جمشید خٹک
ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے
کیلئے
Graduate Assisment Test (GAT) کا پاس کرنا لازمی ہے ۔ جس کے بغیر پی ایچ
ڈی کیلئے داخلہ نہیں مل سکتا ۔پی ایچ ڈی کیلئے داخلہ ٹیسٹ سے قبل GAT کا
ٹیسٹ انگریزی زبان میں لیا جاتا ہے ۔اکثر پی ایچ ڈی کے اُمیدوار اس ٹیسٹ سے
گھبراتے ہیں۔درحقیقت اکثر اُمیدوار یہ ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔جس
کی وجہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کیلئے مقررہ معیار پر پورا نہیں
اُترتے ۔ اس بناء پر اکثر اُمیدوار GAT کی شرط کو غیر ضرور ی سمجھتے
ہیں۔جبکہ اس ٹیسٹ کیلئے نامزد کردہ نیشنل ٹسٹنگ سروس ایک اعلیٰ معیار کا
ادارہ ہے ۔جو Education Testing Service (ETS) امریکہ سے ملتا جلتا ادارہ
ہے ۔ اکثر اُمیدوار این ٹی ایس کے تحت منعقد کرنے والے امتحانات پر اعتراض
کرتے ہیں۔این ٹی ایس کو ایک پرائیویٹ ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔این ٹی ایس کے
خلاف اُمیدواروں نے عدالت کا دروازہ تک کھٹکھٹایا ہے ۔لاہور ہائی کورٹ کے
ایک فیصلے کی رو سے پرائیویٹ ادارے کو حکومت پاکستان کی زیر سرپرستی منعقد
ہونے والے امتحانات کی ذمہ داری نہیں سونپی جاسکتی ہے ۔اس لئے لاہور ہائی
کورٹ نے نیشنل ٹسٹنگ سروس (NTS) کو غیر قانونی قرار دیا ہے ۔عدالت نے اپنے
حکم میں کہا کہ داخلہ امتحانات کے لئے نیشنل ٹسٹنگ سروس کی تحت کسی بھی
امتحان کا دینا لازمی نہیں ۔تاہم این ٹی ایس کو قانونی اور سرکاری حیثیت
دینے کیلئے حکومت قانون سازی تجویز کرسکتی ہے ۔حتمی قانون سازی تک این ٹی
ایس کے تحت ہونے والے آئندہ امتحانات غیر قانونی ہونگے ۔عدالت نے یہ حکم پی
ایچ ڈی میں داخلے کی خواہشمند ایک طالبہ کی درخواست پر تفصیلی فیصلے میں
جاری کیا ہے ۔درخواست گزار پر داخلے کیلئے این ٹی ایس کاامتحان پاس کرنے کی
شرط عائد کی گئی تھی ۔ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے کے مطابق نیشنل ٹسٹنگ سروس
یا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی منظور شدہ باڈی نہیں اور اُس کے تحت کسی بھی
قسم کا امتحان دینا لازمی نہیں ۔ فیصلے کے مطابق ایچ ای سی اور نیشنل ٹسٹنگ
سروس کے درمیان اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ آئندہ ایچ ای سی نیشنل ٹسٹنگ
سروس کے تحت کسی امتحان کی حمایت نہیں کریگی۔ ایچ ای سی کی منظور شدہ
یونیورسٹیوں پر این ٹی ایس ٹسٹ لینے کی قانونی پابندی نہیں ۔ ہائیر
ایجوکیشن کمیشن اور نیشنل ٹسٹنگ سروس کے درمیان معاہدہ 30 مئی تک برقرار رہ
سکتا ہے ۔ تاہم اس کے بعد ہائیر ایجوکیشن کمیشن اس سے کوئی نیا معاہدہ نہیں
کریگا۔تاہم این ٹی ایس پرائیویٹ طور پر اپنے اُمور جاری رکھ سکتا ہے ۔عدالتی
فیصلے کے تحت جاری یا سابقہ امتحانات متاثر نہیں ہونگے ۔جبکہ یونیورسٹیاں
اپنے قواعد و ضوابط کے مطابق ہائی کورٹ کے فیصلے سے رہنمائی لے سکتی
ہے۔درخواست کی سماعت کے دوران پاکستان کی 43 یونیورسٹیوں نے ہائی کورٹ کی
معاونت کی اور اپنی اپنی تجاویز دیں۔جن میں کہا گیا کہ داخلہ امتحانات لینے
کیلئے سیاسی مداخلت سے آزاد قومی ادارہ قائم ہونا چاہیے۔
