زمین کا یہ ٹکڑا جس پر ہم بڑے
آرام سے رہتے ہیں ہمارا وطن ہے۔ ہم ہر صبح نئی خوشیوں اور معاش کی تلاش میں
اپنے گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔خُوب چلتے پھرتے ہیں۔ اسی خطّے کے کسی نہ
کسی گوشے میں ہر رو ز قومی ترانہ بھی گونجتا ہے۔ کیاہم نے کبھی سوچا کہ
ہمیں اس قومی ترانے کی لاج رکھنی ہے،اس سر زمین کی آن کو سنبھال کر رکھنا
ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ خطہ ہم سب کا ہے۔ کسی واحد فرد، طبقے یا قوم
کا نہیں۔
اپنے رہائشی گھر کی ہی مثال لے لیجئے گھر کا ہر فرد اسے بڑے چاؤ سے ’’اپنا
‘‘ کہتا ہے۔ خواہ وہ گھر کا سربراہ باپ ہو، گھر کی مالکن ماں ہو یا گھر کے
دیگر افراد یعنی بہن بھائی ہوں حتیٰ کہ گھر کا نوکر بھی یہی کہتا نظر آئے
گا: ’’ہاں یہ گھر میرا ہے، میں یہیں ریتا ہوں‘‘گھر کا ہر فرد دکھ سکھ میں
ایک دوسرے کا شریک ہوتا ہے، ہاتھ بٹاتا ہے اور یہ قدرتی سی بات ہے۔ اور جب
ملک کی بات آئے تب بھی یہی بات ہم سب پر لاگو ہوتی ہے۔ہم فخریہ کہتے ہیں کہ
’’یہ ملک میرا ہے،یہاں کے سب رہنے والے ہم وطن ہیں۔برابری کے انداز میں ایک
دوسرے کے وطنی عزیز ہیں۔‘‘
لیکن کیا یہ بات عجیب سی نہیں لگتی کہ ایک روز اچانک اسی ملک کے رہنے والے
’’بے گھر‘‘ یا ’’مہاجر‘‘ کہلائیں۔کیوں؟۔کل تک تو اُن سب لوگوں کے اپنے گھر
تھے،مال مویشی اور کھیت کھلیان اپنے تھے۔آج وہ پیادہ یا کرائے کی گاڑیوں
میں بیٹھ کر اپنے جنم بھومی کو چھوڑ کر کھلے آسمان تلے آ بیٹھے ہیں۔ ہم نے
انہیں ’’آئی ڈی پیز ‘‘ یعنی (INTERNALLY DISPLACED PERSONS) ۔ یہ لوگ شمالی
وزیرستان کے رہنے والے ہیں۔ انہوں نے ایک اہم اور نازک ترین موقعے پر یہ
قدم اٹھایا ہے تاکہ پاک آرمی اپنے ایکشن پلان ’’ضرب عضب‘‘ پر بلا روک ٹوک
عمل در آمد کر کے علاقے میں امن بحال کرے۔ یہ ایکشن شمالی وزیرستان کے
پہاڑی/ نیم پہاڑی اور دیگر علاقوں میں روپوش غیر ملکی دھشت گردوں کے خلاف
ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور دیگر قبائلی
علاقوں میں نائن الیون سے پہلے انتہا پسندی نام کو نہ تھی۔ یہاں کے امن
پسند لوگوں کا افغان مجاہدین، طالبان یا القاعدہ ایسے عسکریت پسندوں کو
اپنے علاقوں میں لانے، ان کے اڈے یا ڈیرے بنانے میں کوئی کردار نہیں
ہے۔بلکہ الٹا یہ تو نائن الیون کے بعد نا گفتہ بہ حالات میں بری طرح پھنس
کر گھرتے چلے گئے۔ اور یوں اپنی ہی سر زمین پر اغیار کے ہاتھوں نہ صرف ان
کے روز مرہ کے معمولات متاثر ہوئے بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کی ذاتی
سلامتی بھی نشان زد ہو کررہ گئی۔ یہ ’’اغیار‘‘ وہی بن بلائے مہمان
تھے۔طالبان یا القاعدہ سے منسلک لوگ، جو ازبک یا دیگر عسکریت پسندوں پر
مشتمل بتائے جاتے ہیں۔شمالی وزیرستان میں ان کی پُر اسرار آمد اور ٹھکانہ
سازی کسی مذموم منصوبہ بندی کا نتیجہ ہی کہی جا سکتی ہے۔ ان غیر ملکی
گروپوں نے علاقے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے کے لئے قتل و غارت گری کی اور
