سواریوں سے بھری گاڑی سپیڈ میں
تھی عوام علاقہ اپنے اپنے دھیان میں بیٹھے تھے کہ اچانک گاڑی اچھلی کسی کا
سر چھت سے ٹکرایا،کسی کا دوسرے مسافر سے،کسی کی گود سے بچہ اچھل کے نیچے
گرا،تو کسی کا سامان دوسرے کی گود میں،گاڑی میں بیٹھے لوکل مقامی لوگوں نے
حسب روایت کچھ کلمات ادا کئے اور پھر آپنے اپ کو سیدھا کرتے ہوئے مضبوطی سے
بیٹھنے کی کوشش کی،چند لوگ جن کا روزانہ کا گزر تھا انہوں نے اپنے اپنے
تبصرے شروع کر دیے ایک صاحب کا کہنا تھا کہ جنوری 2014کو اس پل کا افتتاح
ہوا تھاابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے اور اس کا یہ حال ہے کروڑوں روپے کی لاگت
سے دس سال کی مدد میں تیار ہونے والا یہ پل کسی محلے ،گلی یا لنگ روڈ کا
نہیں تھا بلکہ باغ سے مظفرآباد جانے والی مین سڑک سدھن گلی روڈ پدر نالہ
مال کا تھا ،جس کی تعمیر دہائیوں میں ہوئی ہے، اس دوران یہ پل بہت سے
کرپشن،کمیشن،رشوت،جیسے سنگین سیکنڈل سے بھی گزرا،اسکی تعمیر کے دوران عوام
نے بے شمار دھیرنے دیے،احتجاج کئے،ٹریفک بلاک کی،اور خدا خدا کر کے یہ
تعمیر ہوا۔ ابھی اسکی تعمیر مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اس پل کے ارد گرد سے
سڑک ٹوٹ پھوٹ گئیں تھی،انتظامیہ نے اس کا نوٹس لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی
،ٹھیکیدار جس نے اﷲ اﷲ کر کے اس سے جان چھڑائی اس کے ساتھ جو ہوا تھا اس کے
نتیجے میں اس نے ایسا کام ہی کرنا تھا ،وہ انجینئرز جن کا کام ہی یہی تھا
کہ اس پل کے معیار کو چیک کریں اپنی جیبیں گرم کرنے کے بعد سب اچھا ہے کی
رپورٹ دے کر مطمئن ہو گئے ،عوام کا تو یہ حال ہے کہ سوجوتے بھی مارو اور سو
پیاز بھی کھاو،اور یہ پھر بھی خوشی سے ، کہتی ہے چلو اچھا ہوا کچھ بچت ہو
گئی،کہتے ہیں کہ کام بولتا ہے اس کے لئے کسی کی گواہی کی ضرورت نہیں
ہوتی،باغ پدر نالہ مال کے پل جسے ابھی صرف فنگشنل ہوئے چھ ماہ ہوئے اس پر
سے کوئی گدھاگاڑی،یا گھوڑ گاڑی نہیں گزرتی کہ کہا جائے ان کے سموں سے کھڈے
پڑھ گئے ،اس کی حالت ایسی ہے جیسے صدیوں پرانا پل ہے اس کو دیکھ کر خود ہی
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پر لگنے والے کروڑو روپے کہا ں گئے ،نوٹس لینے
والے بااختیار انتظامیہ اپنی انکھیں بند کئے کیوں بیٹھی ہے ،شاہد اس
لئے۔۔خبر ہے دشمنوں کے سب ٹھیکانوں کی،شریک جرم نہ ہوتے ہو مخبری کرتے، اب
کوئی نوٹس لے بھی تو کس کے خلاف،کوئی اس کام کو غیر معیاری کہئے بھی تو کس
منہ سے ۔،کہا جاتا ہے کہ شکایات وہاں کی جاتی ہیں یہاں شکایات سننے والے
غیر جانبدار ہوتے ہیں ،یہاں پر منصف و مجرم ایک جیسے ہوں وہاں انصاف کی کیا
امید کی جا سکتی ہے،یہ پل جس کو آج سے کئی سال پہلے تعمیر ہو جانا چاہئے
تھا یہ باغ اور مظفرآباد کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اس کے
علاوہ بھی یہ لاکھوں لوگوں کی ضرورت بھی تھا ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں گاؤں
کے لوگ روزانہ اس پر سے گزرتے ہیں،نالہ مال میں بارشوں کے دوران بہت سی
لوگوں کی جانیں گئیں ،بہت سے مشکلات اور مسائل کا سامنا تھا،عوام کی یہ بہت
