‘چینی کم ہے‘ کل تک عزیز ہم وطن
اس فقرے سے ایک فلم یا فلمی گیت کی حیثیت سے متعارف تھے ۔۔۔ لیکن آج یہ گیت
گنگناتے گنگناتے سچ مچ ہی یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ چینی کم ہے کہتے ہیں نہ کہ
الفاظ میں انقلابی قوت و تاثیر پائی جاتی ہے غالباً یہ اسی بات کا اثر ہے
کہ ہمارے ملک میں آج چینی کم ہے یا پھر شاید عوام الناس کو ‘شوگر فوبیا‘ سے
بچانے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی گئی ہے تاکہ لوگ چینی کا استعمال کم سے کم
کریں اور شوگر جیسے مرض سے جو کہ آج کل بہت عام ہو چکا ہے اس کے ممکنہ
امکانات سے عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ محفوظ رکھا جا سکے
کچھ لوگوں نے تو چینی کے بحران کے آغاز سے پہلے ہی چینی کا استعمال کم کر
دیا ہے بلکہ کچھ حضرات نے تو بالکل ہی ترک کیا ہوا ہے اس اعتبار سے سوچا
جائے تو چینی کی اس بچت کی وجہ سے چینی کی کمی کی بجائے کثرت ہونی چاہئیے
لیکن شاید چند مہربانوں کو اس ملک سے مٹھاس کا بالکل ہی فقدان مقصود ہے جو
چینی کم ہے چینی کم ہے کی پکار عام کی جا رہی ہے
جہاں بھی چینی کی خرید کے لئے چلے جائیں وہیں چینی کم ہے چینی کم ہے کم کیا
بلکہ ہے ہی نہیں دوکانوں میں یوٹیلٹی سٹور میں گھروں میں ہر جگہ چینی کم ہے
اب یہ دن بھی دیکھنا پڑیں گے کہ اپنے ہی ملک کی اجناس کے لئے اپنے ہی ہم
وطنوں کو ترسایا جائے گا یہ سب کیا ہے کہ ہر نیا دن کسی نہ کسی نئے بحران
کی نوید لے کر آتا ہے یہ کون لوگ ہیں جو کالی بھیڑوں کے روپ میں ہمارے
درمیان آگئی ہیں اور ہمیں کسی نہ کسی حیلے سے پریشانی و انتشار کا شکار
کرنے کے نئے سے نئے حربے آزما رہے ہیں
الحمد اللہ کہ ہماری سر زمین میں کسی چیز کی کمی نہیں ہمارے ملک میں افرادی
قوت بدرجہ اتم موجود ہے ذہانت و صلاحیت بھر پور ہے دولت کسی قسم کی دولت کی
کمی نہیں جبکہ ہمارے وطن کے باشندے محنتی و جفاکش بھی ہیں پھر کیا وجہ کے
ہم لوگ اپنے ملک کی مصنوعات و اجناس سے مستفید نہیں ہو سکتے کیوں چند لوگوں
کے لئے ہر قسم کی آسائشوں کے در وا ہیں اور کیوں اکثر لوگ زندگی کی بنیادی
ضروریات تک سے محروم ہیں
ہر نیا انتخاب ایک نئے انقلاب کے دعوے کرتا ہے لیکن انتخابات کے بعد بھی
حالات جوں کے توں رہتے ہیں بلکہ جوں کے توں کیا رہیں گے ان میں دن بدن مزید
اضافہ ہی رہتا ہے عوام پریشان اور حکمران خوش باش دکھائی دیتے ہیں جس لیڈر
پر ایک ایسے ملک کی ذمہ داری ہو کہ جس کے عوام کی نہ جان محفوظ رہی نہ مال
اور نہ ہی عزت وہ کیسے سکون اور اطمینان سے خوشیاں منا سکتا ہے کہ ایک فرد
کے ساتھ ہونے والے زیادتی کے متعلق بھی اس حکمران یا لیڈر کو ہی جواب دہ
ہونا ہوگا جس کی زیر قیادت یا جس کی حکومت میں کسی کے ساتھ ناحق ظلم ہو
جائے کوئی بھوکہ رہ جائے یا جس کی معاشرتی سماجی یا بنیادی ضروریات پوری نہ
ہو پائیں تو کوئی کیسے سکون کی نیند سو ستا ہے جبکہ یہاں تو صورت حال بالکل
