اے ضعفاء کے ربّ!
(محمد فیصل شہزاد, karachi)
ذہن و دل ماؤف ہیں.... کیا لکھا
جائے؟ ....نوحے،ماتم،مرثیے؟!....مگر یہ ہماری روایت نہیں.... ہماری روایت
تو سرفروشی ہے.... سر پر کفن باندھ کر ظالموں سے ٹکرا جانا ہے....ایک مظلوم
مسلمان کی مدد کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینا ہے.... لیکن یہ پرانے
وقتوں کے قصے ہوئے.... اب تو ہمیں تیر وتفنگ سب بھول گئے.... بس آنسو بہاتے
ہوئے اپنے شہداءکے لاشے اٹھاتے ہیں.... قلم تھامے مرثیے تحریر کرتے ہیں....
یازیادہ سے زیادہ جاہل عورتوں کی طرح نوحے کرتے ہوئے دشمنوں کو کوستے ہیں!!
اب تو یوں لگتا ہے کہ دنیا بھر کی بلاؤں اور آفتوں نے صرف مسلمانوں کے گھر
دیکھ لیے ہیں۔ ہر روزصبح اپنے جلو میں ایک نئی قیامت لیے طلوع ہوتی ہے، اور
یہ ساری قیامتیں مسلم امہ پر ہی اترتی ہیں۔کس کس کا دکھڑا رویا جائے؟ مشرقِ
وسطیٰ کے داغ داغ سینے پر پہلے عراق،مصر، شام اور اب فلسطین کا تازہ المیہ
تو حساس دلوں کو خون کے آنسو رلا رہا ہے۔ صیہونیوں نے عین رمضان کے مہینے
میں غزہ کے نہتے شہریوں پر آگ و خون کی بارش کر دی اور دنیا حسبِ معمول
تماشا دیکھتی رہی.... چند روایتی بیانات اور بس!اور ویسے بھی جب فٹبال کا
عالمی سحر انگیز میلہ سجا ہو، کھیل کے میدان میں ہار جیت پر تماشائی جان سے
گزر رہے ہوں تو بھلا کون اِدھر ادھر وقت خراب کرے؟ ایسے میں اگر کہیں کوئی
طالع آزما مظلوم مسلمانوں کو ہی فٹبال بنا کر جوتی کی نوک پر رکھ رہا ہو،
ان کا شکار کھیل رہا ہو،تو ان کی بلا سے.... مسلمان ان کے نزدیک انسان ہیں
بھی کہاں؟ بلکہ شاید جانور کے برابر بھی نہیں!ورنہ کتے ،بلی،بندروں کے حقوق
کے لیے تو آج کا ’مہذب‘ انسان آنسو بھی بہاتا ہے اور لاکھوں ڈالر خرچ کر کے
ملٹی نیشنل این جی اوز بھی بناتا ہے، لیکن مسلمان برما کا ہو یا افغانستان
کا، عراق شام کا ہو یا پھر فلسطین کا،ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بھیڑ
بکریوں کی طرح ان کو ذبح کر دیں، زندہ جلا دیں یا بموں سے ان کے جسموں کے
ٹکڑے کر دیں، کوئی رونے والا نہیں ہے۔ اور یہ تو غیر ہیں، خود کروڑوں
مسلمان اپنے مظلوم بھائیوں پر ظلم و ستم کی انتہا پر سنگدلانہ خاموشی
اختیار کیے اپنے روزمرہ معمولات زندگی میں گم ہیں۔ ذرا تھوڑی دیر کے لیے
تصور تو کیجیے کہ ہمارے معصوم بچوں ، بوڑھوں اور خواتین کو گھر بیٹھے راکٹ
مار کر زندہ جلا دیا جائے تو سوچیے ہم پر کیا گزرے گی؟یہی ہو رہا ہے اس وقت
غزہ میں.... جہاں خون آشام اسرائیل نے صرف پندرہ دنوں میں درندگی اور
بہیمیت کا اپنا سابقہ ریکارڈ خود ہی توڑ دیا ہے....تادمِ تحریرغزہ کے
بدنصیب خطے میں 1500فلسطینی شہید اور ہزاروں شدید زخمی ہوچکے....آج کل
اخبارات اور انٹرنیٹ پران مظالم کی منہ بولتی ایسی ایسی انسانیت سوز
تصویریں اور ویڈیوز آ رہی ہیں کہ پتھر دل آدمی بھی ہوش و حواس قائم نہ رکھ
سکے.... معصوم بچوں کے ٹکڑے ٹکڑے بدن....سربریدہ لاشیں....روتی چلاتی مائیں....لیکن
شاید یہ مناظر ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں رہے.... پچھلے چھ برسوں میں یہ
اہلِ غزہ پر تیسری بار آتش و آہن کی بارش ہوئی ہے.... پہلے بھی ہم نے سب
کچھ دیکھا، اور سکون سے جیتے رہے.... ابھی بھی زیادہ سے زیادہ کیا ہو گا....
خون آشام اسرائیل جب تک جی چاہے گا، اُن کے لہو سے اپنی پیاس بجھائے گا....
