زمین میں دھنستا شہر٬ لیکن کیوں؟

میکسیکو سٹی سطح سمندر سے سات ہزار ساڑھے تین سو فِٹ کی بلندی پہ واقع دنیا کا بلند ترین اور تیز رفتار آبادکاری والا شہر ہے۔ اس کی آبادی دو کروڑ سے زائد اور شکاگو سے تین گُنا زیادہ ہے۔ 1968ء میں منعقدہ اولمپک گیمز کے بعد وہاں ہوٹلوں، پارکوں اور دیگر تجاوزات کی تعمیر میں اور بھی زیادہ تیزی آچکی ۔ اسے دیکھتے ہوئے کسی کو بمشکل یقین آئے گا کہ یہ عظیم شہر اپنی بقا کی جنگ میں فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکا…کیوں کہ وہ رفتہ رفتہ زمین کے اندر دھنس رہا ہے۔

اس عظیم شہر کے غیر محسوس طریقے سے زیرِزمین دلدل میں دھنسنے کی رپورٹیں نصف صدی قبل ماہرینِ ارضیات نے جاری کی تھیں۔لیکن انھیں درخورِاعتنا نہ سمجھا گیا۔ ان انتباہی رپورٹوں کی صداقت کا ثبوت اس وقت منظرِعام پر آیا جب 1950ء میں شہر کے وسیع وسطی علاقے کئی فِٹ بلند سیلابی پانی میں ڈوبنے لگے۔ یہ علاقے بیس برس میں بیس فٹ تک زمین کے اندر دھنس گئے۔
 

image


دھنسنے کی رفتار غیرمعمولی طور پر تیز تھی۔ شہر کی پیدل راہیں اور سڑکیں جو ایک دن ہموار دکھائی دیتی تھیں، اگلے ہی دن کہیں سے پست کہیں سے بلند دکھائی دینے لگیں۔ اکثر عمارات پیسا کے مینار کی طرح ایک طرف جھک گئیں جس وجہ سے کچھ عمارتیں گرانا پڑیں۔ سنگِ مرمر سے تعمیر شُدہ پیلس آف فائن آرٹس جو1935ء میں مکمل ہوا تھا، پندرہ برس کے دوران اتنا گہرا زمین میں دھنس گیا کہ اس کی دوسری منزل سطحِ زمین تک آ پہنچی۔ اس کے آس پاس کی زمین بھی دلدلی بنتی جا رہی تھی۔

1951ء میں دھنساؤ کی رفتار اتنی تیز ہوگئی کہ اسے روکنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑا۔ لیکن سر توڑ کوششوں کے باوجود دھنسنے کی رفتار کو کم نہ کیا جا سکا۔ چناںچہ میکسیکو کا یہ دارالحکومت پانچ تا آٹھ اِنچ فی سال کے حساب سے زمین میں دھنستا رہا۔

اگر یہ شہر اپنی غرقابی یا مکمل دھنساؤ کے خطرے سے دوچار ہے تو اس کا سبب ’’پانی کی قلت‘‘ ہے۔ صدیوں تک اس شہر کو کنوؤں کے ذریعے پانی مہیا کیا جاتا رہا۔ رفتہ رفتہ آبادی میں زبردست اضافے کے ساتھ پانی کی طلب اور استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔چونکہ پانی نیچے سے کھینچ کھینچ کر نکالا جاتا رہا لہٰذا زمین میں دھنساؤ کا عمل شروع ہوگیا۔ لوگ گویا اپنے گھروں کی بنیادیں کھوکھلی کرنے لگے۔بھاری بارشوں کے بعد پانی کی نکاسی کا مسئلہ بھی الگ دردِ سر بن جاتا ۔

