شان ِ رمضان اور نادان مسلمان
(Prof Akbar Hashmi, Rawalpindi)
جب جہالت عود کرآئی اور اہل مکہ
میں بیت اﷲ شریف کی عظمت تو نسل در نسل زبان زد عام رہی تھی۔ عظمت بیت اﷲ
شریف کے انداز اہل مکہ نے خود ہی بنا لیئے مثلا قربانی کا گوشت اورخون بیت
اﷲ شریف کی دیواروں پر مارنا، ننگے ہوکر طواف کعبہ کرنا ، سیٹیاں اور
تالیاں بجا کر بزعم خویش بیت اﷲ شریف کے پاس عظیم عبادت کا درجہ دیتے، حج
کے لیئے آنے والوں کی خدمت کرتے، کھانے کھلاتے اور پانی پلاتے۔ بیت اﷲ شریف
کی سجاوٹ تقرب الی اﷲ کے لیئے تین سو ساٹھ بت بھی رکھے ہوئے تھے۔ غرضیکہ
اپنی سوچ کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام
کے تعمیر کردہ خانہ خدا کی وہ بڑی خدمت کررہے تھے۔ اسی لیئے اسے دور جاہلیت
کہا گیا۔ بیت اﷲ شریف کو پاک صاف رکھنا، اﷲ کا ذکر اور طواف کعبہ کی حقیقت
سے وہ ناواقف تھے۔ اس دور سے ملتاجلتا معاشرتی عکس آج ہمارے میڈیا پر نظر
آتا ہے۔ قرآن و سنت میں رمضان المبارک تقرب الی اﷲ کے لیئے عطیہ خداوندی ہے۔
ایک ایک لمحہ خیروبرکت کے حصول کے لیئے غنیمت ہے۔ آقائے عالمین ﷺ نے فرمایا
تسحروا فان فی السحور برکۃ سحری کیا کروکہ اس میں برکت ہے۔ یہ وقتِ دعا ہے،
دوسری جگہ آقا شفیع المذنبین ﷺ نے فرمایا کہ روزہ دار کے لیئے دو خوشیاں
ہیں ایک تو بوقت افطار اور دوسری اپنے رب سے بوقت ملاقات۔ ارشاد عالی شان
ہے کہ افطار کے وقت دعاکرو وہ رد نہیں ہوتیں۔ یہ دو خاص اوقات ہیں جنہیں
ہمارا میڈیا کس انداز میں ضائع کررہا ہے اور اس کے بر عکس فحاشی، بداخلاقی
اور قساوت قلبی کی تعلیم دے رہا ہے۔ مردو زن کا اختلاط، ایک میلے کا سماں،
بچوں اور جوان لڑکیوں کی مختلف آوازوں کا شور۔ چند مولوی صاحبان بھی موجود
ہوتے ہیں اور غیر محرم عورتوں کے جمگھٹے میں بڑے مسرور نظر آتے ہیں۔ انہیں
یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ سرور عالمیں ﷺ نے فرمایا کہ آنکھ کا بھی روزہ ہے۔
غیر محرم عورتوں پر ارادتا نگاہ ڈالنا تو غیر رمضان میں بھی بدکاری ہے اور
رمضان المبارک میں تو یہ اﷲ کی شدید نافرمانی ہے۔عورتیں بھی اپنے پورے میک
اپ کے ساتھ شامل پروگرام ہوتی ہیں ۔ میزبان انکے میک اپ کی تعریف بھی
فرماتے نظر آتے ہیں۔ موقع پر موجود مولوی نما حضرات کو بھی توفیق نہیں ہوتی
کہ وہ غیر شرعی امور کی نشاندہی کردیں یا غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے
تقویٰ کومجروح کرنے والی محفل سے اٹھ جائیں ۔ مگر وہ ایسا کیوں کرنے
لگے،انہیں تو پیسے ملتے ہیں اور آن ایئر ہوکر اپنی دکان چمکانے کے مواقع
بھی ملتے ہیں۔ ان کے سامنے جو کچھ ہوتا ہے شرم سے سر جھک جاتے ہیں۔ مثلا
نوجوان لڑکیوں کو بلاکر ہاتھ پیچھے کرکے منہ سے کیک، آئیس کریم یا گلاب
جامن کھانے کے مقابلے ہوتے ہیں ۔ رسول عالمیں ﷺ نے فرمایا کہ دائیں ہاتھ سے