اگر حکومت کورٹ کی ہدایت کے مطابق موثر طور پر متبادل تجاویز پیش نہ کرسکی
اور جیسا کہ اُمیدواروں کی خواہش ہے کہ GAT کے ٹیسٹ کو ختم کیا جائے تو
خدشہ ہے کہ میرٹ کی دھجیاں اُڑینگی اور کئی اُمیدواران پی ایچ ڈی کی ڈگری
لینے میں کامیاب ہوکر ڈاکٹر بن جائینگے ۔ ڈگری تو مل جائیگی لیکن اُس کی وہ
قدر وقیمت نہیں رہیگی ۔جو اب بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ ہے ۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کے ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان کی 6 یونیورسٹیاں
دُنیا کے ٹاپ 500 یونیورسٹیوں میں شامل ہیں ۔ جن میں سے دو یونیورسٹیوں
کاشمار ٹاپ کے 300 یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے ۔جبکہ 2003 ء تک ہماری کوئی
یونیورسٹی بھی ٹاپ 500 یونیورسٹیوں میں شامل نہیں تھی ۔سال 2000 ء تک
پاکستا ن میں صرف 59 یونیورسٹیاں تھیں۔ جبکہ یہ تعداد اب بڑھ کر 137 تک
پہنچ گئی ہے ۔ریسرچ پیپروں کی تعداد 2000 ء میں 600 سے بڑھ کر سال 2012 ء
میں 8000 تک پہنچ گئی ہے ۔پچھلے دس سالوں میں پی ایچ ڈی دگریوں کی تعداد
500 تک پہنچ گئی ہے ۔جبکہ پچھلے 55 سالوں میں صرف 3500 پی ایچ ڈی کی ڈگریاں
ایوارڈ کی گئی تھیں۔
گذشتہ کئی دنوں سے ایک بحث جاری ہے ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہر قسم کی
خالی آسامیوں کو پر کرنے کیلئے نیشنل ٹسٹنگ سروس کے ذریعے طریقہ کار
کومسترد کیا جائے۔حال ہی میں این ٹی ایس کے ذریعے بھرتی ہونے والے اساتذہ
کے خلاف اکثر خواہشمند لوگ عدالت تک پہنچ گئے ہیں۔جبکہ اُن کا فیصلہ اٹکا
ہوا ہے ۔خواہشمند حضرات کا خیال ہے کہ روایتی طریقوں کو مضبوط بنا کر
بھرتیاں کی جائیں۔وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ پرائیویٹ کمپنی کو ٹھیکہ دیا
گیا ہے ۔جس کے ذریعے چند لوگ پیسے بٹورتے ہیں۔جبکہ پرائیویٹ کمپنی کو
سرکاری اسامیوں پر پر کرنے کا اختیار غیر قانونی ہے ۔زور اس بات پر ہے کہ
غیر سرکاری کمپنی سرکاری کام کیسے نبھا رہی ہے ۔اُن کے خیال کے مطابق یہ
سرکاری محکموں کا کام ہے کہ وہ آسامیوں کو پر کرنے کیلئے محکمانہ امتحانات
وضع کرے اور مکمل بااختیار ہوں ۔موجودہ نظام کے تحت چند گریڈوں پر سرکاری
ملازمین کو بھرتی کا اختیار صوبائی پبلک سروس کمیشن کے پاس ہے ۔جبکہ اعلیٰ
عہدوں پر بھرتی ہونے کیلئے مقابلے کا امتحان صوبائی پبلک سروس کمیشن اور
فیڈرل پبلک سروس کمیشن منعقد کرتی ہے ۔جبکہ درجہ چہارم کے ملازمین کے بھرتی
کا اختیار مقامی ممبر صوبائی اسمبلی کی وساطت سے عمل میں لائی جاتی ہے ۔
ہر سطح پر بھرتی ہونے کیلئے ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے ۔جس میں کوئی
خامی نہیں ہے اگر اُس طریقہ کار پر سختی سے عمل کیا جائے ۔ ہوتا کیا ہے؟ کہ
اعلیٰ حکام اور سیاسی مداخلت کی وجہ سے حقدار لوگوں کو اُن کا حق نہیں ملتا
۔میرٹ کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔اُس کی جگہ سفارش ، اقرباء پروری یا رشوت
کا م دکھا جاتی ہے ۔سرکاری محکموں میں بھرتیوں میں یہ شکایات عام ملتی
ہیں۔اس کا قلع قمع کرنے کیلئے حکومت نے ایک نیا نظام نیشنل ٹسٹنگ سروس (NTS)
