صحافیوں کا صحافیوں سے ظلم

صحافت ایک مقدس پیشہ اور مقصد ہے ایک تاریخ نویسی ہے، صحافت کے نام پر اگرآج کے کمرشل اداروں کو پرکھاجائے تو یہ صرف مالکان کے لئے نوٹ چھاپنے والی مشین ہیں اور ان میں کام کرنے والے صحافی بھی ایئرکنڈیشنڈکمرے اور انٹرنیٹ و کیبل کی دنیامیں مگن ہوکر اجرت پر اس مشین کے پرزے بن کررہ گئے ہیں، بھلے وہ صحافت کی اقدار اور ڈگریاں لئے ہوئے ہوں، یہ صحافتی ادارے جس اہم پرزے کے گرد گھومتے ہیں وہ فیلڈمیں ہرشہرمیں موجود بیچارے نامہ نگارہیں، جن کی اول و آخر شناخت صحافی کی ہے، کمرشل اداروں کی پیسہ بنانے کی دوڑ میں ایسے افراد بھی پریس کارڈ کے حقدار بنے ہیں جو ادارے کی یاذاتی خواہش اور مجبوری کی بناء پر اپنا معاشی مستقبل بنانے کو ترجیح دیتے ہیں تاہم صحافت کو مقصد تک محدود رکھنے والے صحافی آج بھی معاشی بد حالی کا شکارہیں، نہ تو کبھی ادارے کی جانب سے انہیں اجرت ملی نہ ہی اپنی دیانتداری سے کسی کے ہاں اپنامقام پیدا کرسکے ،یہ وہ بے چارے صحافی ہیں جو دور دراز کے علاقوں میں ادارے کی پالیسی ،سماج کی روایات اور معاشرے کی سختیاں جھیلتے ہیں ،گو کہ چند افراد کی پیلی صحافت کی وجہ سے وہ بھی بدنام ہوتے ہیں تاہم انہی کی بدولت صحافت کا نام زندہ ہے، یہ صحافی اپنے اور علاقے کے مسائل کو دیانتداری سے لکھنے کی جو قیمت ادا کرتے ہیں اسے سمجھانہیں گیاہے دور دراز کے علاقوں میں بغیر اجرت اور بغیر سہولیات کے بااثر افراد، انتظامیہ ،پولیس، جرائم پیشہ افراد سے سینہ سپر ہوتے ہیں ،جس میں انکا نقصان ہوتاہے، لیکن صرف مظلوم کی حمایت،اجتماعی مسائل کے حل کی کوشش سے عوامی حمایت ان کی کل متاع ہوتی ہے ،ایسی صورت میں جب کوئی بامقصد کھر اصحافی خود مظلوم بنتاہے تو جس ادارے میں اسکی تحریر کو اہمیت ملتی ہے اور شہ سرخیاں شائع ہوتی ہیں اور انکی بدولت ادارہ کی جیبیں بھرتی ہیں،وہ ادارہ بھی اس سے کنارہ کشی کی راہ لیتاہے،مبادہ ادارے کے مالی مفاد متاثر نہ ہوں،شہ سرخیاں لکھنے والا صحافی جب کسی کا مشق ستم بنتاہے تو خو د دولائین کی خبر بنتاہے، اگر شہید ہوا توچند ایک فاتحہ خوانی کی خبر بنتی ہے، مالکان کے حقوق کی حفاظت کرنے والے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں قید بڑے صحافی بھائی کوئی دوسرا پرزہ فٹ کردیتے ہیں، یہ ایک ستم ہے جو کوئی دوسرانہیں خود صحافتی ادارے اور بڑے صحافی اپنے نادار اور مخلص بھائیوں کے ساتھ کرتے ہیں، آج کے دور میں صرف کمائی کی دوڑ میں شامل اداروں اور انکے مالکان کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے کہ صحافت کو اجاگر کریں اچھے صحافی کی مددکریں اور اسکی محنت اور خلوص کو رائیگاں نہ جانے دیں صحافت کے مقصد کو سمجھ کرانکی حوصلہ افزائی کریں ،اس سے پیلی صحافت کا یقینی خاتمہ ہوگا، اور صحافت کا مقصد زندہ ہوگا، نہ صرف یہ بلکہ معاشرے اور سماج میں ایسی مثبت تبدیلی آئے گی جوکسی اور طریقے سے آنے میں وقت لگے گا، دور دراز اور دیہی علاقوں میں اچھے صحافیوں کے مسائل اور انکے تحفظ اور اجرت کے حق کی ادائیگی کو یقینی بنانا ہر ادارہ کا اولین فرض ہوناچاہئے۔

Shafi Ullah Memon
About the Author: Shafi Ullah Memon Read More Articles by Shafi Ullah Memon: 3 Articles with 6991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.