’’غزّہ ‘‘
(Shaikh Wali Khan Almuzaffar, Karachi)
فلسطین میں جب سے آبادی ہوئی ہے
تب سے قدیم عرب قبائلِ جرہم اور عمالقہ یہاں آباد ہیں ۔سما وی ادیان کا
تسلسل حضرت آدم علیہ السلام سے جناب نبی کریم ﷺتک انسانیت کی تعلیم وتربیت
کیلئے مسلّم ہے۔حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام اگریہودیوں کے
شجرہ ٔنسب کی بنیادیں ہیں، تو حضرت اسماعیل، عدنان اورجناب محمدﷺ بھی انہیں
بنیادوں سے وابستہ و پیوستہ ہیں۔ صرف فلسطین وغزہ ہی نہیں مصر کے علاقوں
میں بھی عمالقہ اور جرہم کی شاخیں قدیم سے تھیں ۔فرعون کی اہلیہ حضرت آسیہ
بھی بعض مؤرخین کے یہاں ان ہی میں سے تھیں ۔شام ،کنعان اور فلسطین اگرحضرت
یعقوب کی اولادوں ،،یہود ونصاریٰ،، کی سر زمین ہے،تو اسلام کے پیامبرجنابِ
محمدِ عربی بھی اسماعیل کے توسط سے کیایعقوب کی اولاد نہیں؟یہودیت اور
نصرانیت اگرادیا ن روحانیہ کے قدیم نسخے ہیں ،تو کیا اسلام انہی مذاہب
وادیان کا آخری اور تصحیح شدہ ایڈیشن نہیں ہے؟الحاد اور دھریت اگرچہ الہامی
نظریات کا دعویٰ نہیں کرتے ،لیکن کسی نے انکے بانیوں کے افکار کا بنظر عمیق
مطالعہ فرمایا ہے ،کہ مذاہب سے نفرت ان کا عقیدہ نہیں بلکہ انسانیت ان کا
موضوع ہے اور یہی انسانیت وحی والہام کا بھی موضوع ومضمون ہے۔حتیٰ کہ
شیطنزم کے مقاصدبھی خلط ملط مباحث نھیں، بلکہ مجوسیت کے عقیدے کے مطابق
خالق شر کوراضی کرنا ہے ۔پھر وہ لوگ اہل تحقیق کیسے کہلاتے ہیں جو تاریخی
یا ارضیاتی یا عمرانی یا مذہبی یا انسانی حقائق کو تعصب ،نفرت یاکور فہمی
کی وجہ سے مسخ کرتے ہیں ۔
اس دور میں یہودیت یا نصرانیت مسئلہ نہیں، یہ تو اہل کتا ب ہیں ،مسئلہ وہ
صہیونیت ہے ،جو ہٹلر کے نازی ازم کی طرح بنی صہیون کو افضل الخلائق مانتے
ہیں،یاپھریہ فاشسٹ ہیں،خود بہت سے یہودی فرقے ان کے ظلم ستم کے شکار اور
ستم رسیدہ ہیں ۔انسانیت کے لبادے میں یہ بھیڑیے انسانوں کے دشمن ہیں،غالب
نے کیا ہی عجیب تعبیر کی ہے :
پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد
ڈرتا ہوں آدمی سے کہ مردم گزیدہ ہوں
اقوام عالم کو ایک نیٹ ورک میں لانے کے لیے اقوام متحدہ ،اسے کنٹرول میں
رکھنے کے لیے ریاستھائے متحدہ امریکہ اور اسکو مٹھی میں رکھنے کے لیے
اسرائیل کی تاسیس ،یہ صہیونیوں کا زعم خویش اور خوش فہمی ہے،بقول حضرت علی
( کلمۃ حق اریدبہا الباطل) یعنی بظاہر سچائی کا نعرہ لگاکر ناجائز