کھاؤ، بیٹھ کر کھاؤ۔ خلاف سنت اس شیطانی طعام خوردنی کے عمل کو دیکھ کر
موجود مولویوں کی زبان نہیں کھلتی۔ انکی خاموشی اس عمل کی توثیق کرتی ہے۔
عام مسلمان بھی اسے تقدس رمضان کی توہین وسمجھتا ہے۔ بیہودہ اعمال کی
بھرمار ہے کہ جوڑوں کے ایک دوسرے کو آیئس کریم کھلانے کے مقابلے ہورہے ہیں
۔کس قدر بیہودگی کا مظاہرہ ہوتا ہے مگر کوئی بھی انہیں روکنے والانہیں۔ حد
تو یہ کہ نوجوان لڑکیوں سے بکریوں کی آوازیں نکالنے کے مقابلے کرائے جاتے
ہیں۔ بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ ایک لڑکی بکری کی آواز نکالتی ہے تو میزبان
اسے کہتا ہے کہ اگر تم بکری کی آواز نکالتی ہوتو تمہارا شوہر بکرا بن کر
کیسی آواز نکالتا ہے۔ یہ کچھ مناظر مجھے دیکھنے پڑے تو چینل بدلا مگر جس
چینل پر جائیں یہی خرافات پیش کی جارہی ہیں۔ پہلی قوموں نے اپنے دین کو
ہنسی اور کھیل تماشا بنایا تو ان پر اﷲ تعالیٰ نے عذاب نازل فرمائے ۔مختلف
فرموں کی پرڈکٹس کی تشہیر کی جاتی ہے اور وہ کمپنیاں ٹی وی چینلز کو بھاری
معاوضہ ادا کرتی ہیں ۔ جہاں تک تشہیر کا تعلق ہے اخلاقی حدود کے اندر رہتے
ہوئے کی جائے تو کوئی مذائقہ نہیں۔ علمی ادبی اور مذہبی نوعیت کے سوالات
کیئے جائیں جن پر فرموں کی پروڈکٹس بطور انعامات دی جائیں تو یہ ایک صحتمند
عمل ہے۔ شکرپڑیاں کا میلہ نہ بنایا جائے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت
کے مقاصد تقویٰ کے حصول پر نگاہ رکھی جائے۔ کھیل تماشا کی بجائے سنجیدگی کو
جگہ دی جائے۔ خواتین کی شمولیت کو پردہ( نقاب پوشی) میں لازمی کیا جائے۔
فحش حرکات سے اجتناب کیا جائے ۔ ان امور پر نگاہ رکھنا اور اصلاح کرناحکومت
وقت کا فرض ہے۔حیرت ہے کہ اس ملک میں کہنے کو باضابطہ حکومت ہے، جسکے وزراء
میں سردار محمد یوسف، پیر امین الحسنات اور دراز ریش جناب بلیغ الرحمن جیسی
بظاہر مقدس مذہبی شخصیات موجود ہیں۔ ممکن ہے کہ وہ ٹی وی نہ دیکھتے ہوں اور
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس مبارک ماہ میں مراقبہ میں ہوں تو ان صورتوں میں
انہیں کوئی کاروائی نہ کرنے پر معذور ہی سمجھا جائے گا۔ وطن عزیز میں
حکومتی اہلکار بننا بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ یہیں سے حرام حلال
کے تصور سے بالاتر ہوکر آسودہ زندگی کا تصور جنم لیتا ہے۔ راقم نے خود
دیکھا کہ رشوت کے پیسوں سے لوگ افطاری کے سامان کی خریداری کرتے ہیں ۔
انہیں یہ خیال بھی نہیں کہ روزے کی مشقت حرام مال کی افطاری سے ضائع ہوجائے
گی۔اس قدر بے حسی ہے کہ صدر پاکستان درجنوں دیگر افراد کے ہمراہ سرکاری
خزانے سے عمرہ ادافرماتے ہیں ۔ سرکاری خزانہ ملک کے عوام کا ہے۔ صدر صاحب
کو احساس نہیں کہ یہ عمرہ انکے گلے پڑے گا اور قیامت کے روز ایک ایک پائی
کا حساب دینا ہوگا۔ ایسے ناسمجھ حکمرانوں سے عوام کی بھلائی کی توقع رکھنا
عبث ہے۔ |
|