میکسیکو سٹی آتش فشانی سلسلہ ہائے کوہ، ایناہواک کی وادی میں پھیلا ہوا ہے۔ 1325ء میں آزٹک انڈینوں کے ہاتھوں بنیادیں رکھے جانے کے بعد سے اسے آئے دن سیلابوں کا سامنا ہے۔ جب آزٹک وہاں پہنچے تو وادی کا غالب حصہ جھیلوں سے بھرا ہوا تھا۔ انھوں نے جھیلوں کے درمیان ایک جزیرے میں اپنے عظیم شہر ’’ٹینو چٹیٹلان‘‘ کی بنیاد رکھی۔ وہاں سے زمین کی طرف کئی راستے نکلتے تھے۔ یہ جگہ نہروں اور آب راہوں سے بھری ہوئی تھی‘ اس لیے نقل و حمل کے واسطے کشتیاں اور بجرے استعمال ہوتے۔

جب 1521ء میں ہسپانوی بحری مہم جوؤں نے اس شہر پر قبضہ کیا، تو انھوں نے آزٹکوں کی تعمیر کردہ تمام عمارات مسمار کر دیں۔ بجرے اور کشتیاں سب برباد ہوئیں اور بیگار میں پکڑے ریڈ انڈینوں کے ذریعے اتھلے پانیوں والی جھیلوں کا پانی نکال نکال کر انھیں پاٹ دیا گیا۔ اس طرح وہاں ’’نیوسپین‘‘ کا دارالحکومت … میکسیکو سٹی ہسپانوی شہر والے خدوخال لیے نمودار ہوا۔
 

image

اس دوران ہسپانوی بطور ایندھن اور چاندی کی کانوں میں استعمال کرنے کے لیے مسلسل درخت کاٹتے رہے۔ سو گرد و غبار کے طوفانوں کے ساتھ جو سیلاب آتے وہ اس لیے بے حد تباہی و بربادی مچاتے کہ پہاڑی ڈھلوانوں پر انھیں روکنے والے درخت نہیں رہے تھے۔ سیلابوں کی تباہ کاریوں کے پیشِ نظر چند سال بعد پانی روکنے کے لیے پہاڑیوں کے دامن میں ایک چار میل لمبی خندق اور نکاسی آب سرنگ کھودی گئی۔ لیکن مٹّی کے کٹاؤ نے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹیں پیدا کرنی شروع کر دیں۔

1629ء میں چھتیس گھنٹوں کی لگاتار موسلادھار بارشوں سے تیس ہزار کے قریب نفوس پانی میں ڈوب کر اور بارشوں سے کمزور پڑتی عمارات کے گرنے سے ہلاک ہوگئے۔ اس پر چند نو آبادیاتی حکام نے تجویز پیش کی کہ دارالحکومت کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے۔ لیکن وہاں جن لوگوں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی تھی‘ انھوں نے شدومد سے اس کی مخالفت کی۔ سو تجویز پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔

اگلی پانچ صدیوں کے دوران شہر کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔ 1845ء کے اختتام تک وہ دو لاکھ چالیس ہزار تک جا پہنچی۔ 1930ء میں یہ دس لاکھ تک پہنچ گئی۔ بیس سالوں میں تین گنا بڑھی۔ پھر اگلے پندرہ سالوں میں دو گنا۔ ساتھ ساتھ شہر دھنسنے کا عمل بھی جاری رہا۔ اس نے لوگوں کو چونکانا بھی شروع کر دیا۔ 1938ء اور 1880ء کے درمیان دھنساؤ کا عمل ڈیڑھ اِنچ فی سال تھا۔ لیکن اگلے آٹھ سالوں میں یہ آٹھ فِٹ تک زمین میں دھنس چکا تھا۔

