ماہ رمضان اسلام کے عالمگیر
پیغام امن کی ایک دعوت لیکر صبر و برداشت کے عظیم پیغام کیساتھ ، مسلم امہ
کو دیا گیا کہ یہ تحفہ خداوندی ہے ، جو اس سے پہلے بھی تمام امتوں کو دیا
گیا تھا ، صوم ، امت محمدیہ ﷺ سے پہلے بھی فرض کئے گئے تھے ، اس لئے یہ
عظیم مہینہ مسلمانوں کیلئے مقرر کیا گیا تو اس کا مقصد ،اپنے ایمان کی
پختگی کیلئے بھر پور فائدہ اٹھانا تھا ۔گلی محلوں، گھروں، چینلوں میں قرآن
کریم کی تلاوتیں ، نعتیں اور نصیحتیں ، اسلام کا آفاقی پیغام لیکر جانے
والے مسلم ، اعتکاف میں بیٹھنے والے ،مومن دراصل ماہ رمضان کی برکتوں کے
فیض کو ٓاگے بڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔
رمضان المبارک کے عظیم برداشت اور امن کے پیغام پر مسلم امہ کے کئی اسلامی
ممالک نے قطعی طور پر عمل نہیں کیا ، مسلمانوں نے اسلام کے نام رمضان کو ،
ماہ خون آشام اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر بنا دیا۔اسلام کے نام پر نام نہاد
اسلامی بنیاد پرستوں نے معصوم بے گناہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا
، ان پر رمضان المبارک کی برکتیں نازل نہ ہوسکیں ، ان پر سوائے گولہ بارود
، دھماکوں اور لاشوں کے کوئی اور تحفہ ماہ رمضان میں نہ مل سکا ۔ جہاں ایک
طرف مسلمان آپس میں فرقوں ، مسالک اور اختلافات کی بنیاد پر لڑتے رہے تو ان
کی نا اتفاقی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے صہیونی ازم کے پیروکاروں نے
مسلمانوں پر قیامت صغری ڈھا دی۔کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس سے کسی کا جگر
گوشہ لحد میں نہ اترا ہو۔کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں نوحہ نہ ہوا ہو ۔لیکن
مسلم حکمرانوں کی غیرت اور اسلامی حمیت خاکستر ہوئی اور لب سل گئے کہ ان کے
خلاف مذمت تک جاری کرنے پر ٹانگیں کانپی جاتی رہی۔
فلسطین ، خون میں تر ہوگیا ، جنازوں پر جنازے اٹھتے رہے ، کفن کم پڑ گئے ،
گھر اجڑ گئے ۔سہاگنیں بیوہ ہوگئیں، بچے یتیم ہوگئے ، مکانات ، بلڈنگیں
مسمار ہوگئیں ، مٹھی بھر یہودیوں نے اپنے معاشی جال و شکنجے میں پھنسے ہوئے
نام نہاد مسلم حکمرانوں کو بغیر لڑے شکست فاش دے ڈالی۔لیکن غزہ کے مسلمان
کم تعداد ہوتے ہوئے بھی جیت گئے ، انھوں نے میزائیلوں کا جواب راکٹوں سے
دیا ، بمباری کا جواب ، پتھر کی اینٹوں سے دیا ۔ پہاڑی پر بیٹھے یہودیوں کی
پر مسرت تالیوں کا جواب ، نعرہ حق سے دیا ، لیکن اپنا سر امریکہ اور
اسرائیل اور اقوام متحدہ کے سامنے نہیں جھکایا ۔ ہمت و استقلال کی وہ عظیم
مثال قائم کی ، جیسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ کیا ہوا کہ مسلم
حکمران مجرمانہ خاموشی کے ساتھ ، عیش و عشرت میں مصروف رہے ، کیا ہوا کہ ان
کے کانوں میں ماؤں اور بچوں کی چیخ و پکار کے بجائے، ساز و سازندوں اور
طوائفوں کے گھنگرؤں کی جھنکار گونجتی رہی ، غزہ کے مومنین نے ثابت کردیا کہ
جنگ محض ہتھیاروں سے ہی نہیں ہمت و حوصلے سے بھی لڑی جاتی ہے۔
پاکستان میں اسی ہمت کی مثال آئی ڈی پیز نے قائم کی ، ایک جانب ان کے اپنے
دشمن ہوئے تو دوسری جانب پرائے ان کی جانوں پر گولے بارود کے ساتھ قیامت
ڈھا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے اس طوفان میں ان کے ساتھ صرف پاکستان کی فوج
کھڑی ہے جو انھیں دہشت گردوں سے بھی نجات دلا رہی ہے تو دوسری جانب انھیں
