اتنا تو کر سکتے ہیں۔۔۔!
(Farrukh Shahbaz, Lahore)
فٹ بال میچ ٹی وی سکرین پر چل
رہا تھامیرے دوست نے سکرین پر آنکھیں گاڑیں ہوئیں تھیں،سکرین پر سے
نظرہٹائے بغیر وہ بولا’’ تو ہم کیا کریں پھر غزہ والوں کے لیے۔؟ کیا میرے
فیفا ورلڈ کپ نہ دیکھنے سے اسرائیل فلسطین پر بم برسانا چھوڑ دے گا۔۔؟میرے
دوست کا لہجہ تلخی کی طرف بڑھ رہا تھا۔میں تلخی کو مزید نہیں بڑھانا چاہتا
تھا۔سوچتا ہوں آج یہ دلیل دے کر جلتی آگ سے آنکھیں چرانا آسان ہے۔آج آپ اسے
آگ نہیں سمجھتے ۔۔۔۔چپ سادھ لیجیے۔۔۔آنکھیں موند لیجیے۔۔۔پیچھا
چھڑوالیجیے۔۔۔نہیں۔۔۔اتنا آسان نہیں ایک لمحے کے لیے سوچیے آپ کے بچوں کو
دن دیہاڑے اٹھا لیا جائے،آپ کے بزرگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑیں جائیں۔آپ
کے گھروں پر سرشام بم برسائے جائیں،آپ اپنی بچوں کی لاشیں بھی نہ پہچان
پائیں۔۔۔آہ کتنا خوفناک خیال ہے ۔۔۔ایک لمحے کے لیے بھول جائیے سب کچھ ۔۔کیوں
کہ آپ محفوظ ہیں۔آپ صبح گھر سے خوشی کے ساتھ اپنے کام پر جاتے ہیں،آپ کے
بچے بھی پر امن زندگی گزار رہیں ہیں،آپ کو کسی قسم کی پریشانی نہیں۔آپ کا
گھر،کاروبار،خاندان،رشتے دار سب محفوظ ہے۔آپ کی زندگی خوش وخرم گزر رہی
ہے۔آپ اس آگ کی تپش کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں جو مسلمان بھائیوں کو تکلیف
دے رہی ہے۔آپ اس اذیت کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں ۔۔؟نبی مہربانﷺ نے فرمایا
تھا’’مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں جسم کا کوئی حصہ تکلیف میں آجائے تو پورا
جسم تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘ لیکن یہاں توکسی کے سر پہ جوں تک نہیں
رینگتی۔۔۔مدد کے لیے صدائیں بلند ہورہیں ہیں مگر ہم سن نہیں پارہے۔ایک وہ
وقت تھا جب ایک بیٹی کیآواز پر سفاک اور بے رحم حجاج بن یوسف بے چین ہوگیا
تھا۔آج سے تقریباً 1400 سال پہلے بحیرہ عرب سے مسلمان حاجیوں کے ایک بحری
جہاز کو سندھ کے ہندو راجہ داہر نے لوٹ کر مسلمان عورتوں اور بچوں کو قیدی
بنا لیا - ان خواتین میں سے ایک اسلام کی بیٹی نے اس وقت کے حجاز کے حکمران
حجاج بن یوسف کو مدد کے لئے ان الفاظ میں پکارا " اے حجاج ! ہماری مدد کو
آؤ ، تمہاری قوم وملت کی بیٹیوں کو ہندو راجے نے یرغمال بنا لیا ہے، خدارا
ہماری مدد کرو " -
جب اس لٹے پٹے قافلے کے ایک زندہ فرار ہونے والے ایک شخص نے یہ پیغام حجاج
بن یوسف کو سنایا تو وہ قومی غیرت سے غیظ و غضب میں آ گیا اور اس نے اسی
وقت ایک لشکر تیار کر کے راجہ داہر کی سرکوبی کے لیے براستہ سمندر ہندوستان