اب شہر کا دھنساؤ مقامی باشندوں کو خوف زدہ اور پریشان کرنے لگا۔ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ دھنسنے کے عمل سے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ شہر کا قدیم ترین گرجا‘ سانتا ماریا ایک طرف سے ترچھا ہو گیا۔ عمارت میں دراڑیں پڑ گئیں۔ دیگر یادگار عمارات بھی اسی حالت سے دوچار تھیں۔ پانی کے ذخائر اور بدروئیں ٹوٹنا پھوٹنا شروع ہوگئیں۔ 1900ء میں شہر کے گندے پانی کی نکاسی کے لیے تیس میل لمبی نہر کھودی گئی جو ڈھلوانیں اترتی دور پہاڑوں میں بنائی ایک سرنگ میں جا داخل ہوتی۔ یوں استعمال شُدہ پانی شہر میں یا اس کے قرب وجوار میں نہ ٹھہرتا۔

اس کے باوجود 1950ء میں شہر بیس فِٹ تک دھنس گیا اور گندے پانی کو پمپوں کے ذریعے نہر میں ڈالنا پڑا۔ انجینئروں نے خبردار کیا کہ بھاری بارشیں یا پمپنگ میں ذرا سا بھی تعطل تباہ کن ثابت ہوگا ۔ 1951ء میں آنے والے سیلاب نے یہ بات واضح کر دی کہ فوری طور پر ہنگامی اقدام کی واقعی ضرورت ہے۔
 

image

1952ء میں ارنسٹوارچرو جب میکسیکو سٹی کا میئر بنا تو اسے دو سنگین قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اوّل پانی کی پائپوں کے ذریعے فراہمی، تاکہ کنوؤں سے پانی کھینچا جانا ممنوع قرار پائے۔ دوسرے گندے پانی کی تیز رفتار نکاسی کا انتظام۔ اس نے شہر میں مختلف مقامات پر بڑے بڑے تالاب بنوائے تاکہ بارشوں کا پانی ان میں ذخیرہ ہوسکے۔ پھر اسے پمپوں کے ذریعے شہر سے باہر نکال دیا جاتا۔ اس نے شہر کے گرد بڑے بڑے نالے بھی تعمیر کروائے تاکہ پہاڑوں سے آنے والا پانی شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ اس نے تیس کے قریب نئے پمپنگ اسٹیشن بھی تعمیر کروائے۔ نیز نجی ملکیت کے چھے ہزار کنوؤں میں سے پانچ ہزار بند کروا دیے۔ یوں شہر کے دھنساؤ کا عمل وقتی طور پر رُک گیا۔

لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود 1962-63ء کی تیز و تند بارشوں نے بڑی نہر کو لبالب بھر دیا۔ اگر اس پانی کی سطح چند اِنچ اور بلند ہوجاتی تو تمام شہر پانی میں ڈوب جاتا۔ شہر کے باہر جو چند سو نئے کنوئیں کھودے گئے تھے‘ ان کی بدولت شہر کے دھنسنے کا عمل پھرشروع ہو گیا۔ چودہ برس کی سخت ترین کوششوں کے باوجود ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔

جب کوئلہ اور تیل زمین سے نکالے جائیں تو سطحِ زمین ناہموار اور بھربھری ہوجاتی ہے۔ اس میں کٹاؤ اور دھنساؤ کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ لیکن میکسیکو سٹی ہی دنیا میں ایسی واحد مثال ہے جہاں سطحِ زمین کے بگاڑ کا سبب زیرِ زمین پانی کی گھٹتی سطح ہے۔

’’پمپوں سے کھینچا جانے والا ایک گیلن پانی بھی زمین کے اندر سوراخ کر دیتا ہے۔‘‘ ایک انجینئر بتاتا ہے ’’اسی باعث زیرِ زمین مٹی میں شگاف پڑ جاتے ہیں اور سطح زمین اسی تناسب سے دھنس جاتی ہے۔ اب یہ حال ہو چکا کہ سو فِٹ کی گہرائی میں جابجا مٹی کے چھوٹے چھوٹے جزائر بن چکے۔ ان میں بعض اتنے مضبوط ہیں کہ عمارات کی بنیادوں کو بخوبی سہار سکتے ہیں۔ کئی مقامات پر زمین دلدل کا روپ دھار چکی۔ سو ان مقامات پر جو تعمیرات ہو چکیں‘ وہ رفتہ رفتہ دھنس رہی ہیں۔‘‘