وناروامراد لیاجارہاہے،حضرت علی نے جس طرح سچائی کو سچائی اور برائی
وناجائز کو ناروا ثابت کیا ،اس کیلئے قتال ومقاومت سے گریزنہیں کیا،اس خلط
مبحث کو اپنی حکمت ،دور اندیشی اور فہم وفراست سے مندفع کیا،ان بین
الاقوامی عظیم اداروں کے خلاف دسیسہ کاریوں کوآج اقوام عالم ،مسلم وغیرمسلم
سب کو انسانیت کے خلاف سازش سمجھنا ہو گا، حضرت علی جیسی بزرگ وداناہستیاں
کسی بھی مذھب ونسل کی ہوں ، پوری انسانیت کیلئے مینارۂ نور اورمشعل راہ
ہوتے ہیں ،اقوام متحدہ ہویااس کے ذیلی ادارے ،امریکہ ہویا اس کے تعلیمی
دانشگاہیں ،یہ سب انسانیت کا ورثہ ہیں ،انہیں تباہ ہونے ،ناجائز کی طرف
مائل ہونے ،کسی کادم چھلہ بننے سے بچانا پوری انسانی برادری کافرض ہے،قوموں
کے عروج وزوال سے عالم بشری کتنا نقصان اٹھاتاہے،اس پر مولانا ابوالحسن علی
ندوی کی کتاب ــ( ماذاخسر العالم بانحطاط المسلمین) شاہد عدل ہے ۔
بہرحال تعصب ونفرت کی عینک اتار کر مسئلہ فلسطین کو سمجھنے کی ضرورت ہے،
بطور خاص امریکہ ،بر طانیہ ،یورپی یونین ،روس ،چین،اور فرانس جیسے اہل طاقت
اور تہذیب وتمدن کے علمبرداروں کو۔
خلافت عثمانیہ کے اواخر کے دورِ اضمحلال سے فائدہ اٹھاکر صہیونیوں نے
فلسطین میں پلاٹ خرید خرید کر برطانوی استعمارسے اسے ملک کا نام دینے میں
کامیاب ہوگئے ،۱۹۴۸ میں لاکھو ں عربوں کی زمینوں پرقبضہ کرکے اسے وسعت دی
گئی، ۱۹۶۸ میں مزید وسعت کیلئے پورے فلسطین پرقبضہ کرلیا،عرب مسلمانوں
ومسیحیوں کو بے دخل کر کے ان کے گھروں کومسمار کر دیاگیا،اطراف عالم سے
صہیونی مزاعم کے حاملین کو لالا کر آباد کر دیاگیا،ان کیلئے نئی مستوطنات
اور کا لونیز بنادی گئیں ،بچے کھچے اصلی باشندگان کو طرح طرح کی اذیتوں سے
دوچار کیاگیا ،عرصۂ حیات ان پر تنگ کر دیاگیا۔
ان کم بختوں نے ہٹلر سے نفرت کے باوجود اس کی فکر وفلسفے کو سینے سے
لگالیا،اپنی نالائقیوں اور سازشوں کی بناء پر بھٹک بھٹک کر زندگی گذارنے
والوں نے یہاں کے معصوموں کو در در کی ٹھو کریں کھانے پر مجبور کر دیا،اس
پر اکتفانہیں کیا، بلکہ در در میں بھی ان کا پیچھاکر کے ان کی ٹارگٹ کلنگ
کر نے لگے۔
انسان اپنی نادانیوں ناکامیوں اور نامراد یوں سے عقل سیکھتا ہے ،مگر صہیونی
عجیب ہیں ،یہ عقل کے ناخن نہیں لیتے ،یہ اپنی حرکتوں ،کر تو توں اور
حماقتوں سے یہ باور کراتے ہیں کہ جس جس نے جب جب ہمیں ماراتھاوہ ٹھیک تھے
،انہیں ایساہی کرناچاہئے۔
خامہ انگشت بدنداں کہ اسے کیا لکھئے
ناطقہ سر بگر یباں کہ اسے کیا کہئے
اﷲ کے نہ ماننے والوں کی مخالفت یہ لوگ اﷲ تعالی کومان کر کرتے ہیں ،اپنے
آپ کو مقدس اور ابناء اﷲ واحباء ہ کا دعوی بھی کرتے ہیں ،پھر اسی اﷲ ،اس کے
فرشتوں بطور خاص حضرت جبریل اور بنی نوع بشری میں ان کے ارسال کر دہ مرسلین
کی مخالفت ،قتل کرنا،آروں سے چیرنا،ان کا مسخرہ اڑانا،ان کے ماننے والوں کے
خلاف سازشیں کرنا،انہیں خاک وخون میں نہلانا،بچوں ،عورتوں ،بوڑھوں ،بے
گناہوں اور کمزور وں پر ظلم روارکھنا ،ان پر آتش وآہن کی بارش کر نا،پانیوں
میں زہر ملانا،باغات ،سبزہ زاروں اور سایہ داردارختوں کی بیخ کنی کرنا
،عبادت گاہوں ،مسجدوں ،چرچوں اور دیگر متبرک مقامات کی بے حرمتی کرنا ان کا
شیوہ ہے،اڑوس پڑوس کے کسی عہد وپیمان کا یہ خیال نہیں رکھتے ،میثاق مدینہ
یافلسطین کامعاہدہ ٔامن وسلام ہر ایک کی دھجیاں انہوں نے ہی اڑائیں ۔
روم ہو یافارس ،فرعون ہو یاہامان ،رحمۃ للعالمین ہویا ہٹلر آخر ان سب کو
انہیں بری طرح اور کس کر مارنے کی کیا ضرورت پڑی ،اﷲ تعالی نے صرف ان ہی
میں سے کچھ شیاطین کی شکلیں بگاڑکر بندر وخنزیر میں کیوں تبدیل کیا؟ ارے
کیا صہیونیوں میں کوئی رجل رشید نہیں،کل کلاں کہیں ایسا نہ ہو کہ تمام
اقوام عالم بالاتفاق یہودیت یاصہیونیت کو سرطان سمجھ کر ہستی ہی سے نکال کر
پھینک نہ دیں۔
ابھی تازہ تازہ غزہ پر چاروں طرف سے زمینی ،فضائی اور بحری حملے شروع کر
دیئے،اور ایک مر تبہ پھر غزہ کو خون میں لت پت کر دیا، غزہ نے مصر کو قدموں
میں کھجلایا،اس نے مرہم پٹی بھیجدی،اردن ،شام ،لبنان کو ذرہ ساہلایا،لیکن
وہ اپنوں کے ہاتھوں خودزخمی نکلے،دوحہ ،استنبول کو کراہ کر آوازدی ،عرب لیگ
کو نیند سے جگایا،انہوں نے کہا ہم آرہے ہیں،اسلام آباد سے جکارتا اور ادھر
حسین کے عیسائی بیٹے بارک حسین اوباما کو چیخیں ماریں، کسی نے صرف مذمت کی
اور کسی نے جارح کی عالمی گہری سازشوں سے خائف ہو کر اسے حق بجانب قرار دیا
،غزہ نے دردوالم سہہ کر اپنے آپ مقابلے کی ٹھانی ،جرأت وبہادری دکھائی، ’’
توتیر آ زما ،ہم جگر آزمائیں‘‘ پر عمل کیا، حالات نے یکایک حیرت انگیز
پلٹاکھایا، جگر تیر پے غالب آگیا، اب وہی تیر صلح کی درخواستیں لیئے پھر
رہاہے،اور جگر کی شرطوں کے سامنے سر تسلیم خم ہے ، کم من فئۃ قلیلۃ غلبت
فئۃ کثیرۃ باذن اﷲ ۔ |
|