جمہوریہ آئس لینڈ
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
چند روز ہوئے میرے معزز بہنوئی
صاحب چار ماہ کے تبلیغی دورے پر گئے تھے، واپسی پر موصوف نے’’ جمہوریہ آئس
لینڈ‘‘ کے بارے میں بتایا، وہاں کے کچھ لوگ بھی ان کے ساتھ اس تبلیغی دورے
میں شریکِ سفر تھے، ان کے بارے میں بھی انہوں نے بتایا ، چند ہفتوں سے ویسے
بھی میرے دل و دماغ میں پتا نہیں کیوں جمہوریہ آئس لینڈ کی تحقیق کے بارے
میں کچھ شور تھا، سو جب الفاظوں کی آمد اور دلچسپی کا تلاطم اُمد آیا تو
پھر میں نے لکھنے کے لئے قلم اور کاغذ سنبھال ہی لیا۔ آج کل دنیا اتنی تیز
ہو چکی ہے کہ لوگوں کو پہلے ہی کچھ نہ کچھ معلوم ہوتا ہے اور ویسے بھی اس
تیز رفتار دنیا میں جب لوگ مریخ تک پہنچ چکے ہیں پھر جزیرہ آئس لینڈ کیا ہے؟
پھر بھی میری تحقیق اس سلسلے میں جہاں تک ہوئی ہے بیان کئے دیتا ہوں۔
ویسے تو آئس لینڈ دنیا کی سب سے قدیم جمہوریہ ہے۔ آئس لینڈ کرۂ عرض کے ایسے
جغرافیائی خطے کا ملک ہے جسے عرفِ عام میں ’’ اسکینڈے نیویا‘‘ کہا جاتا ہے۔
مغربی طرز کی جمہوریت دنیا بھر میں سب سے پہلے یہیں قائم ہوئی۔ یہ ملک
شمالی امریکہ اور یورپ کے درمیان شمالی بحر اوقیانوس میں واقع ہے۔ ویسے تو
آئس لینڈ موسمیاتی طور پر، جغرافیائی لحاظ سے اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار
سے پوری دنیا سے ایک الگ ملک ہے۔ جغرافیائی طور پر یہ ایک تنِ تنہا ملک ہے
جس کے پڑوس میں سمندری لہریں ہی ہیں تاہم کم و بیش پانچ سو یا پانچ سو پچاس
میل کی سمندری مسافت پر یہاں سے قریب ترین یورپی ملک ’’اسکاٹ لینڈ ‘‘ موجود
ہے۔ شاید اسی وجہ سے آئس لینڈ کی تہذیب پر یورپیوں کے بہت گہرے اثرات مرتب
ہیں۔ جمہوریہ آئس لینڈ کے شمال میں گرین لینڈ کا سمندر واقع ہے، مشرق میں
ناروے کا سمندر ہے جبکہ مغرب اور جنوب میں بحراوقیانوس کی ٹھاٹھیں مارتی
ہوئی موجیں موجود ہیں۔برفانی گلیشئر نے یہاں کے رقبے کا تقریباً دس فیصد
گھیر رکھا ہے۔ حد سے زیادہ بارشیں جہاں اس ملک کے دریاؤں ، جھیلوں اور ندی
نالوں کو بھرے رکھتی ہیں وہیں گلیشئرز کے حجم میں بھی اضافے کا باعث بنتی
رہتی ہیں۔ موسم اور آب و ہوا کے لحاظ سے یہ ایک نہایت سرد ملک ہے۔جہاں پر
سردیوں کا درجہ حرارت نقطۂ انجماد سے بھی بہت زیادہ نیچے رہتا ہے تاہم
گرمیوں میں برف پگھلنے پر بھی سردی ہی رہتی ہے۔ یعنی کہ گرمی کا نام و نشان
کم ہی ہوتا ہے۔ ویسے بھی بارشوں اور بادلوں کے باعث یہاں کے دن پر بھی
زیادہ تر اندھیروں کا ہی راج رہتا ہے۔آئس لینڈ کے دارالحکومت کا نام ’’
رکجاوک ‘‘ ہے جو سیاسی اہمیت کے ساتھ ساتھ تہذیبی و ثقافتی اور معاشی اہمیت
