ہم شہری
(Anwar Parveen, Rawalpindi)
دہشت گردی کا ناسور ایسا پھیلا
ہے کہ اس نے کتنے ہی معصوم بچے، بزرگ ، خواتین اور قوم کے نوجوان اپنی لپیٹ
میں لے لیے۔ ہر روز نہ جانے کتنے گھرانے ان کی بے رحمی کا شکار ہو رہے ہیں
۔ یتیم بچے، بیوہ خواتین ، بین کرتی ہوئی بہنیں اور غمزدہ والدین اپنی
زندگی میں دُکھ گھولنے والے ان ظالم لوگوں کو نہ تو جانتے ہیں اور نہ ہی
بدلہ لے سکتے ہیں ۔ ان سے مقابلہ کرنے کے لیے فوج ، سیکورٹی فورسز اور
پولیس کے اہل کار ہی رہ جاتے ہیں ۔ کیا یہ صرف ان کا فرض ہے کہ وہ دہشت
گردی پر نظر بھی رکھیں اور اسے روکیں بھی۔ یہ سب لوگ ہر روز شہادت کے
نذرانے پیش کررہے ہیں اور ہم شہری انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ یہ تو ان کا فرض تھا۔ آخر یہ ان کی ڈیوٹی تھی۔ انہوں نے تو وہی کیا جس
کے لئے انہوں نے اس نوکری کو چُنا ۔ بہت سے لوگ تو برملا بڑی بے حسی سے یہ
کہہ دیتے ہیں کہ ان کو تنخواہ اور مراعات اسی کام کے لیے تو دی جاتی ہیں ۔
پولیس والے تو ہمیشہ کم تنخواہ اور سہولتوں کی کمی کے باوجود پرانے
ہتھیاروں کے ساتھ بھی ہر جگہ اپنے فرض کیلئے موجود ہوتے ہیں ۔ انہیں یہ
معلوم ہوتا ہے کہ نہ جانے کوئی گولی کہاں سے آجائے یا راستے میں کہیں ان کی
گاڑی پر حملہ ہو جائے ۔ پھر بھی جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ اپنی پوری کوشش
کرتے ہیں کہ شہریوں کی حفاظت کریں ۔ کبھی بم ڈسپوزل اسکواڈ کے لوگوں کو
دیکھا ہے۔ ناکافی حفاظتی سامان کے باوجود وہ بم ناکارہ بنانے کے لئے ہر
اقدام کرتے ہیں ۔ ایک لمحے کی بات ہوتی ہے ۔ اگر بم ناکارہ بنا دیا تو بچ
گے۔ اگر بم پھٹ گیا تو پھر ہم شہری تو ان کے لئے چند تعریفی جملے کہہ کر
تاسف کااظہار کرتے ہوئے دوسرا چینل دیکھنے بیٹھ جائیں گے لیکن ان کے گھر
والوں کے لیے بس ایک ہی خبر رہ جائے گی کہ آج ان کے گھر کا کفیل یا ان کا
عزیز اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ فوج کے بارے میں تو یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ
قوم کا سارا دُکھ درد ان کے دلوں میں ہے ۔ ناگہانی آفات ہوں ۔ آپس کے جھگڑے
ہوں یا دہشت گردی کا عفریت۔ ان کا تو فرض ہے کہ ادھر شہریوں کو پریشانی ہو
اُدھر وہ فوراََ پہنچیں اور داد رسی کریں۔ دہشت گردی کے خلاف بھر پور جنگ
کریں اور شہادتیں دیں لیکن ہمیں یہ خوشخبری سناتے رہیں کے وہ ہماری اور ملک
کی حفاظت کے لئے نہ صرف موجود بلکہ چاک و چوبند اور تیار ہیں ۔
ہم کیسے لوگ ہیں کہ اپنی ساری ذمہ داریاں اپنے محافظوں پر ڈال کر خود سکون
سے رہنا چاہتے ہیں ۔ ان کے دُکھ درد اور پریشانیوں سے ہمیں کوئی سروکار
نہیں ۔ وہ کن مشکلات سے گزر رہے ہیں ۔ اس کا احساس نہیں ۔ شدید گرمی میں کس
طرح اپنا فرض بجا آور لا رہے ہیں ہمیں معلوم نہیں ۔ ہم شہری بس اُمیدیں
باندھ کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان پر انحصار کرکے بیٹھ جاتے ہیں ۔ ان کی
قربانیوں پر فخر کرنا جانتے ہیں خود عملی اقدامات نہیں اُٹھاتے۔
یہ شدت پسند ی اور دہشت گردی اس نہج پر کبھی نہ پہنچتی اگر اس کا تدارک اسی
وقت نہ کرلیا جاتا جب سالوں پہلے اس کے آثار شروع ہوئے تھے۔ اِ کا دُکا
واقعات کو اگر زبردستی روک لیا جاتا اور سخت سے سخت ایکشن لیا جاتا تو آج
نوبت یہاں تک نہ آتی۔ اب بھی ہم اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں ۔ کیا ہمارا
فرض نہیں کہ اپنی سطح پر ہر ایک کو دہشت گردی کے متعلق معلومات دیں ۔ کیا
ہم شہری خود احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کر سکتے ۔ کیا بچوں اور نوجوانوں
کو دہشت گردوں کے مقاصد سے آگاہ نہیں کر سکتے اور انہیں ان سے دُور رہنے کے
طریقے نہیں بتا سکتے ۔ کیا مشکوک لوگوں کی نشاندہی نہیں کر سکتے ۔ ہم خود
بھی تو محافظ کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ فوجیں جب لڑتی ہیں تو انہیں قوم
کی حمایت کی ضرورت ہوتی ہیں تاکہ وہ کامیاب ہوں۔ آج ہم شہری اپنی فوج کے
ساتھ تو ہیں لیکن عملی طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اخلاقی مدد کے ساتھ
ساتھ نقل مکانی کر نے والے لوگوں کی مدد بہت ضروری ہے ۔ تاکہ وہ یہ وقت
حوصلے کے ساتھ گزاریں اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں ۔ وہ جلد از جلد اپنے
علاقوں میں واپس جا سکیں ۔ ہم عام شہری بھی محافظ اور مجاہد ہیں ۔ ہمیں آج
اپنی فوج ، سیکورٹی فورسز اور پولیس کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہے ۔ یہ
دہشتگردی تب ہی ختم ہو سکتی ہے جب ہر دہشت گرد کو قوم کا ہر فرد سر بہ کفن
نظر آئے۔ انہیں ہر گلی ، محلے اور شہر میں وہ جرأت مند لوگ نظر آئیں جو یہ
پیغام دیں کہ بس اب بہت ہوچکا ۔ یہ ملک ہمارا ہے۔ ہم متحد قوم ہیں اور اب
کسی کو اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمیں نقصان پہنچائے ۔ ہمیں یہ سچ کر دکھانا
ہے کہ ملک وقوم کی طرف اُٹھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑ دیں گے، ہر ہاتھ
کو توڑ دیں گے۔ |
|