علاقہ پچادھ کے مسائل اور نا قص حکومتی اِقدامات
(Syed Shahbaz Ghous Bukhari, Islamabad)
تین دن پہلے اسلام آباد کے ایک
ہوٹل میں افطاری کی تقریب تھی جس میں فیصل گورچانی اور عباس گوندل کے ساتھ
میں بھی شریک تھا۔تیز بار ش نے دن بھر کی گرمی کو خوشگوار ماحول میں تبدیل
کر دیا تھا۔ہم تینوں اتفاق سے ایک میز پر بیٹھے تھے، میں اور فیصل گورچانی
آمنے سامنے اور عباس گوندل درمیان میں تھے۔حالاتِ حاضرہ پر گفتگو ہوتی رہی
اوربات سے بات بنتی گئی اور ہم باتوں باتوں راجنپور پہنچ گئے جو فیصل کا
آبائی علاقہ بھی ہے،جب میں راجنپور میں تھا تب عباس گوندل بھی اَدھر آچکے
تھے۔اسیِ طرح افطار پارٹی کا باقی وقت ہم تینوں نے راجنپور کے مسائل کو
موضوع گفتگو بنائے رکھا اور کھانے کے بعد ہم لوگ واپس آگئے۔
ضئلع راجنپورپنجاب کا آخری پسماندہ ضئلع ہے جو بنیادی سہولیات سے قطعأ
محروم ہے،یہ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔سابق صدر فاروق احمد
لغاری اور سابق وزیرِآعظم بلخ شیر مزاری کا تعلق بھی اِسی علاقے سے
ہے۔پچھلے عام انتخابات میں وزیرِآعلی شہباز شریف بھی تحصیل جام پور سے ایم
پی اے منتخب ہوے۔
ضئلع راجنپور کی تین تحصیلیں اور تینتالیس یونین کونسلز ہیں، کل آبادی
آٹھایئس لاکھ سے اوپر ہے اور ا،سکا کل رقبہ ایک کروڑ بہتر لاکھ ایکڑ ہے۔جس
میں دو حلقے قومی اور چار حلقے صوبائی اسمبلی کے ہیں۔
بیس نومبر ۱۳ سے بیس مئی ۱۴ تک اقوامِ متحدہ کے ایک منصوبے پر میں راجنپور
میں کام کر رہا تھا،ایک دن فیلڈ وزٹ کے دوران میری آنکھیں دنگ رہ گیئں جب
ایک تالاب سے عورتیں اور بچے پانی بھر رہے تھے أسی تالاب سے انکے جانور اور
انکا گدھا بھی پانی پی رہے تھے۔میرے ہاتھ میں منر ل واٹر کی بوتل گر گئی
ڈرائیور نے کہا سر بوتل نیچے گر گئی ہے تو میں نے جب أسکو تالاب کی طرف
اِشارہ کیا تو وہ خاموش ہو گیا اور انسانییت کی اتنی بڑی تذلیل اِن گنہگار
آنکھوں نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
یوں تو ہر سال ۲۲ مارچ کو بین الاقوامی پانی کا دن منایا جاتا ہے جسکا مقصد
پانی کی افادیت اور صاف پینے کے پانی کی عدم فراہمی اور اِس سے پھیلنے والی
بیماریوں کے متعلق شعور بیدار کرنا ہوتا ہے۔لیکن اِس میں تقاریر اور فوٹو
سیشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔جبکہ زمینی حقائق اور ریسرچ و اعداد و شمار سے
یہ بات واضح ہے کہ اکژ بیماریوں بالخصوص بچوں میں پھیلنے والی موذی
بیماریوں جیسے گیسٹرو ،اسہال،قے،خسرہ اور ہیپاٹایٹس کا تعلق پینے کے صاف
پانی کی عدم فراہمی اور مضرِصحت پانی ہے۔جدید تحقیق اور میڈیا رپورٹس کے
مطابق پاکستان بالخصوص راجن پور اور پشاور میں آلودہ پانی پولیو وائرس
پھیلانے کا اہم سبب ہے۔
راجن پور کا علاقہ پچادھ تاریخی لحاظ سے نہایت اہمیت کا حامل ہے،قلعہ
ہرنڈ،ماڑی اور قلعہ لال گڑھ اِسی علاقے میں واقع ہیں، لیکن حکومتی عدم
توجہی اور پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے سالانہ ہزاروں لوگ نقل مکانی کر
رہے ہیں۔کھیتی باڑی تو دور کی بات لوگوں کو پینے کا پانی تک میسر
نہیں،بارشوں کے لیے یہاں کے مقامی لوگ منتیں اور چڑہاوے دیتے ہیں،اور یہی
منتیں اِنکے گلے پڑ جاتی ہیں اور رود کوہی کی شکل میں سب کچھ بہا کر لے
جاتی ہیں۔پانی کی جو ناکافی سہولیات موجود ہیں انکا بھی زیرِزمین پانی
مسلسل سیلاب اور رود کوہویوں کی وجہ سے متا ثرہ ہو چکا ہے۔جس سے جلدی
بیماریاں وجودمیں آ چکی ہیں۔
اِس علاقے کا زمین دوز پانی کڑوا ہے اگر کہیں پر پانی میٹھا ہے تو وہاں
نلکے کی نوے فٹ کی مشین نصب ہوتی ہے اور ایک نلکے پر چالیس سے پچاس ہزار تک
کے اخراجات اٹھتے ہیں جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے۔محکمہ پبلک ہیلتھ
انجینیرنگ صرف کاغذی کاروائی تک محدود ہے اور مقامی سرداروں کا دستِ راست
بن چکا ہے۔
گھر میں پانی کی عدم دستیابی اور سینیٹشن کی نا کافی سہولیات کی وجہ سے
عورتوں،نوجواں بچیوں اور بچوں کو کافی دشواری کا سامنا ہے،دور دراز کے
علاقوں سے پانی بھرنے اور رفعِ حاجت کے لیے باہر جانے پر اکژ اوقات نوجوان
بچیوں اور بچوں کو درندگی کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے اور درندگی کے بعد
اقدامِ قتل بھی نہایت معمولی بات ہے۔
میرے راجن پور میں قیام کے دوران علاقہ پچادھ میں خشک سالی کی کیفیت پیدا
ہو گئی تھی اور ہزاروں لوگ دوسرے علاقوں میں ہجرت کرنے پر مجبور ہو کر رہ
گئے تھے۔حکومتی سطح پر اسکی تردی ہوتی رہی لیکن میری آنکھیں جو دیکھ رہی
تھی وہ افسانہ نہیں حقیقت تھی ،اور تو اور ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی جنکا یہ
آبائی علاقہ تھا انہوں نے بھی آنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔اور ایوان میں
بیٹھ کر خشک سالی کی تردید کرتے رہے۔
اس افطار ڈنر کے بعد عباس گوندل،فیصل گورچانی اور میں نے عزم کر لیا کہ
ہمیں راجن پور کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔ہم نے عہد کیا کہ اپنے وسائل اور
عالمی برادری سے اپیل کر کے ہم راجن پور کے پانی اور سینیٹشن کے مسائل حل
کرنے میں حکومت کی مدد کر سکتے ہیں کیونکہ فیصل نے جاتے جاتے کہا تھا لفط
ایمپو سیبل خود کہ رہا ہے آئی آیم پوسیبل۔
اقبال نے کیا خوب فرمایا:
خدا نے آج تک أس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جسکو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا۔۔ |
|