’’شہر میں تہہ خانوں اور بنیادوں کے لیے کھدائی ایک اعصاب شِکن کام بن چکا۔‘‘ انجینئروں کی کونسل کے سربراہ برنارڈو کونٹانا کا کہنا ہے۔ ’’جونہی کسی جگہ کھدائی کی جائے‘ وہاں گڑھا نمودار ہوجاتا ہے جس میں پانی رس رس کر جمع ہونے لگتا ہے۔ رفتہ رفتہ قریبی عمارات کی بنیادیں لرزنے لگتی ہیں۔ سڑکیں ٹیڑھی ہوتیں اور قانونی کارروائیوں کے لیے دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ اگر اس جگہ ایک چھوٹا سا ڈیم بھی تعمیر کیا جائے تو کھدائی ہوتے ہی زمین بوس ہو جائے گا۔ تب عمارتیں پانی میں تیرنے لگیں گی یا پھر زیرآب چلی جائیں گی۔

لاطینی امریکا کی بلند ترین عمارت پچپن منزلہ ’ٹورے مائیور‘‘ بھی دلدل میں تیر رہی ہے۔ اسے مکمل طور پر زمین میں غرق ہوجانے سے بچانے کے لیے اس کے نیچے سٹیل اور کنکریٹ کے فرش اور ستون لگائے گئے ہیں۔ عمارت کو سہارا دینے کے لیے چاروں طرف دیوہیکل ’’کنڈے‘‘ بھی لگے ہیں۔

پاسیو ڈی لا ریفارما میں امریکی سفارت خانے کی عمارت بھی کنکریٹ کے بہت بڑے تختے پر تعمیر کی گئی۔ یہ بھی زیرِ زمین دلدل میں تیر رہی ہے۔ جب کبھی زلزلے کے جھٹکے لگیں جو میکسیکو سٹی میں معمول کی بات ہیں تو یہ عمارت بری طرح لرزنے ڈولنے لگتی ہے۔

میکسیکو سٹی کے وسیع و عریض اور خوبصورت ہوائی اڈے کا زیادہ تر رقبہ سیم زدہ اور دلدلی ہے۔ یہ اس جگہ واقع ہے جہاں پہلے جھیل ٹیکسکو واقع تھی۔ جھیل کو سابقہ حالت میں لانے کے لیے یہ تجویز زیرغور ہے کہ اس جگہ ایٹمی دھماکا کر دیا جائے۔ یوں شہر کے تمام گندے پانی کو وہاں قابلِ استعمال بنا کر اُسے گرین بیلٹ میں ڈالا جائے گا۔ ایک منصوبہ یہ ہے کہ اسّی فِٹ کی گہرائی میں سیم نالہ تعمیر کیا جائے جو کئی میل لمبا ہو۔

اس کے ذریعے زیرِ زمین پانی زمین کے اندر ہی شہر سے باہر نکال دیا جائے۔ اس سیم نالے کی تعمیر میں ورلڈ بینک نے حکومت ِ میکسیکو کو ایک خطیر رقم بطورِ امداد دی ہے۔ مزید آب راہوں کی تعمیر بھی زیرِ غور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شہر کا دھنسائو روکنا مطلوب ہے تو باقی ماندہ کنوئوں سے پانی نکالنا روک دیا جائے۔

بشکریہ: (فرزانہ نگہت - اردو ڈائجسٹ)
YOU MAY ALSO LIKE:

Mexico City, the capital of Mexico, is indeed sinking. In fact, it is estimated that during the 20th century, the city has sunk approximately 29 to 36 feet (9 to 11 m). Take a dry lake bed, an extremely thirsty population, poor conservation and a seismically active ground underfoot, and you’ve got a serious problem.