لائسنس۔۔۔اساتذہ کے لئے ایک نیاجال
(Abu Abdullah Chinioti, )
۱۳۶۹ھ میں رمضان المبارک کے
مقدس مہینے کی مقدس رات میں اسلام کے نام پر وجود میں آنے والی مملکت
خداداد پاکستان کومعرضِ وجود میں آئے ہوئے سڑسٹھ سال بیت چکے ہیں۔آج پھر
اسی ماہِ مبارک کے آخری عشرہ کی مقدس ساعتیں تیزی سے گُزررہی ہیں۔اس عرصہ
میں جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہم نے بہت سی ترقی کی منازل طے کی ہیں
وہیں بہت سے معاملات میں ہم سے اجتماعی غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں اوریہ
سلسہ تاحال جاری وساری ہے۔
یوں تو اس وطنِ عزیز کوہمیشہ ہنگامی حالات کاہی سامناکرناپڑاہے مگرموجودہ
دوراس لحاظ سے بڑی اہمیت کاحامل ہے کہ اس میں قومی وملکی پیمانے پرتبدیلیوں
کاگراف انتہائی بلندہے۔
مثبت قسم کی تبدیلی تو کسی بھی معاشرے کی روح ہوتی ہیں جوکسی بھی معاشرے کی
بقاکے لئے ناگُزیرہوتی ہیں لیکن بعض اوقات ایسی تبدیلیوں کی بھرمارہوجاتی
ہے جن کی وجہ سے اس معاشرے کی بنیادہی داؤ پرلگ جاتی ہے۔
اس مضمون کے ذریعے میں چند ایک اجتماعی غلطیوں کی نشاندہی کرناچاہتاہوں
تاکہ اُن کاتدارُک کیاجاسکے اورمستقبل میں اُن سے بچاجاسکے ۔
پاکستان کو وجود میں آئے اتناعرصہ گزرنے کے باوجودہم ایک قوم نہ بن پائے،
نہ قومی زبان کواپنایاجاسکا اورنہ قومی لباس کوترویج دی گئی،
یکساں قومی نظامِ تعلیم ویکساں نصابِ تعلیم سے ہم اب تک محروم رہے ہیں،
اکثر معاملات میں اغیارکی تقلید میں ہم ہرحد عبور کرگئے۔ اور اس کوشش میں
نہ خُداہی ملانہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھرکے رہے
بجلی کی قلت پر قابوپانے کے لئے گھڑیوں کوآگے یاپیچھے کرنے کی انوکھی
تجویزپرعمل پیراہونا،
صوبائی وقومی اسمبلیوں کے ارکان کی فوج تیارکرنا،
عوام کو دفاتر کے چکرلگواکرذلیل وخوار کرنے کی غرض سے شناختی کارڈ میں
تاریخِ تنسیخ کااندراج کرنا،
اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم کو صوبائی محکمہ قراردینا،
پنجاب کے سرکاری سکولوں میں انگلش میڈیم کاجبری نفاذ،
پنجاب کے سرکاری سکولوں میں ریشنالائزیشن کے نام پرتوڑپھوڑ،
پنجاب کے مردانہ سرکاری سکولوں میں خواتین اساتذہ کاتقرر وغیرہ
ان اجتماعی غلطیوں کی فہرست بہت طویل ہے۔ بطورِ مثال چند کاتذکرہ
کردیاگیاہے۔
اوریہ بات طے شدہ امر ہے کہ کسی قوم کے اجتماعی قصور معاف نہیں کئے جاتے۔
جہاں تک انفرادی غلطیوں کاتعلق ہے تواُن سے صرفِ نظر کیاجاسکتاہے۔
فطرت افرادسے اغماض بھی کرلیتی ہے
مگرکرتی نہیں قوموں کے قُصورمُعاف
اور ہمیں اپنی قومی ضروریات وتقاضوں کے مطابق خود اپنی آزادانہ پالیسیاں
مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ بقولِ اقبال ؒ:
قیاس اپنی ملت کو اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
من حیث القوم سب سے زیادہ غلطیاں ہم سے تعلیم کے شعبہ میں سرزدہورہی ہیں
اور موجودہ حکومت تواس حوالے سے بڑی مشہورہے کہ نت نئے نئے منصوبوں پرعمل
پیرا رہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اُس کے پاس انسان کی بنیادی ضروریات پوری
کرنے کی طرف توجہ کرنے کانہ تووقت ہے اورنہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی
ہے۔جیسا کہ لاہور اوردیگربڑے شہروں میں میٹرو بس، میٹروٹرین