کے لحاظ سے بھی پورے ملک پر فوقیت رکھتا ہے۔ موسمی شدت کے باعث یہاں کا صرف
ایک چوتھائی رقبہ ہی قابلِ کاشت ہے جہاں سبزیاں اُگائی جاتی ہیں۔ تاہم زمین
کے باقی حصوں پر بہت گھنے جنگلات دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں کی مقامی جانور
’’لومڑی ‘‘ ہے لیکن انسانی آبادی اپنے ساتھ پالتو جانور بھی لے آئی ہے اور
چوہے وغیرہ باقی دنیا کی طرح یہاں کے گھروں میں بھی نقب زنی کرتے دکھائی
دیتے ہیں۔
جمہوریہ آئس لینڈ کی انسانی تاریخ کا مشاہدہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ یہ
کوئی زیادہ قدیم نہیں ہے بمشکل ایک ہزار سال پر محیط ہے۔ اُس وقت یہاں پر
کلٹی قوم اور ناروے کے باشندوں نے سب سے پہلے اپنے قدم جمائے۔ یہ لوگ نئی
دنیاؤں کی تلاش میں بحری راستوں کے ذریعے مہم جوئی کرتے ہوئے یہاں پہنچے
تھے اور پھر اس حسین سر زمین کی کشش نے انہیں یہیں کا کر لیا، دوسری جنگِ
عظیم سے قبل ڈنمارک اور آئس لینڈ متحد تھے، لیکن انیس سو چالیس عیسوی کے
دوران جب جرمنوں کے قبضے کے باعث آئس لینڈ اور ڈنمارک کے درمیان اتحاد ختم
ہوگیا تو ایک ماہ بعد ہی برطانوی افواج نے آئس لینڈ پر اپنا قبضہ جما لیا۔
اور انیس سو اکتالیس عیسوی میں اقوامِ متحدہ نے یہاں اپنی افواج بھی اُتار
دیں۔جنگ کے باعث ڈنمارک اور آئس لینڈ کا اتحاد مزید مضبوط نہ رہ سکا اور
آئس لینڈ نے ڈنمارک سے اپنا رشتہ مکمل طور پر توڑ لیا اور علیحدگی کا فیصلہ
کر لیا جس کے نتیجے میں غالباً سترہ جون انیس سو چوالیس عیسوی کو آئس لینڈ
کی باقائدہ آزادی کا اعلان کر دیا گیا، اب یہ تاریخ جمہوریہ آئس لینڈ میں
قومی دن کے طور پر جوش و خروش سے منائی جاتی ہے۔جمہوریہ آئس لینڈ کے لوگ
انہیں لوگوں کی نسلوں میں سے ہیں جو آٹھ سو اکھتر عیسوی میں پہلی دفعہ یہاں
پہنچے اور پھر کم و بیش نصف صدی تک ان لوگوں کی آمد اس دیدہ زیب سر زمین پر
جاری رہی ۔ ڈنمارک اور ناروے کے لوگوں کی ملی جلی نسل آج جمہوریہ آئس لینڈ
میں بستی ہے، دنیا بھر سے آنے والے لوگوں نے ان مقامیوں میں کوئی بڑی
تبدیلی نہ لا سکے۔ قدیم زمانے میں ناروے کی زبان یہاں پر عام طور پر بولی
اور سمجھی جاتی تھی جسے اب قدیم ناروے کی زبان کہا جاتا ہے، صدیاں بیت جانے
کے بعد آئس لینڈ کی اپنی مقامی زبان ترقی کر چکی ہے لیکن یہ اسی پرانی زبان
کی کوکھ سے ہی پیدا ہوئی زبان ہے اور آبادی کی اکثریت پرانی زبان بھی آسانی
سے سمجھ لیتی ہے۔ سولہویں صدی سے اس سر زمین کی اکثریت مذہب عیسائیت کی
پیروکار ہے۔ اس وقت بھی ایک اندازے کے مطابق نوے تا پچانوے فیصدآبادی