بڑی خواہش تھی کہ مال پر ایک پل ہونا چاہئے مگر یہ پروجیکٹ ہمیشہ سیاست کی
نظر ہوتا رہا،جب اس کا کام شروع ہوا تو لوگوں نے یہی کہا کہ دیر آیا درست
آیا،بہت سے لوگ اس پل کی تعمیرکے دوران یہ حسرت لئے مر گئے کہ وہ ایک بار
اس پر سے گزر جائیں مگر یہ پل تعمیر ہوتے ہوتے ایک نسل جوان ہوگئی،اب جب یہ
مکمل ہوچکا اس کو استعمال میں آئے ہوئے ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا ،چھ ماہ
میں تو مکان کی دیوار ،یا صحن خراب نہیں ہوتا اور اس کی یہ حالت ہو گئی ہے
کہ کھنڈرات کا منظر پیش کرتا ہے۔جس طرح ایک گھر کی حالت اس کی مکیں کی
قابلیت کا پتہ دیتی ہے اسی طرح خطے میں تعمیر و ترقی بھی اس ملک کے
حکمرانوں کی دلچسپی اور ان کی مخلص ہونے کا پتہ دیتی ہے،کہا جاتا ہے کہ کسی
شہر کی یا ملک کی حالت دیکھنی ہو تو اس کی سڑکوں کو دیکھ لیں یہ آئینہ ہوتی
ہیں،مگر ہمارے ہاں تو ایک بار جو کام الٹا سدھا ہو جائے بس اس کی طرف پھر
کبھی مڑ کے نہیں دیکھنا،سالانہ بجٹ میں اس کا حصہ لیتے رہنا اور اپنا
روزگار چلاتے رہنا۔کسی بھی ملک اور خطے کی تعمیر و ترقی میں جہاں حکمرانوں
کا کردار ہوتا ہے وہاں عوام کی دلچسپی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا مگر
ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے یہاں عوام کو کسی تعمیر و ترقی سے کوئی سروکار
نہیں ہاں بس ان کی برادری کا بند ایم این اے ہونا چاہیے۔ایک حرت انگیز بات
بتا تا چلو ایک دن گاڑی میں چند لوگ بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ پاکستان میں
لوگ ڈاکٹر عبدلقدیر کی بہت عزت کرتے ہیں اس کو اپنا ہیرو مانتے ہیں مگر جب
الیکشن کا وقت آتا ہے تو اس کو ووٹ نہیں دیتے، اسی طرح لوگ عمران خان کو
بھی چاہتے ہیں مگر اس کو ووٹ دیتے وقت بھول جاتے ہیں،تو ایک شخص نے کہا کہ
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر باغ میں کوئی پیغمبر،یا صحابہ کرام میں سے کوئی
آجائے،یا کوئی ایسا شخص جس کی دیانت،سچائی،اور انسانیت کے چرچے ہوں اور اگر
وہ الیکشن میں حصہ لے تو وہ ہار جائے گا کیوں کہ یہاں کہ لوگ ووٹ اپنی
برادری کے بندے کو دیں گئے چاہئے وہ کرپٹ ہے ،چور ہے،یا پھر وہ بد یانت کی
انتہاہ کو ہو، یہاں جس طرح کی عوام ہے ویسے ہی حکمران اور پھر اسی طرح کا
کام تعمیر بھی۔اور اسی برادری ازم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں اندھیر نگری
ہے کوئی پوچھنے والا نہیں ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر کھائے جا رہا ہے اور وہ
دوسرے پر انگلی نہیں اٹھا سکتا،یہاں پر کسی بھی محکمے میں ایک اعلیٰ افیسر
سے لیکر کر چپڑاسی تک سب ایک ہی گنگاہ میں ہاتھ دھوتے ہیں،کون کس کی شکایت
کرے۔یہاں ایک پل کی بات نہیں بلکہ ایسے ہزاروں تعمیراتی کام ہیں جن پر
اربوں روپے کا بجٹ منظور ہوتا ہے مگر وہ کچھ عرصہ بعد قابل رحم حالت میں
ہوتے ہیں۔جس ملک میں اوے کا آوہ بگڑا ہو اس میں ایک سچ کی آواز نکار خانے
میں طوطی کی آواز کے مترادف ہوتی ہے۔مگر کام اپنا اپنا بچھو ڈنگ مارتا ہے ،مسیحا
بچاتا ہے۔باقی بس اﷲ ہی حافظ ہے۔ |