غیرنظریاتی انسان اور جہاز کا کوّا

دنیا کی ترقی کے آغازو ارتقا ئی عمل میں انسانی معاشرے جتنے بھی انقلابی عمل سے گزرکر جدید معاشروں کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ یہ سب نظریاتی انسانوں کے سوچنے کی رہین منّت ہے۔ انہی کی سوچ نے معاشروں کو قدیم سے جدید بنایا اور انسانوں کو آسائشِ زندگی سے مزین کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ نظریاتی انسانوں کی بدولت انسانی معاشروں نے کس طرح کی ترقیاں کی ہیں؟ وہ ہمارے روزمرہ کے مشاہدے میں آتے ہیں اسی لیے کسی مثال کا دینا ضروری نہیں۔دنیا کی فلسفیانہ تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ انسانی معاشروں کی ترقی و تعمیر میں غیرنظریاتی انسانوں کو کوئی کردار نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ نظریاتی انسانوں کی مخالفت کی ہے اورانسانی معاشروں کی ترقی اور خوشحالی کے آگے بند باندھنے ،روڈے اٹکانے اور انہیں مزید پسماندہ اور قدیم سے قدیم تر بنانے کی کوششیں کی ہیں۔

غیرنظریاتی انسان،اُس انسان کو کہا جاتاہے جس کا کوئی علمی نظریے پر یقین نہ ہو اور وہ اپنے اُن روایتوں کا اسیر ہو، جسے پنگوڑے سے نصیب ہوئے ہیں۔ یعنی دنیاکے معاشی ، معاشرتی، سائنسی اور دیگربرق رفتار تبدیلیاں جو ایک مخصوص نظریے پر کاربند رکھ کر ممکن ہوئی ہیں یاہورہی ہیں ، اُ ن پر اُس کا کوئی اثر نہ ہو۔ ایسے شخص کہیں پر اگرکسی کی نظریاتی وابستگی کو دیکھتے ہیں تو فوراً اُسے اپنے آپ سے تقابل کرنے کی کوشش کرکے غلط قرار دینے میں روایتی ہچکچاہٹ سے بھی گریز نہیں کرتے۔اس تناظر میں وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ دنیاکی تبدیلیوں سے اگر انہوں نے اثر قبول نہیں کی ہے ، تو کیا دوسرے بھی قبول نہیں کرسکتے۔ ایسے لوگ چاہے دنیاکی ترقی یافتہ معاشروں میں رہائش پزیرہوں یا اپنے پسماندہ معاشرے میں ، وہ اپنے روایتی پن میں کبھی بھی تبدیلی لانے اور نظریاتی بننے کے متحمل نہیں ہوسکتے کیونکہ اُن پر کسی نظریے کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔بلآخر دنیاکی برق رفتار تبدیلیوں کی مخالفت شروع کردیتے ہیں اور رجعت پسندی اُن کا نظریہ بن جاتاہےاسی طرح بڑھاپے کی عمر میں کسی بندے کمرے میں ایک چارپائی پر لیٹ کرگوشہ نشینی اختیار کرکے اپنے زمانے کو اچھا کہتے ہوئے نہیں تھکتے اور دنیا کی معاشی ، معاشرتی اور سائنسی اور انقلاب کو برا بھلا کہہ کر نظریاتی لوگوں کو کوستے رہتے ہیں۔مگر اپنی ہاراور دنیاکی تبدیلی کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے۔

ایک مخصوص علمی اور معاشرتی نظریے پرکاربند نہ ہونے کی وجہ سے وہ کسی کے بھی جھانسے میں آجاتے ہیں اور اپنی معمولی عیش و عشرت کی خاطر انجان راہوں کے مسافر بن کردوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہتے ہیں بلآخر کسی کو ان کی ضرورت نہیں پڑتی تو وہ جو پہلے سے بھٹکے ہوئے ہوتے ہیں مزید بھٹک جاتے ہیں ۔ اور عمر بھر ایک کا دامن چھوڑ کا دوسرے کا دامن پکڑتے رہتے ہیں اور یہی عمل اُن کی زندگی کا نصب العین اور لائحہ عمل بن کر اُنہیں نہ ادھر کا رہنے دیتاہے اور نہ ادھر کا۔ایسے لوگ اُس کوّے کی مانند ہیں جو ایک ٹکڑے کی خاطر سمندر میں جہازکے ساتھ ساتھ اڑتے رہتے ہیں اور سمندرمیں کہیں بیٹھنے کی جگہ نہ ملنے کی وجہ سےجہازکے گردمنڈلاتے رہتے ہیں۔ اور دوردورتک جہازکے ساتھ چلتے چلتے گمنام جزیروں تک جاپہنچتے ہیں اوراگلی صبح دوسری جہازکے سرپرمنڈلاتے ہوئے کہیں اور بھٹک جاتے ہیں۔

کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ایک مخصوص سماجی یا علمی نظریے پر کاربند ہوکراپنے مستقبل کا لائحہ عمل پہلے سے طے کرے کیونکہ غیرنظریاتی بننے سے صرف رجعت پسندی ہی انسان کا نظریہ بن سکتاہے۔ جس پر کاربند ہوکر ہرقسم کی تبدیلی کی مخالفت کرکے وہ ترقی پسند معاشروں کے لیے ایک خطرے کے طور پر ابھر کر سامنے آتاہے اور ترقی پسند معاشرے اُسے اپنے آگے رُکاوٹ سمجھ کر یا تو اُس سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں یا پھر اُسے جڑسے اکھاڑ پھینکنے کے لیے میدان ِعمل میں کود پڑتے ہیں یعنی اُن کے معاملے میں بے جا مداخلت کرکے انہیں شکست دیتے ہیں۔ کیونکہ ہم ترقی پسند معاشروں کے موجودہ سماجی ساخت کا جب مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اُن کے پیچھے ایک لمبی جدوجہد کا تسلسل ملتاہے، جس نے رجعت پسندوں کے خلاف جنگ کرکے انہیں شکست و ریخت سے دوچار کرکے اپنے آپ کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا ہے جس سے نہ صرف وہ اپنے معاشروں کو مزید تبدیل اور جدید کرنےکے قابل ہوئے ہیں بلکہ موجودہ دور میں ہ دوسرے معاشروں میں بھی انہی تبدیلیوں کی خواہش رکھتے ہیں۔ جس سے انسان کو جدید آسائشِ زندگی باآسانی میّسر آسکے۔

آج جب ہم دنیا کے معاشروں کا آپس میں تقابل کرتے ہیں تو ہمیں دوطرح کے معاشرے دیکھنے کو ملتے ہیں ایک قدیم اور رجعت پسند معاشرہ ، جہاں ہروقت جنگ و جدل ، نا انصافی، قتل و ڈاکہ زنی، تنگ نظری و کینہ پروری ، ظلم و استحصال، نسلی اور فرقہ پرستانہ فسادات اور بنیادی انسانی حقوق کی پائمالی اور آزادی اظہار کی سنگین پابندی، کرپشن، لوٹ مار، انسانوں کی اغوا کاری، ہرطبقہ کے لیے الگ الگ قانون سمیت دیگر ایسے بُرے اور نامناسب اور ناقابل برداشت اعمال دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جو روزبروز گھٹنے کے بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور ایسے رویوں کو روکھنے کے بجائے انہیں بڑھاوا دینے کے لیےاور معاشرے کو مزید پسماندہ کرنے کے لیے غیرنظریاتی لوگوں کی طرف سے مزید قانون سازی کی جاتی ہیں تاکہ انسانوں کے لیے جینے کو مزیددشوار بنایاجاسکے اورانہیں مزیدپسماندہ اور رجعت پسند بنایاجاسکے۔ ایسے تمام واقعات اِ س قسم کے معاشروں میں از خود پیدا نہ ہوتے ہیں بلکہ انہی معاشروں میں رہنے والے غیرنظریاتی انسانوں کی سوچ اپنے معاشرے کو اس کیفیت اور حالت سے دوچار کرتے ہیں۔

