برائے اشاعت خاص،21رمضان
المبارک،شہادت حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ رجب کی تیرہ تاریخ کو شہر مکہ میں خانہ کعبہ
میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ابوطالب اور والدہ کا نام فاطمہ بنت اسد
سلام اﷲ علیہا ہے۔پیدائش کے وقت آپ کے والد ابوطالب مکہ سے باہر گئے ہوئے
تھے، اس لیے ماں نے ان کا نام اپنے باپ کے نام پر اسد رکھا لیکن جب ابو
طالب واپس گھر پہنچے تو انہوں نے آپ کا نام علی رکھا۔ایک جگہ یہ بھی لکھا
ہے کہ والدہ نے آپ کا نام حیدر رکھا تھا جو آپ نے جنگ خیبر میں رجز پڑھتے
ہوئے استعمال کیا تھا۔ حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ و
آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر پرورش پائی۔ پیغمبر
کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ پہلے مرد تھے
جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ آپ کی عمر اس وقت تقریبا دس یا گیارہ سال
تھی۔فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اور علی علیہ السلام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
زندگی گھریلو زندگی کا ایک بے مثال نمونہ تھی مرد اور عورت آپس میں کس طرح
ایک دوسرے کے شریک ْ حیات ثابت ہوسکتے ہیں۔ آپس میں کس طرح تقسیم عمل ہونا
چاہیے اور کیوں کر دونوں کی زندگی ایک دوسے کے لیے مددگار ہوسکتی ہے، وہ
گھر دنیا کی ارائشوں سے دور , راحت طلبی اور تن آسانی سے بالکل علیحدہ تھا
, محنت اور مشقت کے ساتھ ساتھ دلی اطمینان اور آپس کی محبت واعتماد کے لحاظ
سے ایک جنت بناہوا تھا، جہاں سے علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبح کو مشکیزہ لے کر
جاتے تھے اوریہودیوں کے باغ میں پانی دیتے تھے اورجو کچھ مزدوری ملتی تھی
اسے لا کر گھر پر دیتے تھے ۔.بازار سے جو خرید کر فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
کو دیتے تھے اور فاطمہ سلام اﷲ علیھا چکی پیستی کھانا پکاتی اور گھر میں
جھاڑو دیتی تھیں۔ فرصت کے اوقات میں چرخہ چلاتی تھیں اور خود اپنے اور اپنے
گھر والوں کو لباس کے لیے اور کبھی مزدوری کے طور پر سوت کاتتی تھیں اور اس
طرح گھر میں رہ کر زندگی کی مہم میں اپنے شوہر کاہاتھ بٹاتی تھیں ۔مدینہ
میں آکر پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو مخالف گروہ نے آرام سے بیٹھنے نہ
دیا ۔ آپ کے وہ پیرو جو مکہ میں تھے انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دی جانے لگیں
بعض کو شہید کیاگیا ۔ بعض کو قید اور بعض کو زد وکوب کیااور تکلیفیں
پہنچائیں۔پہلے ابو جہل اور غزوہ بدر کے بعد ابوسفیان کی قیادت میں مشرکینِ
مکہ نے جنگی تیاریاں کیں یہی نہیں بلکہ اسلحہ اور فوج جمع کر کے خود رسول ﷺکے
خلاف مدینہ پر چڑھائی کردی۔ اس موقع پر رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا
اخلاقی فرض تھا کہ وہ مدینہ والوں کے گھروں کی حفاظت کرتے جنھوں نے کہ آپ
کوانتہائی ناگوار حالات میں پنا ہ دی تھی اور آپ کی نصرت وامداد کاوعدہ کیا
تھا ۔آپ نے یہ کسی طرح پسند نہ کیا آپ شہر کے اندرر کر مقابلہ کریں اور
دشمن کو یہ موقع دیں کہ وہ مدینہ کی پر امن ابادی اور عورتوں اور بچوں کو
بھی پریشان کرسکے گو آپ کے ساتھ تعدادبہت کم تھی لیکن صرف تین سو تیرہ آدمی
تھے , ہتھیار بھی نہ تھے مگر آپ نے یہ طے کرلیا کہ آپ باہر نکل کر دشمن سے
مقابلہ کریں گے چنانچہ پہلی لڑائی اسلام کی ہوئی جو غزوہ بدر کے نام سے
مشہور ہے اس لڑائی میں آپ کے چچا زاد بھائی عبیدہ ابن حارث ابن عبدالمطلب
اس جنگ میں شہید ہوئے . علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو جنگ کا یہ پہلا تجربہ تھا
. 25 برس کی عمر تھی مگر جنگ کی فتح کا سہرا حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
سر رہا اس کے بعد غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ خیبر اور غزوہ حنین یہ وہ بڑی
لڑائیاں ہیں جن میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ
