ناسا کے سائنسدانوں سے سورہ القارعہ تک
(Munir Bin Bashir, Karachi)
میں جب بھی سورہ القارعہ
پڑھتا ہوں تو امریکہ کے سائنسدانوں کی ناسا رپورٹ سامنے گھومنے لگ جاتی ہے
--اور اسی طرح جب بھی امریکہ کے سائنسدانوں کی ناسا رپورٹ پڑھتا ہوں تو
سورہ القارعہ سامنے آجاتی ہے
آخر ماجرا کیا ہے
آج سے پندرہ بیس سال پہلے ایک خبر امریکہ خلائی تحقیقاتی مرکز سے آئی تھی
تھی کہ کسی خاص تاریخ کو دو سیارے آپس میں ٹکرائیں گے جس کے سبب ان سیاروں
میں میں بہت ہی زیادہ تباہی مچے گی اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس کے اثرات
زمیں پر بھی پڑ سکتے ہیں - ناسا والوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ زمین سے
ان کی حرکات کو کنٹرول کرکے انہیں مدار میں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں -
سائنسدان سر توڑ کوشش کے باوجود ان کی حرکات پوری طرح قابو میں نہیں کرسکے
ان کی سمت میں تبدیلی ضرور آئی لیکن پوری کامیابی سے ہم کنار نہیں ہوئی -ناسا
کے سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ان کے ٹکرانے کے امکانات موجود ہیں - ہان یہ
ہو سکتا ہے کہ کہ انکے آخری سرے یعنی کونے آپس میں ٹکرائیں-
آخر وہ دن آگیا جب ان دو سیاروں کا ٹکراؤ ہونا تھا
اس روز سائنسدانوں نے طرح طرح کے کیمرے - درجہ حرارت ناپنے والے آلات -
آواز کی پیمائش کے لئے مشینیں - مختلف گیسوں کا جائزہ لینے والے انسٹرومنٹ
لگائے ہوئے تھے انکی نگاہیں دوربیں میں ٹکی ہوئی تھیں یا پھر کمپیوٹر
اسکرین پر لگی ہوئی تھیں - کچھ سائنسدان مختلف میٹروں پر نظر جمائے
بیٹھےتھے-
ستاروں کے ٹکرانے کے بعد کی رپورٹ جب جنگ اخبار کے سنڈے میگزین میں پڑھی تو
حیرت سے منہ کھلا کا کھلا رہ گیا-
مجھے ایسے لگا کہ میں سورہ القارعہ کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں -- ان کے ٹکرانے
سے جو گونج پیدا ہوئی ہمارے کان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے -- جیسے ہی دو
سیارے ٹکرائے ایک دھماکہ ہوا -- ٹکرانے کے باعث رگڑ سے جو حرارت پیدا ہوئی
وہ حافظ الاماں -- کئی اسٹیل ملوں کی بھٹیوں کی حرارت بھی اس کے سامنے ہیچ
تھی -- سیاروں کے کونوں کے بڑے بڑے ٹکڑے مہیب ہولناک آواز کے ساتھ , روئی
کے گالوں کی طرح اڑ نے لگے --یہ ٹکڑے خود بھی آپس میں ٹکرا رہے تھے اس سے
جو گرد اڑرہی تھی اور گرداب بن رہا تھا- اس میں چنگاریاں ہی چنگاریاں تھیں
اس تیز رفتار ی سے آڑتی ہوئی چنگاریوں کے دہکتے الاؤ کے اندر جو مصیبت
پنہاں تھی ، گرمی کا جو عفریت تھا وہ سائنسدان ہی جانتے تھے --
رپورٹ پڑھ کے میں سوچ رہا تھا- اگر زمین کا ٹکراؤ کسی سیارے سے ہو جائے تو
ہماری کیا کیفیت ہو گی - ہم بھی لاچار ہو کر ایسے ہی ہوا میں آڑ رہے ہونگے
-ہمارے پہاڑ بھی ایسے ہی روئی کے گالوں کی طرح فضاء میں بکھر رہے ہونگے -
گرمی کی حدت سے حلق میں کانٹے پڑے ہوئے ہونگے - دھول سے کیسے بے دم ہو ہو
کر ہم گر رہے ہونگے - اگر کسی الاؤ میں پھنس گیا تو-------- یہ تصور کرتے
ہی خوف کے سبب میں تھرا کے رہ گیا میری عجیب سی حالت ہوگئی -ایک جھر جھری
سی آگئی -
-سورہ القارعہ کیا ہے
اس کا مفہوم کچھ ایسے ہے
دل کو دہلا دینے والا منظر کیا ہے کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو - وہ کیا
نظارہ ہوگا - وہ کیسا دن ہوگا جب انسان اپنے کو بچانے کی جد و جہد میں ہوا
میں لاچار کیڑے مکوڑوں کی طرح ادہر ادہر ہاتھ پاوں مارتے ہوئے اڑ رہا ہوگا
- یہ قیامت کا دن ہوگا جب بڑے بڑے پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح فضاء میں اڑ
رہے ہونگے اور وہ دہکتی آگ یا الاؤ کا تو تزکرہ ہی کیا جو وہاں ہوگا اور جن
افراد کی حرکتیں دنیا میں صحیح نہیں ہوں گی وہ اس میں گریں گے -
میں سمجھتا ہوں کہ آللہ تعالی جو کچھ سورہ القارعہ میں کہہ رہا ہے اس کا
ایک ٹریلر ناسا کے امریکی سائنسدانوں کے ذریعے دنیا کے تمام انسانون کو بتا
دیا ہے
الْقَارِعَةُ ﴿١
مَا الْقَارِعَةُ ﴿٢
وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْقَارِعَةُ ﴿٣
يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ ﴿٤
وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنفُوشِ ﴿٥
فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ ﴿٦﴾ فَهُوَ فِي
عِيشَةٍ رَّاضِيَةٍ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ﴿٨
فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ ﴿٩﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا هِيَهْ ﴿١٠﴾ نَارٌ حَامِيَةٌ
|
|