اینٹی بائیوٹک کو میڈیکل سائنس کی دنیا میں ہر طرح کے
انفکشن کا تیر بہ ہدف علاج سمجھا جاتا تھا۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی
بائیوٹک ادویات اب بے اثر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق چند بیماریوں کا پھیلاؤ اس امر کا ثبوت بنا ہے۔ عالمی
ادارہ صحت ڈبلیُو ایچ او نے انتباہ کیا ہے کہ اگر اس بارے میں اہم اقدامات
نہ کیے گئے تو رواں صدی کا یہ ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا۔
|
|
اینٹی بائیوٹک کبھی ایسی دوا ہوا کرتی تھی جس کے چند روز کے استعمال سے ہی
مریض کو آرام آ جاتا تھا کیونکہ یہ دوا جراثیموں اور کیڑوں کا مقابلہ بڑی
شدت سے کرتے ہوئے انہیں ہلاک کر دیتی تھیں۔ اب یہ کیڑے اور جراثیم اینٹی
بائیوٹک کے خلاف لڑتے ہی نہیں بلکہ کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ اس صورتحال نے
مریضوں اور معالجوں کو پریشانی میں ڈال دیا ہے۔
تپ دق یا ٹی بی کی ایک قسم چند سالوں پہلے بھارت میں پائی گئی تھی۔
پھیپھڑوں پر حملہ کرنے والے یہ جراثیم ہر طرح کی ادویات کے خلاف کامیابی سے
لڑتے ہیں یا مزاحم ہیں۔ اب یہ دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں۔ براعظم افریقہ
کے ہسپتالوں میں تپ دق کے ناقابل علاج مرض کی تشخیص کے بعد اکثر مریضوں کو
گھر بھیج دیا جاتا ہے جہاں وہ دم توڑ دیتے ہیں۔
برطانیہ کی ایک چیف میڈیکل آفیسر سیلی ڈیوس نے اسے اینٹی بائیوٹک ادویات کی
ناکامی کے بعد کے دور کا ایک خوفناک منظر نامہ قرار دیا ہے۔ ماہرین کے
مطابق دنیا بھر کی حکومتیں اور ہیلتھ کے شعبے کے حکام اب اس بارے میں چوکنا
ہو گئے ہیں اور وہ اینٹی بائیوٹک کے مزاحم کیڑوں کو بے اثر بنانے کی کوشش
کر رہے ہیں۔ بظاہر یہ مسئلہ سائنس اور خود بینی جرثوموں کا ہے تاہم حقیقت
میں یہ پوری دنیا کا اقتصادی اور قومی سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
|
|
ان مسائل سے نمٹا جا سکے گا یا نہیں؟ اس بارے میں شکوک و شبہات پائے جاتے
ہیں تاہم مہلک وائرس ایچ آئی وی کے خلاف دریافت کی جانے والی ادویات اور
ترقی پذیر ممالک میں لاکھوں بچوں کو مدافعتی ٹیکے لگانے کی مہم کی کامیابی
اس بات کا ثبوت ہے کہ اینٹی بائیوٹک مزاحم جراثیموں کے خلاف بھی کچھ کیا جا
سکتا ہے۔
طبی اور صنعتی شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک نئے بزنس
ماڈل کی ضرورت ہے جس کے تحت دوا ساز اداروں کو نئی اینٹی بائیوٹک تیار کرنے
کی ترغیب دلائی جائے ، انہیں انعام سے نوازا جانا چاہیے تاکہ وہ زیادہ سے
زیادہ ایسی مفید اینٹی بائیوٹک ایجاد کرنے پر بھی توجہ دیں جو شاذ و نادر
استعمال میں آتی ہیں۔ |