اسلامی سال کا مبارک ترین
مہینہ رمضان المبارک نصف گزر چکا ہے، شیاطین تو قید لیکن لوڈشیڈنگ کا جن بے
قابو ہے۔ شدید ترین گرمی میں کہیں اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب کہیں بیس گھنٹے
کی لوڈشیڈنگ اور کہیں بجلی آئی اور گئی پھر کب آئے گی کوئی پتہ نہیں۔
صورتحال نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے۔ لاہور میں ہر گھنٹے کے
بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کو عذاب سے دوچار کر رکھا ہے۔ بجلی
کا شارٹ فال 7 ہزار 600 میگاواٹ تک پہنچنے سے لوڈشیڈنگ کے دورانیے میں بھی
غیرمعولی اضافہ ہو گیا ہے۔رمضان المبارک کے آغاز سے قبل وزارت خزانہ نے
بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کے لئے وزارت پانی و بجلی کو 40 ارب روپے جاری
کئے تھے مگر لو ڈ شیڈنگ میں کمی نہ آسکی،ملک بھر میں رمضان المبارک میں
سحرو افطار اور تراویح پر بھی بجلی غائب رہنا معمول بن گیا۔ طویل لوڈشیڈنگ
کے ستائے شہری سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے بجلی بحران حل کرنے کے
دعویدار کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ بجلی کی دہائی پورے ملک میں سنائی دے رہی
ہے۔ بجلی کی طویل غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف
نے بھی نوٹس لے لیا، وزارت پانی و بجلی سے فوری رپورٹ طلب کر لی گئی۔ طویل
اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ پر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے
ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وزارت پانی وبجلی سے لوڈشیڈنگ کا شیڈول طلب کر
لیا ہے اور سسٹم خرابی کی وجہ سے بجلی کی غیر اعلانیہ بندش میں اصل وجوہات
پیش کرنے کا حکم بھی دیا ہے جبکہ سسٹم اپ گریڈیشن کا جامع پلان تیار کرنے
کی بھی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اس رمضان المبارک میں عوام کو
ریلیف دینے کے بجائے مشکلات سے دوچار کرنے والے حالات کا فوری تدارک کیا
جائے۔اس وقت بجلی کی طلب 22 ہزار جبکہ پیداوار 14 ہزار 400 میگاواٹ ہے۔
ٹرانسمیشن سسٹم 15 ہزار تک بجلی کی پیداوار برادشت نہیں کر سکتا۔ پیداوار
کی کمی کے باعث بڑے بریک ڈاؤن کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ شہروں میں 14 گھنٹے
جبکہ دیہات میں 18 گھنٹے تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ شدید گرمی میں بدترین
لوڈشیڈنگ نے روزہ داروں کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ سحر و افطار کے اوقات میں
لوڈشیڈنگ نہ کرنے کے حکومتی دعوے دھرے رہ گئے ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقوں
بالخصوص خیبرپختونخوا میں کئی کئی گھنٹے تک غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے شہریوں
کا جینا عذاب بنا دیا ہے۔ جن علاقوں میں ٹرانسفارمرز ٹھیک کام کر رہے ہیں
وہاں سسٹم بچانے کے نام پر طویل لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔ مختلف شہروں میں
بجلی کی طویل بندش کے باعث پانی کی فراہمی بھی سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ ملک
بھر میں بجلی کی پیداوار میں کمی کے باعث بڑے بریک ڈاؤن کا خدشہ پیدا ہو
گیا ہے۔لاہور کے شہریوں نے وزیراعظم نواز شریف کے سامنے احتجاج کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ لاہور میں ہر گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کی گئی
بار بار لوڈ شیڈنگ کے باعث اکثر علاقوں میں پانی کی بھی قلت ہو جاتی ہے۔
انرجی مینجمنٹ سیل کی جانب سے گزشتہ روز بھی لوڈ شیڈنگ کے دورانیہ کے
مقابلہ میں کم شارٹ فال کا ڈیٹا جاری کیا گیا۔ حکومتی اعلانات کے باوجود
غیراعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ لیسکو کی اعلی انتظامیہ کی عدم توجہ سے
گزشتہ مالی سال میں سسٹم کو بہتر بنانے کے لئے معمولی صلاحیت کے تقریبا 100
ٹرانسفارمرز کو شامل کیا گیا۔ سسٹم کو اپ گریڈ نہ کرنے اور ضرورت سے
انتہائی کم ٹرانسفارمرز نظام میں شامل کرنے کی وجہ سے لیسکو کے 25سے زائد
گرڈ سٹیشن اوور لوڈ ہو چکے ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا گیاہے کہ سسٹم اس قدر اوور
