ہم میں سے جو ساتھی دنیا سے رخصت
ہو جاتے ہیں ،ہم اکثر ان کے بارے میں اپنی معلومات کے مطابق کچھ ایسی چیزیں
ضبط تحریر میں لانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ایک طرف ان کی یاد بھی تازہ ہو
جائے اور ان کی خصوصیات اور اچھی باتوں کا ذکر بھی ہو تاکہ دوسرے تحریکی
ساتھیوں کو اس سے رہنمائی مل سکے ۔لیکن ہمارے کچھ ایسے مربی حضرات اب بھی
موجود ہیں جن کی پوری زندگی تحریک میں گزری اور اب بھی وہ کچھ نہ کچھ اپنے
محدود دائرے میں سرگرم عمل ہیں ان ہی میں سے ایک جناب طیب احمد صاحب ہیں
طیب صاحب سے ہمارا رابطہ1970سے ہے طیب صاحب ایک طویل عرصے تک جماعت اسلامی
لیاقت آباد کے ناظم رہے ہیں بہت اچھے منتظم ہونے کے ساتھ بہت اچھے مدرس اور
مقرر بھی تھے بلکہ اب بھی ہیں ہم نے ان کی سیکڑوں تقریر و دروس سنے ہوں گے
آج ہم ان کی ایک تقریر کے کچھ نکات پیش کرنے کی کوشش کررہے ہیں یہ سن اسی
اور پچاسی کے درمیان کا دور ہے اس وقت ایک کارکنوں کی خصوصی نشست میں طیب
صاحب نے اپنی گفتگو میں اسلامی نظام کی اہم رکاوٹوں کے بارے میں انتہائی
فکر انگیز نکات رکھے جو میرے ذہن میں موجود ہیں اس میں رنگ بھرنے کی کوشش
کرتے ہیں ۔اسلامی نظام کے راستے میں پہلی رکاوٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ
سچی بات ہے کہ ہم اپنی دعوت ٹھیک طریقے سے لوگوں تک پہنچا ہی نہیں سکے ہم
نے اسلامی نظام کی حسنات و برکات پر تو بہت کچھ کہا اور لکھا لیکن اپنے
محلے میں سبزی کا ٹھیلہ لگانے والے کو یہ بات نہیں سمجھا سکے کہ تم جو پچیس
سال سے یہ ٹھیلہ لگارہے ہو اور پھر جب تم بوڑھے اور بیمار ہوجاتے ہو تو
تمھارا بیٹا بیٹھنے لگتا ہے کیا یہی تمھارا مقدر ہے نہیں جب اسلامی نظام
آئے گا تو تمھیں بھی ترقی کرنے کے مواقع ملیں گے آج ٹھیلہ کل پکی دکان اس
کے بعد منڈی میں بڑے پیمانے پر کاروبار کیا وجہ ہے کہ آج ایک سرمایہ دار کا
بیٹا بنک لون لے کر ایک فیکٹری لگاتا ہے دس سال کے بعد وہ ایسی پانچ
فیکٹریوں کا مالک بن جاتا ہے دراصل ہم جس کرپٹ معاشی نظام کے تحت زندگی بسر
کررہے ہیں اس کی خاصیت ہی یہ ہے کہ اس میں امیر، امیرتر اور غریب ،غریب تر
ہوتاجاتا ہے اسلام کے عادلانہ معاشی نظام میں ہر فرد کو ترقی حاصل کرنے کے
یکساں مواقع میسر آتے ہیں ہم نے پیٹ پر پتھر باندھنے کے واقعات اور کھانا
کھانے بیٹھے دروازے پر فقیر آگیا تو اس کو کھانا دے دیا اور خود بھوکے رہ
گئے جیسے واقعات تو خوب عوام کو سنائے لیکن اس پہلو پر کم گفتگو کی کہ
خلفائے راشدین کے دور میں معاشی خوشحالی کا یہ حال تھا کہ زکواۃ دینے والے
تو موجود تھے لیکن لینے والا کوئی نہیں ملتا تھاامن وامان کا یہ حال تھا کہ
ایک عورت تن تنہا رات کی تاریکی ایک شہر سے دوسرے شہر جاتی تھی اور کوئی
آنکھ اٹھا کر دیکھنے والا نہ تھا ہم جب اپنی دعوت کے اس پہلو کو عام لوگوں
کے ذہنوں میں منتقل نہیں کریں گے اس وقت تک لوگ ہمارے قریب نہیں آئیں گے ۔دوسری
رکاوٹ ہماری اپنی ذات ہے کہ اب شوق جنوں میں کمی اور ترجیحات میں تبدیلی
پیدا ہو گئی ہے پہلے ہمارا اوڑھنا بچھونا تحریک اسلامی تھی ہماری ترجیح اول