دوسری طرف ہمیں وہ جدید اور پُرآسائش معاشرے دیکھنے کو ملتے ہیں جہاں صدیوں پہلے رجعت پسندی کو جڑسے اُکھاڑپھینکنے کے لیے نظریاتی انسانوں نے دنیا کی تاریخ اور اس کے مقصد اورانسانی حقوق کوبنیاد بنا کر اپنے معاشرے کے لیے پہلے سے سوچنا شرع کردیا تھا اور پھر اُسی سوچ کو مختلف زوایوں سے گھماپھرا کر مختلف نظریات کا نام دے کر اس پر مستقل مزاجی سے قائم رہ کر اپنے معاشروں کی ازسرے نو سائنسی بنیادوں پر تعمیر شروع کردی تھی جس میں انہیں توقعات سے بڑھ کر نہ صرف کامیابی ملی بلکہ انہوں نے اپنی سوچ کو وسعت دے کر انسانی کی خدمت سے کافی آگے جاکر فطرت سے مقابلہ کرنا شروع کردیا اوراُس کی پیچدگی کے راز اور نظریات معلوم کیے۔ علمی اور سماجی نظریات کےپھیلنے کے باعث وہ معاشرے آج، اگر تنگ نظری، کینہ پروی، کرپشن سے مکمل پاک تو نہیں ہوئے ہیں لیکن وہاں نسلی اور فرقہ پرستانہ فسادات، قتل و غارت گری،انسانوں کی اغواکاری، ظلم و استحصال، بنیادی انسانی حقوق کی پائمالی، اظہارِ رائے کی پابندی ،کرپشن، لوٹ مار، ہرطبقہ کے لیے الگ الگ قانون کے نفاظ جیسے دیگر برے اعمال سے چھٹکارہ پاچکے ہیں،اور کسی خطے کے انسانوں کی آزادی کی خواہش پر ریفرنڈم کو بھی اُن کاحق سمجھ کر تسلیم کیاجاتاہے۔اُن کے لیے اب اس طرح کے کوئی سنگین سماجی مسائل نہیں ہیں ، اگر کہیں رونما ہوتے ہیں تو وہ انہیں رجعت پسندوں کی طرح مزید بڑھاوا دینے کے بجائے دانش مندی کے ساتھ حل کرتے ہیں۔ اوراب اُن جدید معاشروں کے نظریاتی انسان ، اِن پسماندہ معاشروں کے بارے میں فکر مند ہیں کہ انہیں بھی ٹھیک کرکے اپنے برابر لاکھڑا کردیاجائے۔جب وہ پسماندہ معاشروں کی بہتری کے لیے بھاری فنڈجاری کرتے ہیں تو رجعت پسند معاشروں کے غیرنظریاتی لوگ انہی فنڈز کو معاشرتی ترقی اور خوشحالی پرخرچ کرنے کے بجائے انہیں مزید نسلی اور مذہبی فسادات پھیلانے کی خاطر استعمال کرتے ہیں، کیونکہ انہیں ہر حال میں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ رجعت پسند ہیں۔

جب جدید معاشروں کے نظریاتی انسان، انسانی حقوق کو بنیاد بنا کر ایسے پسماندہ معاشروں کی بہتری کے لیے این جی اوز یا دیگراداروں کی صورت میں سرمایہ کاری کرکے انہیں انسان سمجھ کر اپنے برابر لانے کی کوشش کرتے ہیں، تو پھر پسماندہ معاشروں کے غیرنظریاتی لوگ اپنی روایتی ڈگر پر آکر اُن کی انہی نیک اور اچھے خواہشات کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں کہ ہمیں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور ہمارے معاشرے کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ غیرنظریاتی انسان ہر حال میں تبدیلی مخالف اور ایک رجعت پسند ہی ہے۔

انسان کا غیرنظریاتی روش نہ صرف خود اُسے بلکہ اس کے خاندان اور پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتاہے۔ جب کسی معاشرے پر غیرنظریاتی یعنی کہ رجعت پسند انسانوں کی حاکمیت ہوگی تو وہ معاشرہ خود ترقی کرنے کے بجائےایک ٹکڑا حاصل کرنے کی خاطراس جہاز کے کوّے کی مانند دوسرے ترقی پسند معاشروں کے سر پر منڈلاتا رہتا ہے اور کبھی اس نگر کبھی اُس نگر کاانجان مسافربن کر ایک زمانے میں گمنام معاشروں کی فہرست میں شامل ہوجاتاہے۔
Shoaib Shadab
About the Author: Shoaib Shadab Read More Articles by Shoaib Shadab: 8 Articles with 9614 views Shoaib Shadab is a Research Scholar and Progressive Writer. He is Founder-President of Liberal Scholars Society, Balochistan .. View More