غلامی انسانی اقدار و میعار کو بدل دیا
کرتی ہے یہ سنا تھا اور دیکھ بھی لیا ہے کہ غلامی کیا کیا کرتی ہے ۔۔۔غلامی
کئی طرح کی ہوتی ہے البتہ اس کی دو بڑی اہم اقسام ہیں جن میں سے ایک اغیار
کی غلامی اور دوسرے خواہشات کی ۔۔۔احساس دونو ں میں مفقود رہتا ہے اور جب
انسان سے احساس چھن جائے تو وہ انسان نہیں رہتا حیوان کی بد ترین شکل
اختیار کر لیتا ہے ۔ اس لئے کے حیوان تو حیوان ہوتا ہے اس میں اﷲ رب العزت
نے ایک مخصوص’’ چپ ‘‘فکس کر رکھی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ اپنی زندگی گزارتا
ہے جب کہ انسان کی شکل میں پیدا ہونے کے بعدحیوانیت کا یہ روپ دھارنے والا
کسی بھی وقت، کہیں بھی ،کیا کر دے ،کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔غلامی جب اسے
اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو وہ پوری طرح اپنے محور سے بھٹک جاتا ہے اسے اپنی
زات کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا اور وہ دوسروں کے حقوق و احساسات کو محسوس
کر نے کی حس سے ہی محروم ہوجاتا ہے ۔اور جب غلامی من حیث القوم کسی کو اپنی
پلیٹ میں لے تو مجموعی طور پر اس قوم کے اجتماعی میعار بدل جاتے ہیں ۔
اچھائی کی جگہ برائی اور حق کی جگہ باطل لے لیتا ہے ۔متقی و پرہزگار کوبرا
سا منہ بنا کر ۔۔۔ شریف کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے اور جو جتنا بڑا نوسر
باز ،مکار و دھوکے باز ہے وہ اتنا ہی صاحب تکریم ٹھہرتا ہے۔رشتہ صرف صاحب
دولت کے ساتھ زاتی مفادات کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے اور سیرت وکردار مذاق
بن کے رہ جاتے ہیں۔اپنے مفادات کے لئے انسانی رشتوں کا تقدس پامال کرنا
خصوصیت سمجھا جاتا ہے ۔یتیم و بیواؤں کا حق نوچنا اعزاز سمجھا جاتا ہے اور
یوں وہ معاشرہ انسانی اقدارکی چلتی پھرتی لاش بن جاتا ہے اور جب کسی معاشرے
میں ہر طرف لالچ ،حرس،بے حسی وبے غیرتی کے سائے منڈلاتے ہوں کہ ہر شریف
النفس بھی مصنوعی عزت کی خاطر ایسی راہ پہ چلنے پر مجبور ہو جائے انسانیت
حیوانیت سے بد ترشکل اختیار کرلے تو پھر اس بد کردار و بے راہ روی کی شکار
قوم پر کوئی بھروسہ نہیں کر سکتا ۔کیوں کے کردار سے عاری ایسی قوم کی مثال
اس دیوار کی سی ہو جاتی ہے جس کی ہر اینٹ اس کی طاقت بننے کے بجائے اس
دیوار پر ہی بوجھ بن جایا کرتی ہے ۔اور یہ سب کچھ غلامی کو زہنی طور پر
تسلیم کرنے کے باعث ہوتا ہے ۔اور آج ہماری قوم واقعی غلامی کے اس دھانے پہ
کھڑی ہے جہاں یہ سب ہو رہا ہے ۔۔۔کوئی مانے ناں مانے۔۔۔جس کی دلیل ۔۔۔صدیوں
سے اغیار سے قومی حقوق کی بازیابی کے لئے قربانیاں دینے والوں کو غیر کا
آلہ کار کہا جاتا ہے اور جو الالعلان غلامی کی وقالت کرتے ہیں وہ مہذب
کہلائے جاتے ہیں۔۔۔جنہوں نے اپنا سب کچھ تیاگ دیا وہ ایجنٹ اور جو چھ عشروں
سے آزادی کے نام پر ’’جس سے ان کا دور کا واسطہ نہیں‘‘ عیاشیاں کرنے والوں
کو بڑے بڑے قومی القابات سے نوازا جاتا ہے ۔۔۔اور یہی نہیں بلکہ بڑے بڑے
نام نہاد آزادی پسندوں کے ایمان بھی ان کے پروٹوکول کو دیکھ کر جھول جاتے
ہیں اور ان گماشتوں کے ساتھ ایک فوٹو بنوانے کو اعزازسمجھتے ہیں ۔کبھی صاف
لفظوں میں ان کے کردار پر بات نہیں کرتے۔۔۔بظاہر قومی اتحادکے چمپئن لیکن
عملاً تقسیم کے زمہ دار ہوتے ہیں ۔۔۔حتیٰ کے انسانی آزادیوں و حقوق کے سب
