رمضان میں مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہوگیا

رمضان المبارک کے دوران مشرقِ وسطیٰ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں ’’سیلز پروموشنز‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں عوام کو سستی اشیاء فراہم کی جاتی ہیں، یہ یہاں معمول کی بات ہے، سپر اسٹوروں پر عوام کوسیل کے نام پر لوٹا نہیں جاتا ہے، اس بار رمضان سے پہلے سعودی عرب کے مختلف شہروں میں قائم چین سٹور کی ایک شاخ نے رمضان کی سیلز پروموشن کا اہتمام کیا تھا، اس اسٹور میں عوام نے دل کھول کر لوٹ سیل میں حصہ لیا ، گاہوں کے حجوم نے دل موہ دینے والی رعایت سے فائدہ اٹھانے کے لئے فوڈ چین کی ایک برانچ پر ایسا ہلہ بولا کہ سارے انتظام دھرے کے دھرے رہ گئے۔ گاہکوں کا انبوہ مقبول عام فوڈ اینڈ گراسری 'تمیمی مارکیٹ' پر خریداری کے لئے اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوا کہ فوڈ چین کی ساری سجاوٹ دھری کی دھری رہ گئی۔ لیکن ہمارے یہاں رمضان آتے ہی جو لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا، اس برس فروری میں اشیاء خورو نوش کی قیمتوں میں یکایک بلاجواز اضافہ نے شہریوں کی چیخیں نکلوا دی تھیں جس پر حکومت پنجاب نے مارکیٹ کمیٹیوں کو سرکاری نرخناموں کے اجراء اور اس پر عمل درآمد کے لیے منتخب نمائندوں کو ٹاؤن انتظامیہ کو متحرک کیا تھا جس نے بازاروں اور دکانوں پر تیزی سے چھاپے مارنے شروع کیے جس کے نتیجہ میں قیمتوں میں کافی حد تک کمی آئی۔ لیکن سندھ میں منگائی کا جن قابو سے باہر ہے اور حکومت کی رٹ ایک سوال ہے، بازاروں میں اشیا کی وافر فراہمی، معیار اور نرخوں پر عمل درآمد کو یقینی دہانی کے دعوے سب بیکار ثابت ہوئے یں۔ گراں فروشوں کے خلاف سخت کارروائی حکومتی پریس ریلز تک محدود ہے، در حقیقت حکومت سندھ کو مہنگائی اور عوام کی بھلائی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ نہ ہی رمضان کے حوالے سے کوئی تیاری کی گئی تھی۔ تا کہ ماہ رمضان میں عوام کو لوٹنے کا سلسلہ ختم ہو سکے۔مرکزی سطح پر بھی حکومت نے اس سلسلے میں کوئی بہتر منصوبہ بندی نہیں کی۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 2 ارب روپے کے رمضان پیکیج کی منظوری دی تھی، جس کے ذریعے یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں 10 سے 15 فیصد کم ہونے کی خوشخبری سنائی گئی تھی، لیکن ایک تو یوٹیلٹی اسٹور غریب کی پہنچ سے دور وی آئی پی علاقوں میں ہیں۔ جہا ں عوام مشکل سے پہنچ سکتے ہیں، جتنے کی بچت نہیں ہوتی جتنا کرائے میں خرچ ہوجا تا ہے۔ کمشنر کراچی شعیب احمد صدیقی نے رمضان سے قبل اس بات کی نوید سنائی تھی کہ پرائس کنٹرول کمیٹی اورمینو فیکچررز اور ہول سیلرز کے تعاون سے رمضان میں شہریوں کو اشیائے ضروریہ میں ریلیف دینے کے لیے رعایتی قیمتوں پر مشتمل رمضان پیکیج تیار کیا گیا ہے۔ پیکیج میں آٹا،روٹی، تیل،گھی، مٹھائی، نمکو،بیکری کی اشیا، چائے کی قیمتوں میں ریلیف دینے کا کہا گیا تھا۔، تیل،گھی، مٹھائی، نمکو،بیکری کی اشیا، چائے کی قیمتوں میں کمی کے لئے مختلیف کمپنیوں سے ڈالڈا فوڈز، کسان گھی، میسرز یونی لیورز پاکستان اور صوفی گھی اینڈ آئل نے مختلف رعایتوں کا اعلا ن کرایا گیا تھا۔ لیکن اس پر عمل کہیں بھی نظر نہیں آیا۔ سب سے زیادہ آٹے پر مذاق کیا گیا ، عوام کو کہا گیا کہ آٹا 360 روپے کا دیا جائے گا،سندھ فلور ملز ایسوسی ایشن نے انتظامیہ کو تحریری طور پر آٹے کی قیمت میں کمی کی یقین دہانی کرائی ہے ،انھوں نے 10 کلو کے عوامی آٹے کا تھیلا 360 روپے میں دینے کا اعلا ن کیا تھا۔ ۔تمام ملز نے اپنی فیئر پرائس شاپس بھی قائم کرنے کا کہا تھا، لیکن اس پر دکھاوے کا ہی عمل ہوا، عوام کو آٹا 480روپے تھیلا ہی ملا۔ روٹی کی قیمتوں میں کمی کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا، تندور مالکان نے شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے روٹی کی قیمت کم کرنے کا تحریری طور پر اعلان کیا تھا ، فیصلے کے مطابق روٹی کی کم سے کم قیمت پانچ روپے اور زیادہ سے زیادہ نو روپے کی ہوگی۔ لیکن عوام کو رمضان میں روٹی چھ روپے اور دس روپے ہی میں دستیاب ہوئی۔مرکزی ھکومت کے دو ارب کے پیکیج کے مقابلے میں حکومت پنجاب نے صوبے کے عوام کیلئے پانچ ارب روپے کے رمضان پیکیج کی حتمی منظوری دی تھی۔ صوبے بھر میں رمضان بازار بھی لگائے گئے۔ اور وہاں آٹے کا دس کلو کا تھیلا تین سو دس روپے میں دیا گیا۔ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کے ایم ڈی نے میڈیا نمائندوں کے سامنے دعوی کیا تھا کہ رواں برس رمضان میں یوٹیلیٹی سٹوروں پر فروخت کے لیے معیاری اشیاء فراہم کی جائیں گی۔ ایم ڈی کے مطابق ان کا ٹارگٹ تنخواہ دار طبقہ ہے۔ اس سال رمضان کے لیے اشیا کی کوالٹی اور نرخوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اکثر چیزوں کے غیر معیاری ہونے کی شکایت عام تھی۔ کارپوریشن میں بد عنوانی کا یہ حال ہے کہ کارپوریشن میں چوری اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت میں ملوث 1500 ملازمین کو نوکری سے فارغ کیا گیا ہے۔ دو فرنچائز سٹوں کے لائسنس منسوخ کیے گئے ہیں۔ لیکن پھر بھی کوئی سدھار نہیں ہوا۔ عوام کویہ شکایت رہی کہ یوٹیلیٹی سٹوروں پر اعلان کردہ اشیاء سرے سے دستیاب ہی نہیں تھی۔ یہ اشیاء ا سٹور کا مالک دکانداروں کو فروخت کر دیتا ہے یا ایک فرد کو اس کی ضرورت سے زائد دے دیتا ہے جس سے کئی صارفین یہ اشیاء خریدنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اب تک عوام کو یہ سمجھ نہیں آئی کہ حکومت یوٹیلیٹی اسٹوروں پر جواربوں روپے سبسڈی کی مد میں خرچ کر رہی ہے عام شہری کو اس کا کیا فائدہ پہنچ پایا۔ سبزیوں کے دام بھی عوام پر بھاری ہیں ۔لاہور میں آلو 70روپے کلو، تو کراچی میں 60روپے اور پشاور میں 90روپے میں فروخت کیا جارہا ہے، جب کہ لاہور میں پیاز 40روپے کلو تو کراچی میں 35روپے اور پشاور میں 50روپے کلو میں فروخت کی جارہی ہے۔ کیلے کی فی درجن قیمت لاہور اور کراچی میں 120جب کہ پشاور میں 130روپے ہے۔منافع خوروں کے خلاف ھکومت کچھ بھی نہیں کرپاتی۔دنیا بھرمیں تہذیب یافتہ ممالک میں مذہبی تہوار اور خوشی کے مواقع پر دکاندار سستی اشیاء فروخت کرتی ہیں۔ ان کا نکتہ نظر یہ ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقات کو بھی ان تہواروں کی خوشیوں میں شریک کیا جائے۔ اسی وجہ سے ان ممالک میں ایسے مواقع پر زبردست سیل لگی رہتی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ خصوصاً پسماندہ طبقات کے لوگ ان سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ پاکستان بھر میں روایات تہذیب یافتہ دنیا سے بالکل برعکس ہیں۔ یہاں ضرورت کی اشیاء پہلے غائب کر لی جاتی ہیں یا ان کی ذخیرہ اندوزی بڑے بڑے لوگ اور تاجر حضرات حکومت وقت کی سرپرستی میں کرتے ہیں۔اس کا مقصد ان اشیاء کی قلت کو یقینی بنانا ہوتا ہے اور بعدمیں زیادہ قیمت پر بڑے دکاندار اور دوسرے لوگوں ان اشیاء کو فروخت کرتے ہیں۔ بات یہیں نہیں رکتی ، چھوٹے دکاندار اورریڑھی والے اس میں دو گنا اضافہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ضرورت اور روز مرہ میں استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ عام اور غریب لوگوں کے دسترس سے باہر ہو جاتی ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387686 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More