پاکستان کی ایک کوہ پیما ٹیم نے دنیا کی دوسری بلند ترین
چوٹی کے ٹو کو پہلی مرتبہ سر کر لیا- بلند ترین چوٹی مقامی وقت کے مطابق
دوپہر ڈھائی بجے سر کی گئی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ کے ٹو کو سر کرنے کے لیے
ایک ایسی کوہ پیما ٹیم روانہ کی گئی جس کے تمام ارکان پاکستانی تھے۔
کامیابی سے ہمکنار ہونے والی اس کوہ پیماؤں کی ٹیم میں حسن جان، علی درانی،
رحمت اللہ بیگ، غلام مہدی، علی اور محمد صادق شامل تھے ۔
|
|
ٹیم میں شامل کوہ پیماؤں کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقوں سدپارہ، شگر اور
ہوشے سے تھا۔
اس ٹیم کے سربراہ ہوشے کے مشہور کوہ پیما اور گائیڈ محمد تقی تھے جو سپنتک
اور بروڈ پیک یا کے تھری سر کر چکے ہیں۔ حسن جان کا تعلق بھی ہوشے کے علاقے
سے ہے وہ نانگا بربت، چہار کوزا، گشیر برم ٹو، اور بروڈ پیک سر کر چکے ہیں۔
دنیا میں پہلی بار سنہ 1954 میں اٹلی کے کوہ پیماؤں نے اس چوٹی کو سر کیا
تھا-
کےٹو کی اونچائی 8611 میٹر ہے اور یہ پاکستان کی سب اونچی چوٹی ہے جو
پاکستان چین کی سرحد پر قراقرم کے بڑے کوہستانی سلسلے میں واقع ہے۔
اس چوٹی کو سر کرنا صرف آدھی کامیابی ہوتی ہے کیونکہ چوٹی پر چڑھنے کے
علاوہ اس سے نیچے اترتے وقت بھی کئی کوہ پیما اپنی جان گنوا چکے ہیں۔
|
|
کےٹو کو بلتی زبان میں ’چوگوری‘ بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب پہاڑوں کا راجہ
ہوتا ہے۔
چھ ہزار میٹر تک تو اس پہاڑ پر چٹانیں واقع ہیں جبکہ اس کے بعد برف ہی برف
ہے۔ |