امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر نفرت کے بادل

امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر نفرت کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ٹیکساس میں واقع ایک اہم فوجی چھاؤنی، فورٹ ہڈ، میں تعینات ایک فوجی افسر نے جمعرات پانچ نومبر کو فائرنگ کر کے 12افراد کو ہلا ک اور 30 سے زائد کو زخمی کردیا۔ اس واقعے کے فوراً بعد فوجی حکام نے مبینہ حملہ آور کا نام میجر ندال ملک حسن بتایا۔ جو امریکی قومیت رکھتے ہیں اور چھاؤنی کے ہسپتال سے منسلک ایک ماہر نفسیات ہیں۔ اس واقعے کے فوراً بعد دنیا بھر کے میڈیا پر ایک بار پھر مسلمانوں کا میڈیا ٹرائیل شروع کردیا گیا اور اسلام کو شدت پسند مذہب قرار دے کر اس کے پیروکاروں پر رکیک حملے کئے جانے لگے۔ امریکہ میں مسلمان اس واقعے کے بعد نائین الیون جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ امریکی صدر بارک اباما نے اس واقعے سے فوری نتائج نکالنے سے گریز کی پالیسی اپناتے ہوئے عوام سے صبر کی تلقین کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے کی تحقیق کی جارہی ہے اور واقعہ کے محرکات کے بارے میں پیش رفت جاری ہے۔ لیکن اس کے باوجود انٹرنیٹ پر اسلام، پیغمبر اسلام، اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہے۔

اس خبر کی تفصیل جاننے کے لئے جب میں نے نیٹ پر خبروں کا جائزہ لیا تو کئی ایسے تبصرے دیکھے جو مسلمانوں کی دل آزاری کا سامان لئے ہوئے تھے۔ اس واقعے کی آڑ میں بارک اوباما کی عراق اور افغانستان کی پالیسوں پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔ ابتدائی اطلاعات میں فوجی اڈے کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل رابرٹ کون نے بتایا کہ فائرنگ کا یہ واقعہ چھاؤنی کی اس عمارت میں پیش آیا جہاں فوجی افغانستان اور عراق میں تعیناتی کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ انھوں نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے اس بات کی یقین دہانی کر لی ہے کہ میجر حسن نے یہ کارروائی اکیلے ہی کی تاہم انھوں نے اس واقعہ کے محرکات کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا۔ پینٹاگون کے ترجمان جیف مورل نے کہا ہے کہ محرکات کے بارے میں کی جانے والی قیاس آرائیاں قبل از وقت ہیں کیونکہ ان کے بقول ہم خود ابھی تک اس واقعہ کے بہت کم حقائق سے آگاہ ہیں۔ اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ میجر حسن کی عمر 39 سال ہے۔ ان کے والدین فلسطین کے ایک گاؤں سے ہجرت کرنے کے بعد امریکہ میں آکر آباد ہوئے تھے۔ میجر حسن ریاست ورجینیا میں پیدا ہوئے۔ اور امریکی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ریاست کے میڈیکل بورڈ کے ریکارڈ کے مطابق اس نے 2003ء میں واشنگٹن ڈی سی میں فوج کے ایک میڈیکل سکول سے ڈگری حاصل کی تھی۔ فورٹ ہڈ امریکہ کی بڑی فوجی چھاؤنیوں میں سے ایک ہے جہاں تقریباً تین لاکھ فوجی اور سویلین کام کرتے ہیں جن کے ہزاروں رشتہ دار بھی یہیں رہائش پذیر ہیں۔

اس چھاؤنی کے 15ہزار فوجی ان دنوں امریکہ سے باہر فرائض انجام دے رہے ہیں اور یہاں سے باقاعدگی کے ساتھ فوجیوں کو افغانستان اور عراق بھی بھیجا جاتا ہے۔ میجر حسن ایک ماہر نفسیات ہیں۔ جن کی ذمہ داریوں میں ان امریکی فوجیوں کی بحالی شامل تھی۔ جو عراق اور افغانستان میں فوجی کاروائیوں کے بعد ذہنی صدمات سے دوچار تھے۔ ایک ماہر نفسیات علاج سے قبل اپنے مریضوں سے ان واقعات کی مکمل تفصیل لیتا ہے۔ جن سے اس مریض کا تعلق رہا ہے۔ امریکی جنگجوں نے عراق اور افغانستان میں جو مظالم ڈھائے ہیں۔ وہ اس قدر ہولناک ہیں کہ ان امریکیوں کو اب نارمل زندگی گزرنا مشکل ہوگیا ہے۔ میجر حسن بھی آئے دن ایسی داستان سنتے تھے۔ جو ان پر اثر انداز ہوئی۔وہ ڈاکٹر کے ساتھ ساتھ ایک انسان بھی تھے۔امریکہ نے مسلمانوں پر جو ظلم کئے ہیں، وہ عراق اور افغانستان میں نفرت کا ایسا بیج ہے۔ جس کا زہریلا پھل امریکہ کو کھانا پڑے گا۔ میجر حسن امریکی مظالم کے نتیجے میں پکنے والی فصل کا ایک دانہ ہے۔ ان پر یہ بھی دباﺅ تھا کہ انھیں بہت جلد افغانستان بھیجا جائے گا۔ امریکہ میں بہت سے فوجیوں نے عراق اور افغانستان میں خدمات ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی نوکریوں سے استعفیٰ دے دیئے ہیں۔ میجر حسن بھی اس بارے میں سوچ رہے تھے۔ افغانستان جانے کے بارے میں وہ اپنی ناپسندیگی کا اظہار کرچکے تھے۔ امریکہ، برطانیہ، اور یورپی ممالک میں عوام کی بہت بڑی تعداد اپنے حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ افغانستان اور عراق میں لڑی جانے والی جنگ کس کی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب ان حکمرانو ں کو اپنی عوام کے سوالوں کے جواب دینا مشکل ہوجائیں گے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو بھی ایک بار پھر سوچ لینا چاہئے کہ وہ اس ملک میں کس کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387526 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More