اور پھر چند مہینوں یا برسوں کا وقفہ دے گا تا کہ اگلی نسل پھر اس کو اپنے
خون کا خراج دینے کے لیے تیار ہو جائے....
یہ سب کچھ اپنی جگہ، فلسطین کے آس پاس 26عرب ریاستوں کے بے حس حکمرانوں کا
مخنث پن بھی اپنی جگہ ، یہ بھی تسلیم کہ اہلِ غزہ ظالم صیہونیوںکے مقابلے
میں تعداد میں تھوڑے اور اسلحہ و جنگی ٹیکنالوجی میں کئی دہائیاں پیچھے
ہیں....مگر اُن کی بہادری،ہمت اور بے جگری کی بہرحال داد دیجیے کہ اگر
سینکڑوں نہتے مسلمان شہید ہو کر اللہ میاں کے پاس اعلیٰ درجات پا چکے....
تو اِن نہتے مسلمانوں نے بھی محض ایمان کی طاقت پرساٹھ ستر صیہونی جہنم
واصل کر ہی دیے.... اگرسینکڑوں مظلوم مسلمان شدید زخمی ہیں جن کو چاروں طرف
موجود اسلامی ممالک اپنی سرحدوں میں داخل بھی نہیں ہونے دے رہے تو ....
فلسطینی نوجوانوں نے بھی کئی ناپاک صیہونی فوجیوں کو زندگی بھر کے لیے
معذور کر دیا ہے....اگر مسلمان مائیں رو رہی ہیں تواِن ماؤں کے لاڈلوں نے
یہودیوں کی عورتوں کوبھی مکہ کی مشرک عورتوں کی طرح سر پر مٹی ڈالنے پر
مجبور کر دیا ہے.... ہاں مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا ہے.... شاباش ہے
....مگر رونا تو خود اپنے اوپر اور ساری مسلم امہ پر ہے.... پیارے نبی صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم تو فرما رہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں.... ایک عضو
کو تکلیف ہو تو سارا جسم تکلیف میں ہوتا ہے.... مگر اس حدیث کی روشنی میں
ہمیں دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں!.... وہی بریانی تکے....
وہی نفیس پوشاک....وہی ہنسی مذاق.... ہاں جب ضمیر زیادہ ہی کچوکے مارتا ہے
تو.... فیس بک پر کسی شہید فلسطینی بچے کی تصویر شیئر کر دیتے ہیں.... کوئی
ایک دردانگیز کالم لکھ لیتے ہیں.... یہودیوں کو گالیاں دے لیتے ہیں اور
بس!....کیا یہ مومنوں کے کام ہیں؟.... اگر ایسے ہی ہم عاجز ہیں.... کچھ
نہیں کر سکتے تو کم ازکم اتنی غیرت تو رکھتے کہ ان کی چیزوں کا بائیکاٹ ہی
کر دیتے.... لیکن ہمارا تو کھانا ہضم نہیں ہوتا اگر پیپسی نہ پئیں.... پیٹ
نہیں بھرتا اگر’ کے ایف سی‘ کے برگر سے شوق نہ کریں.... اس لحاظ سے ہم سے
اچھے تو وہ یورپی عوام ہیں.... جنہوںنے نہ صرف مسلمانوں کے شانہ بشانہ
احتجاج میں حصہ لیا بلکہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ بھی کیا!
یہ سب جو لکھا یہ اس قوم کے نوجوانوں کے لیے ہے.... جنہیں اب بھی کرکٹ اور
اداکاروں سے فرصت نہیں ہے۔ خواتین توشرعاً اس کی مکلف ہی نہیں....ہاںوہ
خواتین جو یہ پڑھ رہی ہیں، وہ جو کر سکتی ہیں، وہ تو کریں .... ان کی
مصنوعات کا بائیکاٹ کریں....روزانہ دو رکعت صلوة الحاجت پڑھ کر اپنے مسلمان
بھائی بہنوں کے لیے رو رو کر دعائیں کیجیے.... اسی طرح ان ظالم کافروں کے
لیے جن کے نصیب میں ہدایت نہیں ، تباہ برباد ہونے کی جو بددعائیں حضور صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں....ان کا معمول بنائیے.... ان شاءاللہ
خواتین عنداللہ جوابدہی سے بچ جائیں گی....تو ہاتھ اٹھائیے....
اَللّٰھُمَّ مُنزِلَ الکِتَابِ، سَرِیعَ الحِسَابِ،
اِھزِمِ الاَحزَابِ،اَللّٰھُمَّ اھزِمھُم وَزَلزِلھُم
اے اللہ کتاب کو نازل کرنے والے، جلد حساب لینے والے،لشکروں کو شکست دے دے،
اے اللہ انہیں شکست دے اور انہیں ہلا کر رکھ دے۔[مسلم]
اَللَّھُمَّ اِنَّا نَجعَلُکَ فِی نُحُورِھِم وَنَعُوذُبِکَ مِن
شُرُورِھِم۔
”اے اللہ! ہم تجھے ہی ان کے مقابلے میں رکھتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے
تیری پناہ چاہتے ہیں۔“ [ ابو داﺅد]
اے اللہ!....اے ضعفاءکے ربّ!....اے ا لرحم الراحمین! |
|