اجتماعی دعا

دعا ایک عظیم عبادت ہے،بلکہ عبادت کا مغز ہے قرآن وحدیث میں اس کی بہت ترغیب دی گئی ہے،شریعت اسلامیہ میں اس عبادت کو اتناقبولیت حاصل ہے کہ اس کا کوئی ایک مخصوص وقت نہیں بلکہ اسے مطلق رکھا گیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے: وإذا سألك عبادي عني فإني قريب أجيب دعوة الداع إذا دعان فليستجيبوا لي وليؤمنوا بي لعلهم يرشدون (سورۃ البقرۃ :186 )ترجمہ:" اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں (ف۳۳۳) دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے (ف۳۳۴) تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں ۔"(ترجمہ کنزالایمان)اس آیت مقدسہ میں اور اس کے علاوہ دیگرآیات میں دعاکے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہے اور جس چیز میں شریعت نے کوئی قید نہیں لگائی اس میں قید لگانا شریعت میں زیادتی ہے علامہ نظام الدین شاشی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :۔ذھب اصحابنا الی ان المطلق من کتاب اللہ تعالی اذا امکن العمل باطلاقہ فالزیادۃ علیہ بخبر الواحد والقیاس لایجوز۔۔۔۔۔بل المطلق یجری علی اطلاقہ۔(اصول الشاشی،فصل فی المطلق والمقید)یعنی:"ہمارے فقھاء کا مذہب یہ ہے کہ قرآن کے مطلق پر جب تک عمل ممکن ہو (تواس کے مطلق پر عمل ہوگا)پس خبر واحد اور قیاس کے ساتھ مطلقِ قرآن پر زیادتی نہیں کی جائے گی ۔۔۔۔۔بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوگا"۔اس اصول کی روشنی میں نص مذکورہ سے جس طرح انفرادی دعاکاثبوت ملتا ہے ایسے ہی اس میں اجتماعی دعاکاثبوت بھی موجودہے،جس کی تائید میں قرآن مجید میں مذکور دعاؤں کو دیکھا جاسکتا ہے جن میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے،مثلاً:ربنا اتنافی الدنیاحسنۃ ۔۔ربنااغفرلنایعنی :اے اللہ !ہم سب کودنیا میں بھلائی دے ۔۔۔اے ہمارے رب! ہم سب کو بخش دے ۔کئی مثالیں کلام الہی میں موجود ہیں،دعاکے علاوہ دین اسلام میں مختلف مقام پر مسلمانوں کے لیے اجتماعی عبادت کومشروع کیا گیا ہے،مثلاً:پانچ وقت کی نمازوں میں،نماز استسقاء میں،حج میں،تلاوت قرآن میں ،تعلیم اسلام میں،اجتماعی ذکر میں،نماز جنازہ میں،وغیرہ وغیرہ ،جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے اللہ تعالی اپنے بندوں کے مل کر عبادت کرنے کو پسند فرماتا ہے،اس پر کئی احادیث مبارکہ کتب حدیث میں موجود ہیں جس طرح کہ ذیل میں دی گئی احادیث مبارکہ سے یہ بات عیاں ہے،ارشاد نبویﷺہے:۔ عَنْ اَنَسٍ قَالَ قالَ رَسُوْلُ اﷲِ مَا اجْتَمَعَ ثَلاَثَةٌ بِدَعْوَةٍ قَطُّ اِلاَّ کَانَ حَقًّا عَلَی اﷲِ اَنْ لاَّ يَرُدَّ اَيْدِيَهُمْ .(رواه البيهقی فى شعب الايمان)ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :"جب بھی تین بندے جمع ہوکر دعا کریں تواللہ تعالی پر حق ہےکہ ان کے ہاتھوں کو خالی نہ لوٹائے"۔ اس حدیث کو غور سے پڑھئے اس میں بھی تین بندوں کی اجتماعی دعاکو بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث بیہقی شعب الایمان میں ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:۔خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات یوم من بعض حجرہ فدخل المسجد فاذا ھوبحلقتین احدٰھمایقرءون القراٰن ویدعون اللہ والاخری یتعلمون ویعلمون ۔۔۔۔