ہی متضاد ہے ۔۔۔ کیوں ؟
بجلی پانی گیس کے بعد اب اشیائے خورد و نوش بھی بحران کا شکار ہے ذہنی
پریشانیاں جو بم دھماکوں کے باعث سر پر ہمی وقت سوار رہتی ہیں ان سے قطع
نظر اب رفتہ رفتہ عوام کو کھانے پینے جیسی بنیادی ضروریات کا بحران برداشت
کرنے کی عادت ڈالنے کی طرف بھی لایا جا رہا ہے
کیا ان ذخیرہ اندوزوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں جو اپنے ذاتی فائدے کے لئے
اپنی جیبیں نوٹوں سے بھرنے کے لئے اپنے ہموطنوں کو اپنے ہی ملک کی پیداوار
سے محروم رکھنا چاہتے ہیں یا تو اسقدر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں کہ غریب
آدمی کی پہنچ سے اتنی دور ہوتی ہیں کہ وہ پوری زندگی ان چیزوں کے لئے ترستے
ہی رہتے ہیں کوئی انہیں کیوں نہیں پوچھتا کیا پوچھنے والے خود بھی ان کے
ساتھ شامل تو نہیں کہ اپنا اختیار اپنی آنکھیں اور اپنی زبان بند رکھ کر
اپنا کمیشن بھی سمیٹتے رہیں عوام بھوکی مرتی ہے تو مرے ہم تو زندگی کے مزے
لوٹتے رہیں ہم نے کوئی سب کا ٹھیکہ تو نہیں لے رکھا
آخر کب تک ہم اپنے ملک میں رونما ہونے والے عجیب و غریب حالات و واقعات کی
سرخیاں اخبارات میں پڑھ دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہیں گے آخر وہ انقلاب کب آئے
گا جس کے لئے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دیں اس خواب کی تعبیر کب تکمیل
پائے گی جس کا خواب مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے
دیکھا تھا پاکستان ترقی کی اس منزل پر کب پہنچے گا جس کے لئے محمد علی جناح
رحمتہ اللہ علیہ نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو متحد و منظم کیا تھا
آخر کہاں ہے وہ منزل جس کو پانے کے لئے یہ کارواں روبہ سفر ہوا تھا
آخر ہم کب تک بیدار نہ ہوں گے کب تک محض سو کر ہی آزادی کا خواب دیکھیں گے
آزادی کے خواب دیکھنے کے لئے جس نیند کی ضرورت ہے وہ بیداری کی نیند ہے اور
بیداری کی یہ نیند ہمیں اس وقت تک میسر نہیں آ سکتی جب تک ہم خود کو عملی
طور پر بیدار ہونے کے لئے تیار نہ کر لیں اور یہ عملی بیداری اس وقت تک عمل
میں نہیں لائی جا سکتی جب تک کہ ہمارے حکمران ملک میں اسلامی معاشرے کے وہ
سنہری قوانین جن کی بنیاد عدل و مساوات پر قائم ہے عمل میں نہ آ جائے اور
اس کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ خود عوام کو بھی اپنے نظریات اور اعما ل میں
تغیر لانا ہوگا کہ مل کر چلیں گے مل کر سوچیں گے اور مل کر عمل کریں گے تو
یہ کارواں ایک نہ ایک دن اپنی منزل ضرور حاصل کر کے رہے گا (انشاءاللہ)
اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں سے در گزر فرما کر ہمیں اعمال صالح پر چلنے اور
قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ہماری مدد اور رہنمائی فرماتے ہوئے ہمارے
نیک مقاصد کی تکمیل میں ہمیں فتح و نصرت نصیب فرمائے (آمین) |