عیسائی ہے۔ سرکاری طور پر اگرچہ مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن حکومت خود بھی
مذہب عیسائیت کی کھل کر سرپرستی کر رہی ہے۔ ایک زمانے تک یہاں پر آبادی کا
انحصار زراعت پر رہا ہے چنانچہ انیسویں صدی کے آخر تک لوگ زیادہ تر دور
دراز کے مقامات پر بستے تھے اور کھیتی باڑی سے اپنا سلسلہ روز و شب چلاتے
تھے، بیسویں صدی کے آغاز تک کامرس، کارخانہ داری اور مچھلی بانی کی کثرت کے
باعث زیادہ تر آبادی شہروں میں سمٹنے لگی اور اب اکیسویں صدی کے آغاز تک کم
از کم دو سو گھرانوں پر مشتمل آبادیوں سے کم کی بستی پورے ملک میں کہیں
نہیں ہے۔ اب زیادہ تر ڈیری فارم اور بھیڑ بکریوں کے غلوں سے لوگوں کا
روزگار وابسطہ ہوگیا ہے اور انہیں آمدنی کے لئے فصل کے اُترنے کا لمبا
انتظار نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ صبح چارہ ڈالتے ہیں اور شام کو دودھ حاصل کر
لیتے ہیں۔ جمہوریہ آئس لینڈ کے چاروں طرف سمندر ہیں اور سمندر میں اﷲ
تعالیٰ نے مچھلیوں کے بے پناہ خزانے دفن کر رکھے ہیں۔ اس لئے وہاں کی معیشت
میں مچھلی کا بہت بڑا کردار ہے، مچھلی اور مچھلی کی مزید غذائی مصنوعات اس
ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
محمد الادریسی جو مشہور مسلمان سیاح اور جغرافیہ دان تھا ۔ اس نے گیارہ سو
چوّن عیسوی میں یہاں کا دورہ کیا اور اپنی کتاب میں یہاں کے حالات لکھے ۔
انیس سو ستانوے عیسوی میں یہاں ’’ ایسوسی ایشن آف مسلمز ان آئس لینڈ‘‘ کے
نام سے مسلمانوں کی ایک تنظیم قائم کی گئی۔ سن دو ہزار عیسویں میں باقائدہ
یہاں مسجد کی تعمیر کے لئے درخواست دی گئی تھی، ایک لمبے اور تھکا دینے
والے طویل انتظار کے بعد چھ جولائی دو ہزار تیرہ کو اجازت مرحمت دی گئی۔
ویسے تو دو ہزار دو عیسوی میں مسلمانوں نے یہاں ایک مسجد کی جگہ بھی بنا لی
تھی، یہ جگہ ایک پلازہ نما دفتری عمارت کی چوتھی منزل پر واقع ہے۔ اس جگہ
پر پنج وقتہ نماز اور جمعۃ المبارک کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے اور یہاں کے
لوگ اب تبلیغی دوروں پر بھی جاتے ہیں۔ ایک معقول تعداد یہاں پر دوسرے ملکوں
سے آئے ہوئے مسلمانوں کی موجود ہے۔ آئس لینڈ میں تین خواتین تیزی سے قرآنِ
مجید کا مقامی زبان میں ترجمہ کر رہی ہیں کیونکہ وہ عربی زبان پر بھی بہت
دسترس رکھتی ہیں۔ ابھی تک آئس لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد قدرے کم ہی ہے۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ اس جزیرہ نما آئس لینڈ میں مقامی زبان میں کتب
اسلامی تیار کرکے توحید اور نور کا فریضہ انجام دیا جائے۔ |
|