وسلم کے ساتھ رہ کر اپنی بے نظیر بہادری کے جوہر دکھلائے۔ تقریباًان تمام
لڑائیوں میں حضرت علی علیہ السلام کو علمداری کا عہدہ بھی حاصل رہا ۔اس کے
علاوہ بہت سی لڑائیاں ایسی تھیں جن میں رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو تنہا بھیجا اورانھوں نے اکیلے ان تمام
لڑائیوں میں حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بڑی بہادری اور ثابت قدمی
دکھائی اور انتہائی استقلال، تحمّل اور شرافت ْ نفس سے کام لیاجس کا اقرار
خود ان کے دشمن بھی کرتے تھے۔ غزوہ خندق میں دشمن کے سب سے بڑے سورما عمر
وبن عبدود کو جب آپ نے مغلوب کر لیااور اس کاسر کاٹنے کے لیے اس کے سینے پر
بیٹھے تو اس نے آپ کے چہرے پر لعب دہن پھینک دیاآپ کو غصہ آگیااور آپ اس کے
سینے پر سے اتر ائے صرف اس خیال سے کہ اگر غصّے میں اس کو قتل کیا تو یہ
عمل محض خدا کی راہ میں نہ ہوگا بلکہ خواہش نفس کے مطابق ہوگا۔ کچھ دیر کے
بعد آپ نے اس کو قتل کیا اس زمانے میں دشمن کو ذلیل کرنے کے لیے اس کی لاش
برہنہ کردیتے تھے مگر حضرت علی علیہ السلام نے اس کی زرہ نہیں اْتاری اگرچہ
وہ بہت قیمتی تھی۔ آپ نے کبھی دشمن کی عورتوں یا بچّوں پر ہاتھ نہیں اٹھا
یا اور کبھی مالِ غنیمت کی طرف رخ نہیں کیا۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی
امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول کریم ان کی بہت عزت کرتے تھے او
اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ جتنے مناقب حضرت
علی علیہ السّلام کے بارے میں احادیث نبوی میں موجود ہیں، کسی اور صحابی
رسول کے بارے میں نہیں ملتے۔ مثلا آنحضور صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے یہ
الفاظ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں،کبھی یہ کہا کہ میں علم کا شہر
ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے ،آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ عشرہ مبشرہ میں شامل
تھے۔ جب ابوبکررضی اﷲ تعالیٰ عنہ امیر حج بنا کر بھیجے گئے تو اسی اثنا میں
سورۃ براء ت نازل ہوئی تو حضورﷺ نے علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو یہ ذمے داری
دی کہ لوگوں کے اجتماع میں جا کر یہ سورت سنائیں۔ حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ
قبل حضور ﷺ نے آپ کو یمن میں داعی اسلام بنا کر بھیجا، آپ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کی دعوت پر لوگ بلا تامل حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو 19 رمضان40ھ کو صبح کے وقت مسجد میں عین حالتِ نماز میں ایک زہر میں
بجھی ہوئی تلوار سے زخمی کیا گیا۔ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے
سامنے لائے اور آپ نے دیکھا کہ اس کا چہرہ زرد ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری
ہیں تو آپ کو اس پر بھی رحم آ گیا اور اپنے دونوں فرزندوں حضرت حسن علیہ
السلام اور حضرت حسین علیہ السلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ تمہارا قیدی ہے اس
کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا۔ اگر میں اچھا
ہو گیا تو مجھے اختیار ہے میں چاہوں گا تو سزا دوں گا اور چاہوں گا تو معاف
کردوں گا اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور تم نے اس سے انتقام لینا چاہا تو
اسے ایک ہی ضرب لگانا، کیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضرب لگائی ہے اور ہر گز اس
کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کیے جائیں، اس لیے کہ یہ تعلیم اسلام کے خلاف ہے،
دو روز تک حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بستر بیماری پر انتہائی کرب اور
تکلیف کے ساتھ رہےٓ اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور 21 رمضان کو
نمازِ صبح کے وقت آپ کی شہادت ہوئی۔ حضرت حسن علیہ السلام و حضرت حسین علیہ
السلام نے تجہیزو تکفین کی اور پشتِ کوفہ پر نجف کی سرزمین میں دفن کیے گئے۔ |