اوردیگرمیگاپراجیکٹس پرتیزی سے کام جاری ہے جبکہ عوام کامسئلہ دووقت کی
روٹی کاحصول ہے۔ عوام کوآٹے کی، پانی کی، بجلی کی ،سستی ادویات کی، جان
ومال کی حفاظت کی اوراچھے روزگارکی ضرورت ہے لیکن ہمارے نام نہادحکمران
عوام کے ان مطالبات پر کان دھرنے کے لئے تیارہی نہیں ہیں۔
عوام کی بنیادی ضروریات کی فراہمی تونہیں کی جاسکی البتہ نت نئے منصوبے
ضرورسامنے لائے جارہے ہیں۔ تعلیم کے شعبہ میں جہاں پہلے بہت سی اصلاحات
کانفاذکیاگیاہے وہیں اساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کانیاجال بُناجارہاہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے اساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کی تجویز کی بازگشت
تواتر سے سنی جارہی تھی لیکن بلی نے ابھی تھیلے سے سرہی باہرنکالاہے اور
چند ماہ تک ہوسکتاہے کہ وہ پورے طورپر تھیلے سے باہر آہی جائے۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حال ہی میں برطانیہ میں اساتذہ کے لئے لائسنس
جاری کرنے کافیصلہ کیاگیاہے ۔ اس سلسلے میں برطانیہ کے وزیراعظم نے
پارلیمنٹ میں بھرپوربحث سے بھی کام لیا ہے۔اور اساتذہ کے معیارکوبڑھانے
کیلئے لائسنس کے اجراء کو ناگُزیر قراردیاہے ۔ تعلیم کی دنیا میں یہ ایک
نیاباب ہے۔ اب تک سائنس وٹیکنالوجی کی دنیامیں انقلاب برپاکرنے والی تمام
شخصیات یاتومروجہ تعلیم سے محروم تھے یااُنہوں نے بغیرلائسنس کے اساتذہ سے
فیض پایاتھا۔
تاہم ہم ہر معاملے میں اپنے آقاؤں کی تقلیدکرنے پرمجبورہیں جیساکہ ہمارے
پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اس بارے میں پیش گوئی فرمائی تھی کہ تم تم
ہرمعاملے میں یہودونصارٰی کی پیروی کرنے لگ جاؤگے حتٰی کہ وہ کسی گوہ کی
کھڈ(غار) میں داخل ہوجائیں توتم بھی ان کے پیچھے داخل ہوجاؤگے۔ویسے یہ
قانونِ فطرت بھی ہے کہ ہرماتحت اپنے سے بالاکی تقلیدکیاہی کرتاہے۔ علامہ
ابنِ خلدون نے فرمایاتھا: اِن الاُمم المغلوبۃ تحاول ان تقلد الامم
الغالبۃ۔(بے شک مغلوب قومیں غالب قوموں کی تقلید کرنے کی کوشش کرتی ہیں)
ہمارے اربابِ اختیار شایداسی قانون کی رُو سے ہر معاملے میں اپنے آقاؤں کی
پیروی کرنے کے بے چین وبے قراررہتے ہیں۔ اگر وہ اس معاملے میں اﷲ تعالٰی
اور اس کے رسول ﷺ سے بھی کچھ رہنمائی لیناگواراکرلیتے تو کیاہی اچھاہوتا؟
اﷲ تعالٰی نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ایمان والوں کو یہودونصارٰی کے
ساتھ دوستی کرنے سے منع فرمایاہے۔ یہی وجہ ہے آپ ﷺ نے تمام معاملات میں
یہودونصارٰی کی مخالفت کرنے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا:
خالفواالیھودوالنصارٰی۔ (یہودونصارٰی کی مخالفت کیاکرو)۔ ایک دوسرے مقام
پرفرمایا: لاتستضیؤا بنارالمشرکین۔ (مشرکین کی آگ سے روشنی نہ لو) صحابہ
کرام ؓ نے اس کامطلب پوچھاتوآپ ﷺ نے فرمایا کہ اُن سے اپنے مُعاملات میں
مشورہ نہ لو۔
لیکن ہمیں نہ تواﷲ تعالٰی کے حکم کی پرواہ ہے اور نہ ہی اُس کے رسول ﷺ کی۔
ہماری دوستی تواب صرف یہودونصارٰی کے ساتھ ہی باقی رہ گئی ہے اورہمار اکوئی
بھی کام اُن کی رہنمائی ومشاورت کے بغیرپایہء تکمیل تک پہنچنے کاتصورہی
نہیں کیاجاسکتا۔ اس کانتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ قیامِ پاکستان کواتناعرصہ
