سکول کے پلے گراؤنڈ میں اس وقت
کائنات کے سارے رنگ جیسے بچوں کی اٹھکیلیوں اور قہقہوں میں اکٹھے کر دیئے
گئے تھے۔ بچے اپنے اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سکول کے
لان کے ایک کونے میں کچھ بچے مل کر ایک عجیب سے بچے کو تنگ کر رہے تھے جس
کے نہ بازو تھے اور نہ ٹانگیں۔ بچے اس کو طرح طرح کے فقرے کس رہے تھے’’نِک
آؤ فٹ بال کھیلیں‘‘ایک اور آواز آئی’’نِک تم باتھ روم کس کو ساتھ لے کر
جاتے ہو‘‘، تیسری آواز نے نِک کو آبدیدہ کر دیا’’نِک تم تو کبھی کسی کو گلے
بھی نہیں لگا سکو گے‘‘۔ بچے اس کو نیچے گرا کر اٹھنے کو کہتے اور نِک اُٹھ
نہ پاتا،اور بچے اس کا اور زیادہ مذاق اڑاتے۔ نِک نے دس سال کی عمر میں
لوگوں کی باتوں سے تنگ آکر دو دفعہ خود کشی کی کوشش کی ۔
نکولس جیمز’نِک‘ پیدائشی طو رپر ’ٹیٹرا میلیا‘ Tetra-Ameliaکی وجہ سے
جسمانی معذور تھا لیکن ذہنی طور پر بہت حساس اور بلا کا ذہین تھا۔ نِک کے
والدین نے جب اپنے بچے کو پہلی بار دیکھا تو نِک کی ماں بہت روئی ،ایک نرس
نے بڑے پیار سے نِک کی ماں"Dushka Vujicic" کو گلے لگا کر کہا’’ڈشکا جو رب
نے دیا ہے اس کا شکر ادا کرو اور جو نہیں دیا اس پر رونا کیسا‘‘ اور پھر
نِک کے والدین نے اپنے معذور بچے کو کبھی اس کی معذوری کا احساس نہ ہونے
دیا ۔ نکولس کے والدین جانتے تھے کہ انکا بچہ معاشرے میں مکمل فرد بن کر
نہیں جی سکتا لیکن اس کو گھر میں چھپانے کی بجائے اسے حوصلہ دیا اور زمانے
سے لڑنے کی جستجو دی۔ اور اب نکولس جیمز ’نِک‘ کے نام سے ساری دنیا میں ’اُمید‘،’
جستجو‘، ’زندگی خوبصورت ہے ‘کے موضوع پر ساری دنیا میں لیکچرز دیتے ہیں ۔
میرا دھیان اس ’فیری ٹیل‘سے نکل کر اپنے معاشرہ کی طرف گیا ۔ سوچ ر ھی تھی
کہ نکولس جیمز، جیسیکا کاکس جیسے لوگ کیا اسی دنیا کا حصہ ہیں ……؟جنہوں نے
اپنی معذوری کو اپنے جذبوں اور اپنی منزل کے بیچ نہیں آنے دیا اور معذوزی
کو مجبوری کی بجائے طاقت بنایا۔
ایک ہمارا معاشرہ ہے جو انسانیت کی معراج سے ناواقف اور کم علمی اور جہالت
سے بھرپور چلتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا بدنما چہرہ اگر یونہی
کسی جسمانی معذور بچے یا کسی شخص کو دیکھ لے تو ایسے ایسے ناز یبا الفاظ
استعمال کرتے ہیں کہ جسمانی معذور بچہ معذوری کو گالی سمجھنا شروع کر
دیتاہے اور اپنے آپ کو معاشرے پر بوجھ تسلیم کرنے لگتا ہے ۔یقین مانئیے
ہمارے رویے ہی تیروں کی مانند معذوروں پر برستے ہیں کہ جسمانی معذور بچہ
ذہنی معذور ہونے لگتا ہے۔
معذوری کو لوگوں نے معاشرے میں ایک ناسور بنا دیا ہے جسے معاشرے کا کوئی
فرد آسرا دینے کو تیار نہیں اور وہ معذورری سڑکوں پر گھسٹتے گھسٹتے ایک دن
خاموشی سے دم توڑ دیتی ہے ۔۔معذوری دو قسم کی ہے ایک ذہنی معذوری اور دوسری
جسمانی معذوری۔ یہ جسمانی معذوری پیدائشی بھی ہو سکتی ہے، حادثاتی طور پر
بھی ہو سکتی ہے مگر المیہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ معذور افراد کے لیے نرم
گوشہ کم ہی رکھتا ہے جب موقع ملے ان جسمانی معذور افراد کی آبرو کو ٹھیس
پہنچا کرنہ جانے اپنے کس جذبے کی تسکین کرتے ہیں ۔ ایک ماں جب اپنے لخت جگر
