جمشید خٹک
ایک زمانہ تھا۔اخباروں میں سب سے زیادہ اشتہارات فلموں سے متعلق ہوتے تھے
۔فلمی اداکاروں کی بڑی بڑی تصاویر بمع ایکشن کے پوز میں اخباروں کی زینت
ہوا کرتی تھی۔اخبار پڑھنے کے بعد فلموں کے اداکاروں کے تصاویر حجام کی
دوکانوں ، پر چون کی دکانوں ، حجروں اور رنگین مزاج لوگوں کے بیٹھکوں میں
دیوار کے اُوپر چسپاں کئے جاتے تھے ۔فلموں کی تصاویر کی بہت مانگ ہوتی تھی۔
اکثر دوکاندار اخبار سے کھیلوں کے ہیرو ، فلموں کے ہیرو اور نامور شخصیات
کی تصاویر کاٹ کر دوکانوں میں سجاتے تھے ۔نوجوان لڑکے اپنے پسند کے فلمی
ہیرو کی تصاویر کو خاص طو رپر اپنے کمرے میں سجا ئے رکھتے تھے ۔الیکٹرانک
میڈیا کی آمد سے پرنٹ میڈیا اور خاص طور پر رنگ وروغن سے بُرش کے ذریعے
تصویریں بنانے والوں کی صنعت ختم ہو کر رہ گئی ہے ۔سینما گھروں کے باہر بڑے
بڑے پردوں پر ہاتھ سے بنائے ہوئے مشہور فلموں کے ہیرو اور ہیروئن کی تصاویر
کی نمائش کی روایت اب نہیں رہی ہے ۔سینما میں جا کر فلمیں دیکھنے کا کلچر
تقریباً آخری ہچکیاں لے رہا ہے ۔پرانے پرانے سینما گھر گرا دئیے گئے
ہیں۔اُسکی جگہ پلازہ اور اُن کے اندر کمپیوٹر ، سی ڈی کی خرید وفروخت عروج
پر ہے ۔کاتب اور پینٹر کی جگہ الیکٹرانک مشین سے تیار کردہ تصاویر کا رواج
ہے ۔اشتہاروں کے بل بورڈوں کے اوپر بھی کمپیوٹر سے بھی بنی ہوئی تصاویر نظر
آتی ہیں ۔ آج کل اخبارات سے زیادہ اشتہاروں کی صنعت پر ریڈیو اور ٹی وی نے
قبضہ کر لیاہے ۔ ٹی وی میں ہر 15 منٹ کے بعد دو ، تین اشتہاروں کی جھلکیاں
دکھائی جاتی ہیں اور کئی ٹی وی چینلز پردہ سکرین پر کئی کئی منٹ اشتہارات
چلا رہے ہیں۔ ٹی وی پر ہر قسم کے اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ سکولوں میں
داخلے سے لیکر قسمت کا حال بتانے والے عملیات کے ماہر ، گاڑیوں ، پراپرٹی
اور ہر قسم کے فیشن سے متعلقہ کریم پوڈر وغیرہ تک کے اشتہار نظر سے گزرتے
ہیں ۔
اشتہارات نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اخبارات میں خبریں کم اور اشتہار زیادہ
ہوتے ہیں۔اس ہفتے ایک اخبار کا ویکلی ایڈیشن جو کہ 22 صفحات پر مشتمل
تھا۔اُس میں پہلے صفحے ، آخری صفحے ، ایڈوٹوریل اور کالموں کی علاوہ جو 6
صفحوں پر محیط تھا۔باقی پورا اخبار اشتہارات سے بھر اپڑا تھا۔کل اخبار کا
75 فی صد حصہ اشتہارات کیلئے وقف ہوتا ہے ۔یہ اشتہارات مختلف سکولوں ،
کالجوں میں داخلے سے لیکر جعلی حکیموں کی دوائی ، پراپرٹی کی خرید وفروخت
اور دیگر متفرقہ اشیاء سے متعلق ہوتی ہیں۔
ان دنوں میں خاص طور پر مختلف سکولوں اور کالجوں کی طرف سے اخبارات میں
اشتہارات کی جو دوڑ لگی ہے ۔اُ س سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تعلیم