سے بڑے علمبرادروں کے ہاتھوں میں انسانیت کا خون ملتا ہے ۔جو یہ ظاہر کرتا
ہے کہ غلامی ہمارے اندر کس سطح تک پہنچ چکی ہے ۔
ہم نے سنا ہے انسانی ایمان کے تین اہم ترین دراجات ہیں ایک وہ کہ جب کہیں
ظلم و ناانصافی دکھے تو اسے طاقت سے روکنے کے لئے میدان میں آنا۔۔۔دوسرا وہ
کہ اگر طاقت سے روکنے کی ہمت نہیں تو زبان سے روکنے کی کوشش کرنا ۔۔۔اور
ایمان کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر کچھ بھی کرنے کی جرات نہیں تو کم از کم
اس ناانصافی و ظلم کو دل میں برا جانے ،محسوس کرے ۔۔۔دو کروڑ انسانوں کے حق
آزادی سمیت تمام بنیادی حقوق غصب ہو چکے ہیں اور غلامی کے اثرات کے باعث
عوام نے ان حقوق کی بازیابی کی جدوجہد کی سمت کو ہی بدل دیا ہے اور اب وہ
اس جد و جہد کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے لگے
ہیں اور ہر کوئی اپنے آپ کو خود کے بھائی سے غیر محفوظ سمجھتا ہے اور وو
کام جو غاصب قوتوں کا تھا اسے ہم نے خود ہی سنبھال لیا ہے ۔۔۔کوئی مانے ناں
مانے ۔۔۔ہر دوسرے شخص کا ہاتھ اور نظر دوسرے کے حق پر ہے اور اپنے حقوق و
فرائض کی اسے کوئی خبر نہیں ۔۔۔اور وہ تحریک آزادی جسے قوم نے اپنے خون سے
سینچا تھا ہچکولے کھاتی نظر آتی ہے اورزیادہ تر لوگ اب اسے محض انٹر نیٹ پر
جاری رکھنے کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔کچھ بھی ہو جائے اخبار میں ایک بیان اور
پھر اس کی کٹنگ فیس بک پر لگا دی جائے تو بس زمہ داری سے ’’مکت‘‘ ہو گئے
۔۔۔ملک کا پانی فروخت ہو گیا ۔۔اخبار میں مذمت ۔۔۔ملک تقسیم ہو گیا ۔۔۔اخبار
میں مذمت ۔۔۔ملک کا قضیہ اقوام متحدہ جیسے دنیا کے بڑے ادارے سے ہوتے ہوئے
گلی محلے میں پہنچا ۔۔۔مذمت کر دی ۔۔۔ایل او سی پر کسی بھی قسم کی تعمیر
بین الاقوامی قانون کے مطابق ممنوع ہے پھر بھی دو ممالک اپنے طور پر کچھ
ناں کچھ کرتے رہے تو۔۔۔فقط اخبار میں مذمت ۔۔۔حتیٰ کے لائن آف کنٹرول پر
بھاڑ لگا دی گئی تو بھی دھرتی پتروں نے چند دن اخبارات میں مذمت اور پھر
اسے فیس بک پر پوسٹ کرنے کو ہی قومی زمہ داری سمجھا ۔۔۔جب بھارت نے دیوار
چین کی طرح لائن آف کنٹرول پر ’’ دیوار ہند ‘‘بنانے کا کنٹریکٹ کمپنیوں
کودیا تو مادر وطن کے آزادی پسندوں اور عیاش پسندوں کے بڑے بڑے بڑھکیلے
بیانات اخبارا ت میں شائع ہوئے اور پھر فیس بک کی زینت بنے ۔۔۔ہم ہندوستان
کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ۔۔۔ہم دیوار برلن کی طرح دیوار ہند کوگرا دیں
گے ۔۔۔۔وغیرہ وغیرہ اور پھر چند روز بعد ہی بھول بھال کر اپنے اپنے کاروبار
زندگی میں مشغول ہو گئے ۔۔۔اور بھارت کو کہا کے اپ ’’ٹنشن ناں لیں ‘‘ یہ
ہمارا سٹائل ہے۔۔۔ہمارا یمان اب کچھ اس سطح پر ہے کہ پہلے درجے پر ہم اپنی
طرف سے ایک اخباری بیان جاری کریں گے اور پھرہم خود اس بیان کی کٹنگ فیس بک
پر پوسٹ کرتے ہیں یا اخبار کا چیف ایڈیٹر ’’اگر اسے ہم سے کچھ اشتہار وغیرہ
ملنے کی توقع ہے ‘‘خود فیس بک پر پوسٹ کر دے گا ۔۔۔واہ ۔۔۔اور اگر اخباری
بیان لگانے یاپوسٹ کرنے کی جرات نہیں تو کسی بھی پوسٹ یا اخباری بیان پر
کمنٹس لکھ دیں گے ۔۔۔ایمان کا دوسرا درجہ ۔۔۔اور کچھ بھی نہیں کر سکتے تو
اس پوسٹ کو ’’لائیک ‘‘ کر دیں گے ۔۔۔یہ ہمارے ایمان کا تیسرا اور آخری درجہ
بن چکاہے ۔اﷲ ہم پر رحم کرے ۔۔۔آمین |