ضروریات زندگی کی تمام تر سہولیات دینے کیلئے تن من دھن کی بازی لگائے ہوئے
ہیں۔
لیکن اس ماہ رمضان میں ہمارے سیاست دانوں نے کیا پیغام دیا ، جو رمضان
المبارک جیسے مہینے کے انقلاب کے پیغام کو نہ اپنا سکا وہ قوم میں کہاں سے
انقلاب لائے گا ، ان کی حب الوطنی اور اسلام سے محبت کیا ہوئی کہ دنیا بھر
میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے کے بجائے اپنے اقتدار کیلئے
ملک میں انتشار کو فروغ دینے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں۔
عالم اسلام کے لئے رمضان کا مہینہ وحدت کا ہوتا ہے ، رمضان کا آخری جمعہ
یوم القدس یا یوم اسلام کے نام اسی منایا جاتا ہے تاکہ دنیا عالم کو اپنی
یکجہتی کا پیغام پہنچا سکے۔جس طرح اسرائیل کا وجود اور فلسطین پر ظالمانہ
قبضہ حقیقت میں اس دور کی بڑی طاقتوں ، امریکہ ، نرطانیہ اور دوسرے یورپی
ممالک کی سازشوں اور اسلام مخالف رویوں کا کاشاخصانہ ہے۔
غاضب صہیونی ریاست کے ناجائز قیام کی طرح پاکستان میں بھی بدقسمتی سے دہشت
گردوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کی ہوئی ہے ۔ کراچی ہو یا پشاور ،یا پھر
لاہور ، کون سا صوبائی دارالحکومت محفوظ ہے بھتہ خوروں سے ، ٹارگٹ کلرز سے
، اغوا برائے تاوان سے ، اور انصاف کی عدم فراہمی سے۔
ماہ رمضان کا یکسر اثر پاکستان سمیت کسی بھی اسلامی مملکت میں نظر نہیں آتا
، جو برکتیں ، رحمتیں ، رمضان کے ساتھ جڑی تھیں ، وہ دور دور تک نظر نہیں
آئیں ، صرف مسلم امہ کا خون ، صرف خون اور دہشت گردی کا ہی دور دورہ رہا۔
آئیے آپ بھی سب ملکر دعا بھی کریں اور اس بات کیلئے عملی جدوجہد بھی کریں
کہ سب سے پہلے ہم ان عناصر کو مسترد کریں گے جو ، اسلام کے نام پر ہمارے
مذہبی جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ آئیے آپ بھی اس بات کا عہد کریں کہ
لسانیت ، قوم پرستی کے نام ہمیں تقسیم در تقسیم کرنے والوں کی لچھے دار
باتوں میں نہیں آئیں گے۔ اگر ہمیں اپنا آئندہ رمضان با برکت اور رحمتوں
والا درکار ہے تو ہمیں رمضان المبارک کے جانے کے بعد اپنا محاسبہ خود کرنا
ہوگا کہ کیا ہم نے رمضان میں اپنے دین کے لئے کوئی خدمت انجام دی۔ کسی غریب
کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ امت واحدہ کا تصور اپنی ذات میں پیدا کیا ، مسلم امہ
کا اجتماعی پیغام گلی گلی پہنچانے کیلئے عملی اقدامات کیلئے اپنی ذات میں
انقلاب پیدا کرنے کا عہد کیا ۔
اگر ہم صرف چند لمحوں کیلئے یہ سوچیں کہ اگر چین اور بھارت کی طرح ہمارے
اوپر بھی ایسے لوگ مسلط ہوجائیں کہ ہمیں کوئی روزہ نہ رکھنے دے تو کیا پھر
خود میں تبدیلی لائیں گے۔ یا پھر عراق ، شام ، لیبا ، مصر ، ترکی کی طرح
خود کو گروہوں میں بانٹ لیں اور ذلیل و رسوا ہوں تب ہوش آئے گا۔ یا پھر
جہاں جہاں مسلمانوں کا جینا یہودیوں نے حرام کردیا ہے تب جا کر ہم مسلمان
بنیں گے ۔ اگر ہم میں کوئی تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں اور ہم سوچ و
فکر سے بانجھ ہیں تو ایک کیا بارہ مہینے کا رمضان بھی ، کیسی میں تبدیلی
کہاں سے پیدا ہوگی۔
۔ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے اگر ہم خود میں تبدیلی نہیں لائیں گے تو ہم پر
جابر و ظالم مسلط کردئیے جائیں گے اور ہمارے آہ و بکا پر کوئی ساتھ نہیں
دیگا ، کیونکہ جب قیامت برپا ہوتی ہے تو کوئی اپنا نہیں ہوتا۔ |