چند روز سے ملک کے مختلف حصوں میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ
جاری ہے۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بھی ملک کے بیشتر علاقوں میں کہیں کم
اور کہیں زیادہ بارش ہوئی۔ سب سے زیادہ بارش گوجرانوالہ میں 63 ملی میٹر
ریکارڈکی گئی۔ کراچی صدر 39، فیصل آباد 15، مالم جبہ 34، بدین 23، قصور 20،
پاراچنار 19، سبی، سیالکوٹ میں17 ملی میٹر بارش ہوئی، مظفر آباد 13، مری،
بالاکوٹ 12، منگلا 11، شہید بینظیر آباد، میر پور خاص 09، چکوال 08، چھور،
ایبٹ آباد میں 7 ملی میٹر بارش ہوئی۔ راولا کوٹ 06، ٹھٹھہ، لاہور، جہلم 04،
رسالپور 03، گجرات، کوٹلی 02 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ تمام شہروں میں
بارش کے باعث عوام کا کافی حد تک ناقابل تلافی نقصان بھی ہوا۔ بارش کے بعد
تقریباً پورے ملک میں ہی حکومت کی نااہلی و کاہلی کھل کر سامنے آئی، لیکن
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں تو بارش ہونے پر یوں معلوم ہوا جیسے حکومت
نام کی کوئی چیز کراچی میں کبھی تھی ہی نہیں۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب
کراچی میں ہونے والی مون سون کی پہلی بارش نے ہی انتظامیہ کی کارکردگی کا
پول کھول کر رکھ دیا۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں بارش کے باعث 11افراد جاں
بحق ہوئے اور طوفانی بارش کے نتیجے میں آئی آئی چندریگر روڈ، گلشن اقبال،
ملیر، ایئرپورٹ، لیاری اور اطراف کے علاقوں کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش
کرنے لگیں۔ بارش کے باعث کے الیکٹرک کے کئی فیڈر جواب دے گئے، جس سے شہر کے
بیشتر علاقے تاریکی میں ڈوب گئے، کراچی میں بارش کے بعد کے- الیکٹرک کے بیس
گرڈ اسٹیشن نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ ترجمان کے الیکٹرک کے مطابق کراچی میں
1375 فیڈرزکام کرتے ہیں، جن میں سے صرف 100 فیڈرز نے ٹرپ کیا۔ صرف 39 ملی
میٹر بارش سے نظام زندگی مفلوج ہوگیا۔ شہر کے مختلف علاقوں، مرکزی شاہراہوں
اور بازاروں کے با ہر برساتی پانی جمع ہوگیا۔ مختلف علاقوں میں گٹر ابل
پڑے، نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔ صفائی کے ناقص انتظامات اور شہر میں جا بجا
بکھرے کچرے کے باعث سخت بدبو اور تعفن پھیل گیا۔ سڑکوں پر پانی اور کیچڑ کے
باعث گاڑیاں خراب ہو گئیں، جبکہ موٹر سائیکل سوار پھسل کر زخمی بھی ہوئے،
بارش کے بعد کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے افسران وعملہ سڑکوں سے غائب رہا
اور شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ شہریوں کا انتظامیہ کو شدید
تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کی نا اہلی ہے کہ شہر میں جگہ
جگہ پانی کھڑا ہونے کے باعث لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق گزشتہ چار برسوں سے کراچی میں منتخب شہری حکومت نہ
ہونے کے باعث پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہی کا شکار ہے، کراچی شہر کی
ذمہ داری کس پر ہے؟ یہ وہ سوال ہے جو شہر کراچی کے باسی ایک دوسرے سے
پوچھتے ہیں، لیکن اس کا جواب تا حال کسی نے نہیں دیا۔ ملک اور سندھ کی دو
بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت سندھ حکومت میں شامل ہیں اور اس کے باوجود کراچی
میں ترقیاتی کاموں کا نہ ہونا، بجلی اور پانی کی عدم دستیابی ایک بڑا
سوالیہ نشان ہے۔ کراچی میں بسنے والا ہر شہری، سیاسی جماعتیں، مذہبی
جماعتیں، غیر سرکاری تنظیمیں سب کراچی کو اپنا شہر مانتی ہیں، لیکن شہر کی
ترقی میں ان اداروں کا کردار نظر نہیں آتا۔ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب
کراچی میں مون سون کی ہونے والی پہلی بارش نے کراچی کی صورتحال کو جس طرح
واضح کیا ہے، وہ صاحب ارباب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، صرف 39 ملی
میٹر بارش نے جہاں بجلی کے نظام کو تباہ کر دیا تو وہیں11 افراد کراچی کی
انتظامیہ کی غفلت کے باعث اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بارش کے
بعد شہر بھر کی سڑکیں کھنڈر کا نظارہ پیش کر رہی ہیں، کیونکہ فروری
2014ءمیں منتخب شہری حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک کوئی شہری حکومت عمل
میں نہ آ سکی۔ موجودہ صوبائی حکومت بلدیاتی الیکشن کرانے کے لیے تیار نہیں،