(سنن ابن ماجہ،کتاب السنۃ،ص۲۱،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ،کراچی)یعنی:"اللہ کے رسول ﷺ ایک دن گھر سے نکل کر مسجد میں آئے،آپ ﷺ نے دیکھا مسجد میں دو حلقے لگے ہوئے ہیں ایک حلقے کے لوگ تلاوت قرآن اور دعا کر رہے ہیں اور دوسرے حلقے کے لوگ علم دین سیکھنے سکھانے میں مصروف ہیں۔"حدیث نبویﷺ ہے: ما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله و يتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة و غشيتهم الرحمة و حفتهم الملائكة و ذكرهم الله فيمن عنده۔(صحیح المسلم،کتاب الذکروالدعاءوالتوبۃ والاستغفار،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر)یعنی:"اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کچھ لوگ اللہ کی کتاب کی تلاوت اور اس کے درس کے لیےجب بھی جمع ہوتے ہیں ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور ان کو رحمت ڈھانپ لیتی ہےاور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں ،اور جو فرشتے اللہ کے پاس ہیں اللہ تعالی ان فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے۔"اسی طرح اجتماعی ذکرکرنا بھی ایک مشروع بلکہ افضل عمل ہے،حضور نبی کریمﷺفرماتے ہیں: إن لله تبارك وتعالى ملائكة سيارة فضلا يتبعون مجالس الذكر فإذا وجدوا مجلسا فيه ذكر قعدوا معهم۔۔۔۔۔۔(صحیح المسلم،کتاب الذکر والدعاء،باب فضل مجالس الذکر)یعنی:"بے شک اللہ تبارک وتعالی کے کچھ گشت کرنے والے فرشتے ہیں،جوذکر کی مجالس کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں،جب وہ ذکر کی کوئی مجلس دیکھتے ہیں توان ذاکرین کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کابیٹا فوت ہوگیا انہوں نے نماز جنازہ کی صفیں بناتے ہوئے اپنے غلام کریب سے فرمایا:يا كريب أنظر مااجتمع له الناس قال: فخرجت فإذا ناس قد اجتمعوا له فأخبرته فقال: تقول هم أربعون قلت: نعم، قال: أخرجوه فإنی سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " ما من رجل مسلم يموت فيقوم على جنازته أربعون رجلا لا يشركون بالله شيئا إلا شفعهم الله عز وجل فيه ۔(صحیح المسلم،کتاب الجنا ئز ،باب من صلی علیہ اربعون شفعوا فیہ)اے کریب دیکھو! کتنے لوگ جمع ہوئے ہیں؟میں نے نکل کرلوگوں کو دیکھااورانہیں بتایا،توانہوں نے کہا:کیاتم کہہ سکتے ہوکہ وہ چالیس ہوں گے؟میں نے کہاجی ہاں!انہوں نے کہا میت کو لاؤ!کیونکہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے سنا ہے:جس مسلمان میت پر چالیس مرد نماز جنازہ پڑھیں جنہوں نے اللہ تعالی کے ساتھ شرک نہ کیا ہو،تواللہ تعالی ان کی دعا اس میت کے حق میں قبول کرلیتاہے"۔اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ جس مسلمان میت پر چالیس (دوسری روایت کے مطابق سو)بندے دعاء بخشش کردیں تو اللہ ان کی اجتماعی دعاکی برکت سے اس میت کی بخشش فرما دیتاہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:۔أن رفع الصوت بالذكر ، حين ينصرف الناس من المكتوبة كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ابن عباس :كنت أعلم إذا انصرفوا بذلك،إذا سمعته۔(صحیح البخاری ،کتاب الصلوۃ،باب الذکر بعد الصلوۃ)یعنی:رسول اللہ ﷺکے عہد میں لوگوں کا معمول تھاکہ وہ فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد بلندآواز سے ذکر کرتے تھے،ابن عباس نے کہا جب میں اس ذکر کو سنتاتومیں جان لیتا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوچکےہیں"۔