روانہ کر دیا مگر یہ راجہ بہت طاقتور فوج کے ساتھ تھا اسلئے مسلمان لشکر کو
کامیابی نہ ہوئی اسکے بعد حجاج نے ایک اور لشکر بھیجا مگر اسے بھی کامیابی
نہ ملی -
حجاج بن یوسف کو ان مسلم خواتین کی آہ و بقا سونے نہیں دے رہی تھی - اب کی
بار اس نے ایک مضبوط جنگی بیڑہ تیار کر کے اس کی قیادت اپنے سترہ سالہ
بھتیجے محمد بن قاسم کو سونپی اور اسے ہر صورت میں فتح کے آرڈرز دیئے اور
راجہ داہر کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے اور تمام قیدیوں کو رہائی دلانے کا
حکم صادر فرمایا -
بہادر اور ہونہار محمد بن قاسم قہر خداوندی بن کر سندھ پر حملہ آور ہوا اور
راجہ داہر اور باقی ہندو راجاؤں کو شکست پر شکست دیتا چلا گیا راجہ داہر
آگے آگے بھاگ رہا تھا اور محمد بن قاسم لگاتار اس کا پیچھا کر رہا تھا
آخرکار اس راجہ کو مکمل شکست فاش دے کر اس کو واصل جہنم کیا ، تمام مسلمان
قیدیوں کو رہا کروایا اور اسلام کا جھنڈا آدھے ہندوستان کے سینے میں گاڑ
دیا -
اگر چہ حجاج بن یوسف ایک ظالم اور بے رحم حکمران تھا مگر ملت اسلامیہ کی
ایک بیٹی کی پکار پر وہ چین سے نہ سویا جب تک ان بیٹیوں کو رہائی نہ دلوائی
اور جب تک ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دی مگر آج انہی عربوں کی بیٹیاں
تمام مسلمانوں کو اور بالخصوص مسلمانوں کو مدد کیلئے پکار رہی ہیں مگر آہ
……امت مسلمہ پر خاموشی طاری ہے ۔ایسے سکوت کا راج ہے جو نا صرف مجرمانہ
بلکہ ظالمانہ ہے۔
ایک بار پھرسے لفظوں کا نوحہ لکھنے جارہاہوں،خون فلسطین کی سرزمین کو سرخ
کر رہاہے۔۔۔لیکن کوئی آگے بڑھ کر روکتا نہیں اسرائیل بدمست ہاتھی کی طرح
انسانی جانیں پاؤں تلے روندتا جا رہا ہے۔اسرائیل دن رات خون پی رہا ہے مگر
یہ خون اس کی پیاس نہیں بھجا پارہا۔۔۔ورطہ حیرت میں گم ہوں مذہب تو دور کی
بات انسانیت بھی کسی چیز کا نام تھا لیکن لگتا ہے اب یہاں نہیں پائی جاتی
۔جان کی امان پاؤں تو عرض کروں اقوام متحدہ،او آئی سی،ہیومن رائٹس کمیشن اس
نام کے ادارے بھی ہوا کرتے تھے کیا ابھی بھی اس دنیا میں ان کا وجود باقی
ہے۔۔۔؟سوال پوچھا جاتا ہے ہم کیا کریں۔۔؟ جواب بہت سادہ ہے اپنی استطاعت کے
مطابق اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائیے۔آج سے یہودی کمپنیوں کی بنائی گئی
روزمرہ کی اشیاء کی فہرست بنائیے اور اسکا بائیکاٹ کیجیے۔یہ آسان کام نہیں
لیکن ہمیں یہ کرنا ہو گا۔یہ اس ظلم کے خلاف آپ کی آواز ہو گی۔آج ارادہ کر
کہ اس ظلم کے آگے کھڑے ہو جائیے۔۔اس آگ کے سامنے کھڑے ہو جائیے جو دن رات
آپ کے بھائیوں کے گھر جلا رہی ہے۔۔۔! |
|