کی بجائے مارکیٹنگ پر بڑا زور ہے ۔سکولوں اور کالجوں کی طرف سے ان اشتہارات
پر لاکھوں روپیہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے ۔بڑے بڑے اخباروں کے فل سائز کے
ایک ایک صفحے یا دو صفحے کا لاکھوں روپوں کا اشتہار کا خصوصی سپلیمنٹ چھاپ
دیا جاتا ہے ۔تھو ک کے حساب سے حاصل کردہ نمبروں والے طلباء اور طالبات کی
نمایاں طور پر تصاویر چھاپ دی جاتی ہیں ۔نئے طلباء اور طالبات کو راغب کرنے
کیلئے مختلف قسم کی رعایتوں کا اعلان کیا جاتا ہے ۔نہایت خوبصورت بروشر
تیار کیا جاتا ہے ۔صرف بروشر کی قیمت پانچ سو سے لیکر ہزار روپیہ تک لی
جاتی ہے ۔سکول کی معیار اور کارکردگی کی زبردست پبلسٹی کی جاتی ہے ۔ان
پرائیوٹ سکولوں کی فیس آسمان سے باتیں کرتی ہیں ۔5 سال کے بچے کو داخلے کے
وقت کم وبیش ایک لاکھ روپے تک ادائیگی کرنی پڑتی ہے ۔یونیفارم پر بڑا زور
دیا جاتاہے ۔ اور اُس کیلئے خاص خاص دوکانوں کے ساتھ سکول او ر کالجوں کا
کنٹریکٹ ہوتا ہے ۔ انہی سکولوں سے پڑھے ہوئے بچے جب میڈیکل کالجز اور
اینجینر نگ کالج میں داخلے کیلئے انٹری ٹیسٹ میں بیٹھ جاتے ہیں۔تو یہ تھوک
کے حساب سے حاصل کردہ نمبروں والے بچے انٹری ٹیسٹ میں وہ نمایاں کامیابی
حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے ۔کہ پبلسٹی پر
جتنی رقم خرچ کی جاتی ہے ۔اساتذہ کی تنخواہوں پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی ہے
۔اکثر دیکھا گیا ہے ۔کہ ایک ایک بچے سے تو ہزاروں روپے ماہانہ فیس لی جاتی
ہے ۔لیکن اُسی سکول کے اساتذہ کو نہایت ہی کم تنخواہ دی جاتی ہے ۔اُن کے
تعلیمی قابلیت کے تناسب سے اُ ن کی تنخواہ بہت کم ہے ۔تقریباً تمام
پرائیویٹ سکولوں میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والے اساتذہ کو دس سے پندرہ ہزار
روپے کامعاوضہ دیا جاتا ہے ۔جو نہایت کم ہے ۔کیا اچھا ہوتا کہ مارکیٹنگ پر
خرچ کی بجائے اساتذہ کو پرکشش معاوضہ دیکر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو
سکولوں میں تعینات کرتے ۔اور اشتہاری دُنیا سے نکل کر حقیقی معنوں میں
سکولوں کا تعلیمی معیار اُونچا کرتے ۔
اخبارات میں ہر قسم کا اشتہار دیا جاتا ہے اور اخبار والے بھی چھاپ لیتے
ہیں۔ان اشتہاروں میں جعلی حکیموں کی جانب سے اشتہار میں ہر قسم کی بیماری
کا علاج موجود ہوتا ہے۔کیا اخبارات پر یہ ذمہ داری عاید نہیں ہوتی ہے ۔کہ
وہ ہر قسم کے جعلی حکیموں کے کاروبار میں بلاواسطہ طور پر اُن کی تشہیر سے
گریز کریں۔ہماری آبادی کا ایک کثیر تعداد علم سے بے بہرہ ہے ۔اخبار میں
اشتہار دیکھ کر فوراً اُس سے متاثر ہوکر دھوکے اور جعل سازی کا شکار ہو
جاتے ہیں۔اگر اخبار رائے عامہ کو ہموار کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے
۔تو معاشرے سے ان جعلی، مفاد پرستوں ایجنٹوں کے غلط عزائم سے بھی پبلک کو
آگاہی دی جا سکتی ہے ۔اور وہ اس طرح ممکن ہے ۔کہ اس قسم کے اشتہارات کو
چھاپنے سے پہلو تہی کی جائے ۔ملک میں بے روزگاری اس حد تک پہنچ چکی ہے ۔کہ
غریب عوام روزی کمانے کی خاطر جائیداد ، مکان بھیج کر بیرون ممالک جانے
کیلئے جعلی ٹریول ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔اخبارات میں پر کشش
اشتہارات کو صحیح سمجھ کر جعلی اداروں کے چکروں میں آجا تے ہیں ۔جس سے وہ
اپنی جمع پونجی سے بھی محروم ہوجا تے ہیں اور مزید غم کے پہاڑ کے نیچے پس
کر رہ جاتے ہیں۔اشتہار کے ذریعے جعلی ایجنٹ دور اُفتادہ علاقے کے لوگوں کو
اپنے جال میں پھنسا کر لاکھوں روپے لوٹ لیتے ہیں۔ہاؤسنگ اسکیموں اور
سوسائیٹیوں کی آجکل بھر مار ہے ۔اخبارات میں بڑے بڑے اشتہارات چھاپ کر عوام
کو پلاٹ ، مکان کا جھانسہ دیکر روپے جمع کرتے ہیں ۔ان اشتہارات میں کئی
اسکیمیں جعلی ہوتی ہیں۔اگر جعلی نہیں ہاؤسنگ اسکیم بنتے بنتے سالہاسال لگ
جاتے ہیں۔جعلی حکیموں کے اشتہار دیکھ کر یک دم خیال آتا ہے ۔کہ اگر حکیم
صاحب کے پاس تمام بیماریوں کا علاج موجود ہے ۔تو حکومت کو ہسپتال بند کر کے
حکیموں کی سرپرستی کرنی چاہیے۔اشتہاری دُنیا صرف اخبار تک محدود نہیں بڑے
بڑے بورڈوں کے علاوہ موبائل فون پر طرح طرح کے اشتہاری مہم چلائے جاررہے
ہیں۔موبائل فون پر انعامی اشتہارات کی بھر مار ہے ۔کبھی فون کال کبھی پیغام
آتا ہے ۔کہ لاٹری میں لاکھوں ڈالر کا انعام نکلا ہے ۔ جو کہ سراسر فراڈ
ہوتا ہے ۔بہت سادہ لوگ اس پریقین کر کے پیسے گنوا دیتے ہیں۔کبھی کبھی S.O.S
پیغام آتاہے ۔بھیجنے والا سخت مصیبت میں گرفتار ہے اُس کی مدد کی جائے ورنہ
اُس کی زندگی خطرے میں ہے ۔یہ بھی پیسے بٹورنے کا ایک ڈھنگ ہے ۔
اشتہارات چاہے پرنٹ میڈیا یا الیکٹرانک میڈیاکے ہوں جس کے ذریعے جعلی
کاروبار کو روکنے کے لئے کوئی ضابطہ اخلاق موجود نظر نہیں آتا ہے۔ یہ
اشتہار چلانے والے پر منحصر ہے ۔ کہ وہ کس قسم کے اشتہار کو جائز سمجھتا ہے
او ر کس کو رد کرتا ہے ۔ ضرور ت اس امر کی ہے ۔کہ اشتہارات چلانے والے
اداروں پر بھی ذمہ داری ڈالی جائے ۔کہ وہ اصلی اور نقلی اشتہارات میں تمیز
کر کے سادہ لوح عوام کو دلفریب اور دلکش اشتہارات میں پوشیدہ خطرات سے
بچائیں۔کیا یہ ممکن نہیں کہ کوئی قانون وضع کر کے جعلی اشتہار دینے والے کے
خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے ۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا غریب سادہ
لوح عوام پر یہ بڑا احسان ہوگا۔کہ وہ جعلی اشتہاری مہم کا حصہ نہ بنیں۔غیر
مستند دواخانوں اور ہر مرض کے علاج کے اشتہار ، جعلی ایجنٹوں ، جعلی ہاؤسنگ
سوسائٹی اور دیگر جعلی قسم کے اداروں کے اشتہار کا بائیکاٹ کریں۔ |