جس کے باعث کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کے نظام کو چلانے کے لیے
شہر میں کمشنر بھی ہیں اور ایڈمنسٹریٹر بھی، لیکن یہ کیا کام کر رہے ہیں،
وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ بارش کے بعد شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی جمع ہے
اور کچرا نہ اٹھائے جانے کے باعث جگہ جگہ کیچڑ کی بھرمار ہے۔ ایسا نہیں ہے
کہ کراچی میں کوئی انفرا اسٹرکچر موجود نہیں۔ پورا انفرا اسٹرکچر موجود ہے،
لیکن اس کو چلانے والی منتخب حکومت دستیاب نہیں، اس لیے کوئی کام کرنا ہی
نہیں چاہتا۔ عوام شکایت کریں تو کس سے۔ کمشنر کراچی اورایڈمنسٹریٹر کی
کارکردگی صرف اخبارات میں بیانات کی حد تک ہی نظر آتی ہے۔ وزیر بلدیات کی
جانب سے کراچی میں بلدیاتی نظام کو بہتر بنانے کے لیے کوئی نمایاں اقدامات
نہیں کیے گئے۔ سابقہ شہری حکومت جو 24 فروری2014ءکو اپنی مدت پوری کر کے
چلی گئی، اس کے بعد سے کراچی میں نہ صرف ترقیاتی کام سست روی کا شکار ہوئے،
بلکہ جو ترقیاتی کام سابق سٹی ناظم کر کے گئے تھے، وہ بھی مناسب دیکھ بھال
نہ ہونے کے باعث تباہی کا شکار ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں
انتظامیہ کا کہیں مثبت کردار نظر نہیں آتا۔ جب بھی بارش ہوتی ہے پورا نظام
ہی درہم برہم ہوجاتا ہے۔ ایک تو بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی بجلی کا سسٹم
جواب دے دیتا ہے اور پورا کراچی اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب
ہر جگہ پانی ہی پانی نظرآتا ہے۔ پورا شہر تعفن زدہ ہوجاتا ہے، جگہ جگہ کچرے
کے ڈھیر اس تعفن میں مزید اضافہ کرتے ہیں، انتظامیہ ان ڈھیروں کا اٹھانے کا
انتظام بھی نہیں کرسکتی۔ کراچی کی انتظامیہ اتنی بے بس نظرآتی ہے کہ اکثر
گندے نالوں پر قبضہ مافیا کنٹرول کیے ہوئے ہےں، لیکن حکومت ان نالوں سے
قبضہ نہیں چھڑوا سکتی یا چھڑوانا نہیں چاہتی۔ گندے نالوں پر سے قبضہ
چھڑوانے کے لیے حکومت اخبارات میں لاکھوں روپے صرف کر کے اشتہارات دیتی ہے،
لیکن خود سے قبضہ چھڑوانے کی سکت نہیں رکھتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری
گندے نالوں پر ہونے والے قبضے کو چھڑوائے، بصورت دیگر مستقبل میں کسی بڑی
آفت کا پیش خیمہ بھی بن سکتے ہیں، کیونکہ اب وقت کے ساتھ ساتھ موسمی
تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، اس لیے اگر حکومت گندے
نالوں پر کنٹرول حاصل کر کے پانی کی روانی میں بہتری نہ لائی تو بہت زیادہ
نقصان ہو سکتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کسی بھی ملک
میں بارشیں اچانک نہیں آتیں، بلکہ یہ ایسا موسمیاتی عمل ہے جو ہر سال پیش
آتا ہے اور صدیوں سے یہ عمل جاری وساری ہے۔ ہر سال دنیا بھر کی طرح پاکستان
میں بھی بارشیں ہوتی ہیں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اچانک آنے والی قدرتی
آفت ہے۔ پاکستان میں برسراقتدار آنے والی حکومتیں اگر موسمی تغیر، بارشوں
اور سیلاب کے سالانہ ریکارڈ کو سامنے رکھ کر اقدامات کریں تو یہ موسم زحمت
اور تباہی کی بجائے رحمت میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ہر سال ہونے والی بارشوں
کے بے پناہ پانی کو محفوظ کرنے اور اسے خشک سالی کے موسم کے لیے ذخیرہ کرنے
کے لیے بہتر منصوبہ بنایا جاسکتا ہے۔ دوسرے کئی ممالک میں اس حوالے سے جدید
ترین اسٹیٹ آف دی آرٹ نظام وضع کیے جاچکے ہیں۔ پاکستان میں جتنی بارشیں
ہوتی ہیں، دنیا میں کئی ملکوں میں اس سے کئی گنا زیادہ بارشیں ہوتی ہیں،
لیکن ان حکومتوں نے ایسے اقدامات کیے ہیں جس سے نقصان نہیں ہوتا۔ پاکستان
ان ملکوں میں شامل ہے جہاں ہر سال بارشوں اور سیلاب سے قیمتی جانوں کا بھی
نقصان ہوتا ہے اور شہروں میں بارشوں کے باعث معمولات زندگی معطل ہو جاتی
ہے، گلیاں ندی نالوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں، سیوریج سسٹم بیٹھ جاتا ہے اور
گندے نالے ابلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر لگے سائن بورڈ اور بجلی کے پول
اکھڑ جاتے ہیں، جس سے جگہ جگہ بجلی کی تاروں کا جال بچھا دکھائی دیتا ہے
اور اس سے بہت زیادہ جانی نقصان بھی ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ حکومتی نا اہلی کے
زمرے میں آتا ہے۔ اگر حکومت عوامی اداروں کو مضبوط کرے تو ایسی صورت حال
پیدا نہ ہو۔ |