کو جو جسمانی طور پر معذور ہے دن رات دیکھتی ہے ،کڑھتی ہے ،مگر ایک ایسا
لفظ نہیں ادا کرتی کہ بچہ اپنی معذوری محسوس نہ کرے ہر وقت اس سے ہمدردی
جتلاتی ہے۔ماں کی ہمدردی جسمانی معذوری کو اذیت میں مبتلا کر دیتی ہے اور
معاشرے کے لیے ایک زحمت بنا دیتی ہے۔جسمانی معذور بچہ، ہمدردی، اذیت اور
زحمت کا شکار ہو جاتا ہے۔
معذوری پر کالم لکھنے کی جسارت میں نے اس لیے کی کہ جسمانی معذور بچوں کو
اس ہمدردی، اذیت زحمت اور محتاجی جیسے زہریلے لفظوں کے جال سے باہر نکالا
جائے اور معاشرے میں اتنی آگاہی ہو کہ ہم اس جسمانی معذوری کو گالی نہ
سمجھیں بلکہ اس بچوں کے لیے انسانی حقوق اور ریاستی و سائل تک رسائی کے لیے
آواز بلند کر سکیں اور ان بچوں کو معاشرے کا فرد سمجھتے ہوئے ان کو اپنے
ساتھ ملائیں ۔
بعض اوقات ہم سپیشل یا ذہنی معذور یا پھر جسمانی معذور بچوں کو ایک ہی درجہ
میں لے آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اس کے علاوہ ہم سپیشل بچوں کے
لیے انکوزیو ایجوکیشن کی سفارش بھی کرتے ہیں حقیقت میں ہم پڑگے لکھے معاشرے
کو ان درجوں کے فرق کا علم ہی نہیں عام طور پر ’انکوزیو ایجو کیشن‘ میں
نارمل اور معذور بچوں دونوں کی تعلیمی سرگرمیوں کاذکر ہوتا ہے لیکن اس بات
کو واضح کر دینا چائیے کہ اس تعلیمی نظام میں وہ معذور بچے شامل کئے جا تے
ہیں جو کہ جسمانی طورپر معذور ہو ں جن کو ہم فیزیکل ڈیس ایبل چلڈرن کہتے
ہیں اور ذہنی طور پر جو بچے معذور ہوتے ہیں۔ ان کو سپیشل چلڈرن کہا جاتا ہے
ان بچوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے ہوتے ہیں ان سپیشل بچوں کے لیے بے شمار
امدادی فنڈز دئیے گئے ہیں۔ ان کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر سکولوں، کالجوں
کے قیام کا عمل کافی تیزی سے بڑھتا چلا گیا لیکن بد قسمتی سے جسمانی معذوری
کے لیے تعلیمی اداروں کا فقدان ہے ۔موجودہ تعلیمی اداروں کا انفراسٹرکچر اس
قسم کا ہے کہ جسمانی معذور بچے کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی کوئی جگہ نہیں یہ
ایک افسوسناک بات ہے کہ جسمانی معذور بچہ جو کہ ایک صحت مند دماغ کا مالک
ہوتا ہے صرف اس لیے سکول نہیں جا سکتا کہ سکول کے انفرا سٹکچر میں اس کے
لیے کوئی گنجائش نہیں ۔علاوہ ازیں معاشرہ اتنا لچکدار نہیں ہے کہ جسمانی
معذور بچوں کو اپنے اندر سمو سکے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے میں
جسمانی معذور بچوں کے حقوق کے لیے آگاہی پیدا کی جائے اور ان بچوں کو
معاشرے کا باعزت فرد بنائیں۔ ھما را فر ض ہے کہ معاشرتی تعمیر میں سب مل جل
کر حصہ لیں اور ایسی حکمت علمی اپنائیں جس سے انسانیت کا معیار برقرار رکھ
کر جسمانی معذور بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہوئے انھیں ترقی کی
راہ میں شامل کریں۔ سوال اٹھتا ہے کہ معاشرے کو کس طرح جسمانی معذوری کے
حوالے سے آگاہ کیا جائے جسمانی معذور بچوں کے حقوق کے لیے کس طرح قدم
بڑھایا جائے؟ اس کے جواب کے لیے ایک الگ تحریر درکار ہے جس کے لیے قارئین
کو آئندہ کالم کے لیے تھوڑا انتظار کی دقت سے گزرنا ہو گا۔ |