لوگوں کے گھر ، حجرے اور مساجد مسمار کیں یوں علاقے کا امن تہ و بالا ہو کر
رہ گیا۔
صورتِ حال بہت تشویش ناک تھی۔ علاقے کے امن پسندقبائلی سخت پریشان تھے جبکہ
انسانیت اور دین کے اعلا اصولوں کے بارے میں زبانی باتیں کرنے والے لیڈر
خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے۔پاک فوج اس صوتِ حال پر نگاہ رکھے ہوئے
تھی۔لیکن اس نے حکومت اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والی بات چیت کے
نتائج کا انتظار کیا۔ یہ بات چیت کچھ بھی نہ تھی کیونکہ امن دشمنوں نے اسے
مہلت حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا۔اب ایکشن کا ہی ایک راستہ باقی تھا۔ تو
دھشت گردوں کا صفایا کرنے کے لئے ’’ضرب عضب‘‘ کا آغاز کر یا گیا۔
اب شمالی وزیرستان کے لوگ اپنے گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر جائے پناہ کی
تلاش میں دوسرے علاقوں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں۔اس وقت نولاکھ سے زائد
افراد بے گھر ہیں۔’’ہجرت ‘‘ ایک تکلیف دہ عمل کا نام ہے ۔ہم ان لوگوں کے
مصائب کا اندازہ اے سی واے بنگلوں اور دفتروں میں بیٹھ کر نہیں لگا سکتے۔
حالت یہ ہے کہ چند ایک لیڈروں کو چھوڑ کر بڑے نام والا کوئی بھی لیڈر
وزیرستانیوں کے مسئلہ پر بات نہیں کر رہا۔ ان کے لئے اس کے پاس کوئی پلان
نہیں۔ لہٰذا سماجی بہبود اور عوامی حلقوں کے علاوہ اہل قلم اور میڈیا کے
لوگوں کو سامنے آنا ہو گا۔ کیونکہ اب فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ :
آئی ڈی پیز کی بحالی کا کام صرف وفاقی حکومت اور فوج ہی پر نہ چھوڑ دیا
جائے بلکہ مخیّر اور ثروت مند لوگوں سے اپیل کی جائے کہ آگے آئیں اور
ہنگامی بنیادوں پرضروری فنڈز، شیلٹر،کھانے پینے کی اشیاء، ادویات بچوں کے
لئے دودھ، صاف پانی اور پہننے کے کپڑوں کا بندوبست کریں۔ اس سلسلے میں
ضروری پروپیگنڈہ بنیادی طور پر پریس اور الیکڑرانک میڈیا کو کرنا ہو گا۔
چنیدہ مقامات پر وزیرستانی مہاجرین لے لئے بستیاں بنائیں جائیں جن میں با
پردہ اور با سہولت رہائشی یونٹ موجود ہوں۔ اس وقت جہاں جہاں کیمپس ہیں، وہ
ناکافی ہیں اور ان میں بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔ مہاجرین کو ضروری شخصی
سکیننگ کے بعد (اگر ضروری ہو) موقع پر ہی شناختی کارڈ بنا کر دیئے جائیں
۔نوجوان اور صحت مند افراد کو تعلیم کے ساتھ ساتھ ہنر سکھائے جائیں ان کے
لئے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں اور ان کے لئے سپورٹس کا بھی بندوبست
کیا جائے۔ مہاجرین کی دل جوئی کی جائے اور ان میں حالات کا از خود بھی
مقابلہ کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ پڑھے لکھے اور صحت مند مہاجرین میں سے
مناسب افراد کا انتخاب کر کے سماجی اور اخلاقی بہبود کی کمیٹیاں بنائی
جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ مشکل کی اس گھڑی میں قوم ان کے ساتھ ہے اور
وہ بھی خود کو قومی دھارے سے جوڑ کر رکھیں۔ہم سب کی طرح یہ ملک ان کا بھی
ہے۔ |