اس حدیث میں تمام نمازیوں کے نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کرنے کا تذکرہ موجود ہے،جس سے کم از کم اتنا ضرورمعلوم ہوتا ہے کہ نماز کے بعد کوئی دعایا مسنون ذکر اجتماعی صورت میں کرنا کوئی نیا کام نہیں بلکہ اس طرح کے کاموں کی کوئی صورت عہد رسالت مآب ﷺ میں موجود تھی،لہذا یہ کام کسی صورت بدعت نہیں ہوسکتا ۔اورکسی بھی ایسے عمل کو مسلمانوں میں رائج کرناجس سے انہیں رب کا قرب ملے اور کوئی مفسد مظنون نہ ہو،نہ اس کے خلاف کوئی دلیل موجود ہو،پھر لوگوں کی نیت بھی اچھی ہو توایساعمل مستحب ہےاور اس کے عاملین مستحق اجر ہیں،رسول اللہ ﷺ کاارشاد ہے:۔ من سنّ فی الاسلام سنـۃ حسنۃ فعل بھا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بھا و لا ینقص من اجورھم شئی و من سنّ فی الاسلام سنۃ سیئۃ فعمل بھا بعدہ کتب علیہ مثل وزر من عمل بھا و لا ینقص من اوزارھم شیئی۔(صحیح المسلم،کتاب العلم،باب من سن سنۃ حسنۃ۔۔۔)یعنی :"جس نے اسلام میں کسی نیک کام کی ابتداء کی اس کے بعد اس پر عمل کیا گیاتواس طریقہ پر عمل کرنے والوں کے ثواب برابر اس کے لیےثواب لکھاجائے گا،اور ان کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی،اور جس نے مسلمانوں میں کسی برے کام کی ابتداء کی اس کے بعد اس پر عمل کیا گیادوسر ےعمل کرنے والوں کے گناہ برابر اس کے نامہ اعمال میں گنا ہ لکھا جائے گااور ان کے گناہ میں بھی کوئی کمی نہیں آئے گی"۔ اہل حدیث مکتب فکر کے مفتی ،عبدالستارالحمادلکھتے ہیں :۔نماز کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت محل نظر ہے ۔۔۔۔۔۔۔اگر کوئی امام صاحب سے استدعاکرےتواس کی تعمیل میں اجتماعی دعا کی جاسکتی ہے،اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔(فتاوی اصحاب الحدیث،ج2، ص126 ) پتاچلاموصوف کے نذدیک اجتماعی دعا بدعت نہیں جس کی انہوں قدرے گنجائش بیان کی۔ دیوبندمکتب فکرکے جامعۃ العلوم الاسلامیۃ ،علامہ یوسف بنوری ٹاؤن کی ویب سائٹ بھی پر جواز کا فتوی موجود ہے ۔اورہمارے نذدیک تراویح میں چار رکعت کے بعد مل کر دعاء تراویح پڑھنا ایک مستحب عمل ہے جس پر مسلمان مستحق اجر ہےمگر ہم اسے فرض یاواجب نہیں کہتےاورہمارے نذدیک نہ پڑھنے والے پر کوئی گناہ نہیں،لیکن روکنے والایقناً نیکی سے دورکرنے والاہے اور اللہ کی یاد سےروکنا بدترین انسانی دشمن کا عمل ہے،اوراس غلط سوچ کوہوا دینا مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا اورفتنہ سازی ہے، جس سے باز آنا لازمی ہے ،دعاء تراویح کے متعلق خاتم المحققین علامہ شامی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں :۔لانہ یخیر بین الجلوس ذاکرااوساکتا۔(ردالمحتارعلی الدر المختار،کتاب الصلوۃ،مبحث صلوۃ التراویح،ج2،ص600 )یعنی:"چار رکعت کے بعد اختیار ہے کہ کوئی ذکر کرے یا خاموش رہے۔"لیکن ذکر کرنا ہی بہترہے۔مذکورہ دلائل کی روشنی میں واضح ہواکہ نماز تراویح کے بعد نمازیوں کا مل کر جہرِ متوسط یعنی درمیانی آواز میں دعاء تروایح پڑھنا جائز اور مستحب عمل ہے،تمام نمازی حضرات ثواب کی نیت سے جائز سمجھ کر کرتے ہیں،لہذالوگوں خصوصااس پرفتن دورمیں نیک عمل سے روکنے کے بجائے نیک اعمال کے قریب کیاجائے۔واللہ اعلم وصلی اللہ تعالی علیہ وعلی الہ وبارک وسلم
shaukat raz
About the Author: shaukat raz Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.

Ijtemai Dua - Find latest Urdu articles & Columns at Hamariweb.com. Read Ijtemai Dua and other miscellaneous Articles and Columns in Urdu & English. You can search this page as Ijtemai Dua.