لوڈڈ ہو چکا ہے جس کے بعد لیسکو کا بجلی کا ترسیلی نظام کسی بھی وقت بیٹھ
سکتا ہے اور لاہور شہر کو بجلی کی فراہمی کئی روز تک معطل ہو سکتی ہے۔
لاہور شہر میں لیسکو کی فرسٹ سرکل، سیکنڈ سرکل، تھرڈ سرکل اور پانچویں سرکل
50,100,200 اور اس سے زائد صلاحیت کے 2650 ٹرانسفارمرز خراب ہو چکے ہیں اور
متاثرہ علاقوں میں ٹرانسفارمرز خراب ہی پڑے ہوئے ہیں۔ لیسکو سٹورز میں
ٹرانسفارمرز کثیر تعداد میں موجود ہیں مگر صارفین کو جان بوجھ کر اذیت میں
مبتلا کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال کے بعد لاہور میں بعض علاقے اس طرح کے ہیں
جہاں دو سے تین دن تک بجلی مسلسل بند رہتی ہے۔پیک آوور میں بجلی کی ڈیمانڈ
22ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکی ہے جبکہ اسی دوران سپلائی 14 سے 15ہزار میگا
واٹ ہو رہی ہے، ٹرانسمیشن لائن 15ہزار میگاواٹ سے زیادہ سپلائی برداشت نہیں
کر پا رہی ہے،جس کی تصدیق متعدد بار پانی و بجلی کے وزراء کر چکے ہیں جبکہ
وزیر اطلاعات نے ایک بار تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری ٹرانسمیشن لائن
13ہزارمیگاواٹ سے زائد کا بوجھ برداشت ہی نہیں کر سکتی۔ 15 ارب روپے سے ایک
منصوبہ الیکٹرک سٹی ایفیشنسی اور سسٹین ایبل کے نام سے شروع کیا گیا تھا جس
میں ٹرانسمیشن سسٹم کو تبدیل کرنا تھا۔ مذکورہ ٹرانسمیشن سسٹم کو کاغذات کی
حد تک تو تبدیل کردیا گیا ہے تاہم زمینی حقائق قطعی مختلف ہیں، جس سے
روزانہ کی بنیاد پر خطرناک بریک ڈاؤن کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔25ہزار کے وی
کی ہائی ٹینشن ٹرانسمیشن لائن چوک ہو چکی ہے۔ وزیراعظم کے نوٹس لینے کے
بعدوفاقی وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف میدان میں آئے اور معافی مانگتے ہوئے
کہا کہ بجلی کا کام اﷲ کی مدد سے ہی چل رہا ہے، اْمید ہے الگے تین روز میں
اﷲ کی مدد آئے گی تو حالات بہتر ہوں گے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اگر موسم اسی
طرح گرم اور خشک رہا تو ہمیں اس قسم کی صورت حال کا مزید سامنا کرنا پڑ
سکتا ہے جس کے لئے عوام سے معذرت خواہ ہیں۔ اﷲ کی رحمت ہوگی تو لوڈشیڈنگ کی
صورتحال بہتر ہوگی۔ ان کا کہنا تھا ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اگلے 3 سے 4 برس
کے دوران 6 سے 7 ہزار میگاواٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل کی جائے۔ موسم شدید
گرم ہونے کی وجہ سے 9 پاور پلانٹس حب کو ٹو اینڈ تھری، اورینٹ کمپلیکس،
لبرٹی کمپلکس، دبیر خواڑ، الائی خواڑ، ہالمور جی ٹی ٹو، اے جی ایل یونٹ ون،
ٹو اور ٹین، نوشاد پاور بند ہونے جانے کہ وجہ سے 1300 میگاواٹ بجلی کی
پیداوار کم ہوئی۔ سسٹم بیٹھنے کا خدشہ تھا۔ جبری لوڈشیڈنگ اسلام آباد سے
کرنی پڑی۔ خواجہ آصف نے بجلی بحران کے حل کی ذمہ داری قدرت پر ڈالتے ہوئے
صحافیوں سے فرمائش کر دی کہ وہ نماز استقا پڑھیں۔ کہتے ہیں بارش کے بعد
موسم میں بہتری آئے گی اور حالات قابو میں آ جائیں گے۔ وفاقی وزیر پانی و
بجلی نے رمضان المبارک کے دوران بدترین لوڈ شیڈنگ پر عوام سے معذرت تو کی
لیکن یہ شکایت بھی کر ڈالی کہ عوام بجلی بہت خرچ کرتے ہیں۔ کراچی سے پشاور
تک بجلی کا اصراف اور ضیاع ہو رہا ہے۔ پاکستانی قوم بجلی ایسے خرچ کر رہی
ہے جیسے ہمارے پاس بے انتہا بجلی ہو۔ خواجہ آصف نے یہ انکشاف بھی کیا کہ
نندی پور سے بجلی ڈیزل سے پیدا ہوتی ہے جو بہت مہنگی پڑتی ہے۔ اسے ٹریٹڈ
فرنس آئل سے چلایا جا سکتا ہے جس کی حکومت کے پاس سہولت نہیں ہے۔وزیراعظم
کے نوٹس اور خواجہ آصف کی معافی کے بعد عوام کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ جس
طرح انہیں بجلی ملتی ہے اسی طرح بل بھی جمع کروائیں کیونکہ بجلی تو ہوتی
نہیں لیکن بل ڈبل آتے ہیں،پیپلز پارٹی کے دورحکومت میں تو مسلم لیگ(ن) کے
رہنماؤں نے دعوے کئے تھے کہ ہم چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کر دیں گے مگر اب
تو انکی حکومت کو ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ،لوڈشیڈنگ کم ہونے کی
بجائے بڑھی ہے بلکہ رمضان المبارک جو عبادات کا مہینہ ہے اس میں تو حد ہی
ہو گئی ہے ۔اب خواجہ آصف کی معافی کے بعد دیکھتے ہیں کہ قوم قبول کرتی ہے
یا نہیں؟ |