بھی یہی تھی اور ترجیح آخر بھی یہی تھی دفتر میں ہوں کسی غمی خوشی کی محفل
میں ہوں ہماری گفتگو کا مرکز محور تحریک اسلامی ہی ہوتی تھی یوں سمجھ لیں
کہ یہ ہمارا فل ٹائم جاب تھی اب یہ فل ٹائم جاب پارٹ ٹائم میں تبدیل ہو گیا
ہے اب یہ ہماری ترجیح اول نہیں رہی کچھ اور دوسری خاندانی اور سماجی
مصروفیات نے اپنی گرفت میں لے لیا ہے اب دوسرے کاموں سے وقت بچتا ہے تو کچھ
تحریک کا کام بھی کر لیتے ہیں ۔تیسری رکاوٹ ہمارے مطالعے کے رجحان میں کمی
اور تحریکی لٹریچر کی جگہ اخبارات و رسائل کے تجزیوں اور تبصروں نے لے لی
ہے یعنی جس لٹریچر نے ہماری زندگیوں کے رخ کو تبدیل کیا ہمارے ذوق و مزاج
کو بدلا مقصد زندگی کا شعور دیا ہماری دوستیوں اور دلچسپیوں کے دائروں کو
تبدیل کیا تحریک میں آنے کے بعد اب ان کتابوں سے رشتہ کمزور ہو گیا ہے اس
کی جگہ اخبارات کے اداریوں ،تجزیوں ،تبصروں اور مختلف رسائل کے مضامین نے
لے لی ہے جس سے ہمیں حالات سے آگہی تو حاصل ہو جاتی ہے لیکن ہمیں متحرک
رکھنے کے لیے جو لٹریچر ایندھن کا کام دیتا تھا اس سے ناطہ ٹوٹ جانے کے
باعث ہمارے ذہنوں میں ایک قسم کا کنفیوژن پیدا ہو گیا ہے اب چونکہ مارکیٹ
میں ایسی تحریریں بھی آگئیں ہیں جس کی وجہ سے کارکنوں اور قیادت کے درمیان
ایک خلا سا محسوس ہونے لگا ہے اپنی قیادت پر اعتماد اور اپنے مقصد کے حصول
میں یکسوئی میں ارتعاش سا محسوس ہونے لگا ہے ۔اسلامی نظام کے راستے میں
چوتھی بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا جاگیردارانہ نظام ہے ،ہمارا زرعی ملک ہے
80فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے سندھ کے جاگیرداروں،کے پی کے ،کے خوانین
پنجاب کے چودھری حضرات اور بلوچستان کے سرداروں نے عوام کی بڑی اکثریت کو
اپنے قبضہ میں لیا ہوا ہے انتخابات کے موقع پر یہی لوگ اپنے اپنے علاقوں سے
کامیاب ہوتے ہیں ،اب ظاہر ہے یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر ہمارا آپ کا کوئی
کنٹرول نہیں ہے ہمارے تحریکی اثرات شہروں کی حد تک تو کچھ قابل ذکر ہیں
لیکن دیہی علاقے اس سے خالی ہیں ۔ان چاروں رکاوٹوں کو دیکھ کر ہمارے اندر
ایک قسم کی مایوسی پیدا ہو سکتی ہے کہ شاید ہم کبھی کامیاب نہ ہو سکیں لیکن
ایسا نہیں ہے مکہ کے حالات تو اس سے ہزار گنا زیادہ خراب تھے ہماری کام تو
اپنے مقصد کے حصول مسلسل اور پیہم جدوجہد کرتے رہنا ہے ہم تحیک کے کام کو
اپنا فل ٹائم جاب بنالیں جن کتابوں نے ہماری بے مقصد زندگی کو بامقصد بنایا
ان کتابوں کو دوبارہ اپنے ہاتھوں اور تکیوں کی زینت بنائیں اپنے دعوت کے
اسلوب کو تبدیل کریں کہ عام لوگوں کو یہ یقین حاصل ہو جائے کہ یہی لوگ آئیں
گے تو ہمارے مسائل حل سکیں گے اور اس طرح ایک بڑی تحریک اٹھانے کی کوشش
کریں جہاں تک جاگیرداری کا مسئلہ ہے تو حقیقتاَ یہ کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں
جب بھی ملک میں کوئی بڑی تحریک اٹھتی ہے سب سے پہلے یہی جاگیردار خوانین
چودھری اور سردار اپنا رخ تبدیل کرتے ہیں برصغیر میں جب تحریک پاکستان چلی
تو تمام جاگیر داروں نے اپنے رخ تبدیل کر لیے تھے آندہ بھی ایسا ہو سکتا
ہے۔ |