تہوار قوم کی علامت اور پہچان ہیں با شعور قومیں اپنے
مذہبی تہوار بھی اپنے قوم کی تہذیب و ثقافت کے مطابق مناتے ہیں۔ چونکے یہ
خوشی کا دن ہوتاہے ساری دنیا کے مسلمان مشترکہ طور پر اپنے اپنے
انداز،طورطریقوں اور اپنی اپنی تہذیب و ثقافت کے مطابق اظہار ِمسرت کرتے
ہیں ۔تہوار کا اصل حسن علاقائی رسم و روایات میں ہوتی ہیے ۔ہمارا قومی
تہوار تو زیادہ ہیے مگر مزہبی تہوار صرف دو ہیں۔ ان دونوں تہوار و کو دین
اسلام میں بہت قدر حاصل ہے مسلمان ان تہواروں کے لئے جوش و خروش سے خصوصی
اہتمام کرتے ہیں ۔ عید کے معنی خوشی ، مسرت یا جشن کے ہیں ۔ اور روزے رکھنے
کے انعام کے طورپر منایا جاتا ہے۔ ان تہوارو میں ہر طرف خوشیو کے میلے، اور
مجالس ہوتے ہیں اور مختلف سوچ و نظریات والے لوگ اپنے رہنماوں کے ساتھ ملکر
انتہائی عقیدت کے ساتھ مزہبی تہوار قومی کلچر کے ساتھ
مناتے ہیں۔
پشتون معاشرے میں مذہبی حکمرانو کا عوام کے دلو میں انتہائی قدر اور احترام
تھا مگر حکمرانوں نے اقتدار کو قائم کرنے کی خاطر پرایو کے مفادات کے لیے
اپنی سر زمین کو میدان دوزخ بنایا۔ اسی ٹیم اقتدار ،قلم، اور زبان انہی
لوگو کے قبضے میں ایا انکو اپنے اقتدار کے لیے بھر پور استعمال کیا اور
قومی بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ اپنے طاقت کے زور پر عوام کے دماغ،
اور قلم پر مکمل طور پر تالے لاگا دیے۔ قومی ترجمانی دوسرو کو مل گیا جس نے
پورے قوم کو دہشت گرد اور وحشی کے نام سے مشہور کیا۔ ازاد قلم اور سوچ کے
استعمال والو کی انجام موت کا انتظار تھا۔ دوسری طرف ان استحصالی قوتو کے
مقابلے میں چند ہی دماغ، قلم اور سوچ زندہ رہ گئے جو وطن اور قوم کے دفاع
کے لیے کافی نہ تھے اور صدیو کی محنت سے کمائی ہوئی اختیار پر بھی وہ قابض
رہے۔ ان سب تخلیق کردہ مصیبتو کے با وجود قوم نا اگاہی کی وجہ سے مذہبی
تہوارو میں احتر ا مًا انہی لوگو کے ابائی علاقو کے رخ کرتے تھے اور وہا ں
تہوار غیرو کے رسم میں منا تے تھے جو قومی زوال کے زمیندار تھے۔
جہالت سے ترقی کی طرف منازل سوچ کی تبدیلی سے طے ہوتے ہیے تعمیری سوچ
تخریبی سیاست کی راہ میں رکاوٹ ہوتی ہیے۔ جھالت میں لوگ ترقی سے نفرت کرتے
ہیے اور بربادی کو دعوت دیتے ہیں کیونکہ جھالت میں سمجھ الٹ ہوجاتا ہیے پھر
برے کام بھی اچھے سمجھے جاتے ہیں۔ لوگ اچھائی کے مقابلے میں برائی، امن کے
مقابلے تشدد اور ترقی کے مقابلے میں زوال کو پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ
اصلاح کے نام پر فساد پیھلاتے ہیے۔ انکا عقل قدیم ہوتا ہیے اور ہمیشہ اپنے
اوپر ظلم کرتے ہیے۔ جھالت میں لوگو کے پاس دماغ ہوتا ہیے لیکن ان میں
سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، کانو میں حق سننے کی طاقت نہیں ہوتی اور انکھو
میں دیکھنے کی قوت نہیں ہوتی ہیے۔ پھر بھی کچھ قلم کار اور سیاسی کارکن ان
حالات سے غافل نہ رہے اور ہر میدان میں علم، قلم اور سیاسی شعور کی جھدوجھد
سے جھالت کا مقابلہ کیا جن کے کچھ مثبت اثرات پیچھلے عید میں نظر آیا۔
عوام اس مرتبہ تہوار میں مکمل طور پر مزہبی قدیم پرستو کے قید سے ازاد نظر
ایا پہلے صرف انہی لوگو کے گرد قوم جمع ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ مزہبی تہوار
سیاسی رہنماوں اور سیاسی مرکزو میں قومی کلچر کے ساتھ انتہائی سادگی کے سات
منایا گیا۔ کیونکے جس گھر میں ماتم ہو وہاں خوشی اور عید نہیں منائی جاتی
بلکہ رسم صرف ادا کی جاتی ہے۔ اور یہ رسم ان لوگو کے ساتھ ادا کیا گیا جو
ماتمو کو ختم اور امن کو بحال کرنے میں ہر قسم کے فزیکلی اور شعوری
قربانیاں دے رہے ہیں۔ تباہ حال قومو کا ایسے لوگو کے ساتھ محبت فطری ہوتا
ہیں جو قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر اور مستقبل کی بربادی سے نجات کے لیے
لڑ رہا ہو۔ اسی فطری محبت نے اس مرتبہ ہزارو میل دور کے لوگو کو اس مرتبہ
قومی رہنماوہ کے گرد جمع کیا اور مزہبی تہوار قومی رسم کے ساتھ ادا کیا جو
قومی ترقی میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ |