھا تھا اس کے چہرے پر اب بھی وہ خوف اور خلا باقی تھا جو 2010 ء کے
سیلاب نے پیدا کیا۔اُس کے خشک ہونٹوں نے ایک دفعہ پھر چند لفظ کہے جسے
سمجھنے کے لیے پھر میں نے اپنے ڈرائیور سے مدد مانگی۔
وہ قیامت صغریٰ کا منظر ابھی بھی میری نظروں میں محفوظ ہے جس میں اس بچی کے
باپ، بھائی،دو بہنوں کے علاوہ تقریباً 1985جانوں کا نقصان ہوا 17553 گاؤں
پانی کی نذر ہو گئے اور160000 (Sq km) کا علاقہ زیر آب آگیاتھا۔ ہزاروں
چراہ گاہیں اور جانور نذر آب ہو گئے تھے۔ کئی جانوروں کی لاشیں درختوں کی
ٹہنیوں پر لٹکی نشان عبرت پیش کر رہی تھیں۔ کچے مکانوں کی دیواریں پانی میں
مل کر اپنی اپنی جگہ زمین بوس ہو کر مٹی کا ڈھیر بن گئیں تھیں۔ مرے ہوئے
جانوروں کی لاشوں کاتعفن اتنا شدید تھا کہ سانس لینا محال تھا۔
ایک ننھی سی بچی اپنے ہاتھ میں شناختی کارڈ لیے کبھی میری طرف اور کبھی
اشیاء خورد و نوش کے ٹرک کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھے جا رہی تھی۔ اس
کی نظروں نے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ توجہ ملتے ہی وہ بچی آگے بڑھی
اور میری طرف ہاتھ میں پکڑا ہوا شناختی کارڈ بڑھا دیا۔ میں نے بچی کی
معصومیت کو دیکھتے ہوئے اپنے دوست زمان جو کہ ٹرک پر سامان تقسیم کرنے کی
ذمہ داری نبھا رہے تھے کی طرف بھجوادیا چند ثانیے بعد وہ بچی منہ لٹکائے
واپس وہیں آ کھڑی ہوئی میرے استفسار پر پتہ چلا کہ جس علاقے میں ہم راشن
تقسیم کر رہے ہیں یہ بچی اُس علاقے کی نہیں۔میں نے چند مقامی لوگوں کو اس
بچی کو پہچاننے کے لیے مدد طلب کی لیکن سب نے پہچاننے سے انکار کر دیا میری
نظریں اس بچی کے چہرے پر بدلتے تاثرات سے نہیں ہٹ رہی تھیں۔ اس کی بڑی بڑی
آنکھیں ایک دم سے نم ہو گئیں۔ اس کے ہونٹ رونے ہی کو تھے کہ میں نے دو زانو
ہو کر اس بچی کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اور سوالیہ نظروں سے اس کی طرف
دیکھنے لگا۔ بچی کی نظریں صرف سامان والے ٹرک کو حصار میں لیے ہوئے تھی۔ اس
کے خشک اور بنجر ہونٹ ہلے اور چند لفظ جن کے معانی تو سمجھ میں نہ آئے لیکن
اس کے مفہوم اتنا واضح اور اثر دار تھے کہ ہیبت طاری ہو گئی۔ میں نے
وحشیانہ انداز میں اُس کے چند لفظوں کا مطلب جاننے کے لیے اپنے ڈرائیور کا
بازو جھنجھوڑا۔ اتنے لوگوں کے جمِ غفیر میں بچی اور زیادہ ڈر گئی تھی۔
ڈرائیور اس ننھی بچی کو لے کر لوگوں کے ہجوم سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد جب
ڈرائیور واپس آیا تو اس کا چہرہ آنسوؤں سے نم تھا آتے ہی گویا ہو ا ’صاب اس
بچی کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے اس کی مدد کرو‘۔ میں نے سوالیہ نظروں سے دونوں
کی طرف دیکھا تو بچی لرزتے ہونٹوں کے ساتھ گویا ہوئی’میں نے دو دن سے کھانا
نہیں کھایا مجھے بھوک لگی ہے روز یہاں آتی ہوں کھانا لینے مگر کوئی کھانا
نہیں دیتا، میرے بابا کو پانی بہا کر پتہ نہیں کہاں لے گیا ہے، پانی میرا
گھر اور میرے سارے کھلونے بھی لے گیا ہے۔ میں اور میری ماں اب اکیلی رہ
گئیں ہیں میرے بابا بھی کھانا لے کر نہیں آتے …… آپ نے کھانا نہیں دینا تو
نہ دیں لیکن میرا یقین کریں میں جھوٹ نہیں بول رہی“مجھے لگ رہا تھا میرے
سامنے میری چھ سالہ بیٹی کھڑی باتیں کر رہی ہے۔ میں نے مدد کے لیے اپنے ارد
گرد دیکھا لیکن آنکھوں میں جلن نے کچھ دیکھنے نہ دیا۔ میں اور باقی ساتھی
جو ہجوم دیکھ کر میرے ارد گرد اکٹھے ہوئے گئے تھے سب کی آنکھیں نم تھیں۔
ایک دم سے جیسے سب ساتھیوں کو ہوش آیا اور سب نے ایک ایک راشن کا تھیلا
اپنے کندھوں پر اٹھایا اور اس بچی کو ساتھ لے کر اس کے گھر کی طرف چل پڑے۔
سب کو لگ رہا تھا جیسے ہماری محنت کا ثمر ہمیں ملنے جا رہا ہے۔ ”اب وڈیروں
کی زمینیں بچانے کے لیے کچے مکانوں کو بہنے مت دینا۔ اب لوگوں کو ڈوبنے مت
دینا، اب بستیوں کو اجڑنے مت دینا“بہت ہی نحیف آواز تھی جو میں نے چار سال
بعد سنی تھی۔ جولائی آرہا ہے اب کی بار ویسا مت ہونے دینا۔“ لیکن میرا دیس
تو جیسے آسیب زدہ ہے۔ یہاں رحمت زحمت میں بدل جاتی ہے۔ زلزلہ نہ بھی آئے تو
تباہی کا خوف مار دیتا ہے۔ یہاں ننھی جانیں صدیوں کے عذاب میں شریک ہیں۔
میں چند ماہ پہلے سیلاب متاثرہ بچی سے دوبارہ ملا تو میں نے دیکھاسیلاب اور
اس کے اثرات ابھی تک جیسے تھم کر رہ گئے ہیں۔ ننھی بچی بڑی ہو گئی لیکن
مصیبتیں ہیں کہ اسے جوان ہی نہیں ہونے دیتیں۔ میں سوچ رہا ہوں لمحوں کی خطا
صدیوں کی سزا وار ٹھہرتی ہے اور قوموں کا اجتماعی جرم کتنی سزا کا مستحق
ہوتا ہے؟ جس سماج میں ننھے فرشتوں کے خواب کھو جائیں وہاں زندگی بے معنی ہو
کر مسلسل عذاب بن جاتی ہے“
خدا را! اب کی بار ایسا مت ہونے دینا |
|