کے نام سے متعارف کرنے کی کوشش کی ہے ۔جس کا طریقہ کار یہ ہے کہ تمام محکمے
نچلے درجے کی سطح کے ملازمین کی بھرتی کیلئے کوائف و شرائط مرتب کر کے این
ٹی ایس کے حوالے کردیتا ہے اور این ٹی ایس آزادانہ طور پر اس سسٹم کے ذریعے
امتحانات منعقد کراتی ہے ۔ہر اُمیدوار سے ہر سطح کی اسامی کیلئے مقرر کردہ
فیس وصول کرتی ہے ۔یہ فیس حکومت کی بجائے اُمیدوار سے وصول کی جاتی ہے ۔حال
ہی میں صوبہ خیبر پختون خواہ کی حکومت نے محکمہ تعلیم میں جن اسامیوں
کااشتہار دیا گیا تھا۔ اُن سب کے امتحانات این ٹی ایس کے تحت منعقد کرائے
گئے ۔محکمہ پولیس میں کنسٹیبلان کی بھرتی کا اشتہار بھی این ٹی ایس کے
ذریعے تشہیر کیا گیا ہے ۔ ابھی تک این ٹی ایس کے ذریعے جتنے بھی امتحانات
منعقد ہوئے تو سلیکشن کے طریقہ کار پر کسی نے اُنگلی نہیں اُٹھائی ہے ۔ہو
سکتا ہے کہ اس میں بعد میں خامیاں نکلنی شروع ہو جائیں لیکن تاحال زبان خلق
کو نقارہ خدا سمجھ کر عام تاثر یہ دیا جارہا ہے کہ این ٹی ایس فی الحال بد
عنوانی کے دھبوں سے پاک ہے ۔ جو شفافیت کی طرف ایک مثبت قدم ہے ۔
پچھلے کئی سالوں سے ہر قسم کے امتحانات میں نقل کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔طلباء
پورا سال ضائع کرتے ہیں اور امتحانات کے دوران ناجائز طریقوں سے اچھے نمبر
لینے کی کوشش کرتے ہیں۔تعلیمی میدان میں انحطاط پذیر نظام کسی طرح بھی ملک
وقوم کے مفاد میں نہیں ہے ۔نقل یا سفارش کی بنیاد پر امتحانات میں ٹاپ
پوزیشن ہولڈر زانٹری ٹسٹ میں فیل ہو جایا کرتے ہیں۔اس لئے بہ امر مجبور ی
اور شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے میڈیکل اور انجنیئرنگ کالجز میں داخلے
کیلئےEducational Testing and Evaluation Agency (ETEA) کا نظام متعارف
کرایا گیا ۔جو اب تک بہت بہتر نتائج دے رہاہے ۔ایٹا کے تحت جدید نظام کو
اپنایا گیا ہے او ر Multiple Choice Questions (MCQs) کو اپنایا گیا ہے ۔جس
میں طالب علم کو صحیح جواب دینے پرپورے نمبر ملتے ہیں۔جبکہ غلط جواب کی
صورت میں منفی نمبر پڑ جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے طالب علم کو بہت سوچ سمجھ کے
ساتھ جواب دینا پڑتا ہے ۔نقل کی گنجائش بہت کم رہتی ہے ۔لاکھوں کی تعداد یا
اس سے اُوپر ڈیٹا بینک سے سوالات اُٹھائے جاتے ہیں اور ایک امتحان گاہ میں
مختلف رنگوں کے پیپرز تقسیم ہوتے ہیں۔جبکہ ہر رنگ کے پرچے کے سوالات دوسرے
رنگ سے مختلف ہوتے ہیں۔طلباء آسانی سے ایک دوسرے سے نقل نہیں مار سکتے ۔
اسی طرح سرکاری دفاتر میں بھرتی کیلئے بھی این ٹی ایس کے ذریعے امتحانات
میں شفافیت ابھی تک برقرار ہے ۔
قوم کو معیاری تعلیم او رمعیار کے مطابق افرادی قوت مہیا کرنے کیلئے ایک
غیر جابندار ادارے کی اشد ضرورت ہے ۔وہ جس نام سے اور جس شکل میں ہو۔ جیسا
کہ لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں ادارے کی تشکیل کیلئے قانون سازی کی
ضرورت پر زور دیا ہے ۔
فیصلہ عوام پر چھوڑتا ہوں کہ وہ این ٹی ایس یا نو این ٹی ایس کے بارے میں
خود فیصلہ کریں اور حکومت عوام کی اُمنگوں کے مطابق پالیسی وضع کرے۔ |