گُزرنے کے باوجود ہم اقوامِ عالَم میں کوئی مقام حاصل کرنے سے قاصِر ہی رہے
ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اوربہت سی اجتماعی غلطیاں ہم سے
سرزدہوئی ہیں وہیں اساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کامنصوبہ بھی اُن قومی
غلطیوں میں اضافہ کاباعث بنے گا۔
موجودہ حکومت اور اربابِ اختیاراساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کے منصوبے
پراس قدر اصرارکیوں کررہے ہیں؟ جب کہ موجودہ حکمران اوراربابِ اختیار سب کے
سب اِن بغیرلائسنس کے اساتذہ سے ہی فیض حاصل کرکے ترقی کی منازل پربراجمان
ہوئے ہیں۔ کیاآئندہ بغیر لائسنس کے اساتذہ تعمیرِ ملت کے فریضہ سے
عاجزآجائیں گے؟
اساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کوضروری قراردینے کی سب سے بڑی دلیل یہ پیش
کی گئی ہے کہ تدریس ایک پیشہ ہے تو اسکے لئے دیگرپیشوں کی طرح لائسنس
کاہوناضروری ہے جیسے کہ ڈاکٹری،وکالت، ڈرایؤنگ،شراب بیچنے،فیکٹری
لگانے،اسلحہ رکھنے ودیگربہت سے امور کے لئے لائسنس ضروری ہے توتدریس کے لئے
کیوں نہیں؟
اس کاایک جواب یہ ہے کہ انسانی تاریخ کے ساتھ ہی شروع ہونے والے پیشۂ تدریس
میں اب تک بغیرلائسنس کے احسن انداز میں کام چل سکتاہے تو آئندہ بھی
ایساممکن ہے۔دوسراجواب یہ ہے کہ تدریس کے پیشہ کودیگرپیشوں سے تشبیہ
دینابھی قرینِ انصاف نہیں ہے کیونکہ تدریس پیشہءِ پیغمبری ہے اورپیغمبرکب
کسی سے لائسنس لے کر آتے تھے؟
علامہ اقبالؒ نے کیا خوب فرمایاتھا:
شیخِ مکتب ہے اِک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
ایک دوسرے مقام پر اپنے استاد مولوی میر حسن کو یوں عقیدت کانذرانہ پیش
کیاہے:
مجھے اقبال اس سید کے گھرسے فیض پہنچاہے پلے جواُس کے دامن میں وہی کچھ بن
کے نکلے ہیں
ایک اورشاعر نے اُستاد کی عظمت کویوں خراجِ عقیدت پیش کیاہے:
استاد کی عظمت کوترازومیں مت تولو
استادتوہردور میں انمول رہاہے
استاد کی عظمت کے لئے یہی نسبت کافی ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کا جانشین اوروارث
ہے اور خود آپ ﷺ نے بھی اپنی اسی حیثیت پر فخرکرتے ہوئے فرمایا: انما
بُعِثت معلما۔ (بے شک مجھے معلم بناکر بھیجاگیا)
جوقوم استاد کی عزت ووقار کالحاظ رکھتی ہے، کامیابی وکامرانی اُسی کانصیب
قرارپاتی ہے۔لائسنس کے اجراء سے اساتذہ کے مرتبہ میں اضافہ ہونے کی توقع
توعبث ہے ہی البتہ اس سے اساتذہ کرام میں بے چینی وبے یقینی ضرورجنم لے گی
جس کانتیجہ اُن کی تدریس کے عمل میں عدم دلچسپی کی صورت میں ظاہرہوگا۔
اساتذہ پہلے ہی اربابِ اختیارکے معاندانہ اورتحکمانہ انداز سے نالاں ہیں،
وہ مزید پریشانی کاشکارہوجائیں گے ۔
بصیرت سے عاری اربابِ اقتدار کویہ بھی معلوم نہیں کہ پاکستان میں اور بھی
کئی پیشے اورشعبے ہیں جولائسنس کے بغیراپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
ہمارے ملک کے سیاستدان، عوام کے خون پسینہ کی کمائی پرعیش کرے والے
بیوروکریٹس، مسلح افواج میں فرائض انجام دینے والے سپاہی اور آفیسرزکے لئے
اگرکسی لائسنس کی ضرورت نہیں ہے تو اساتذہ کرام کو بھی اس تحفے سے معاف
کیاجاسکتا ہے۔ بڑی عجیب بات ہے کہ جن کے فائدے کے لئے اس منصوبہ پر عمل
کرنے پرزور دیاجارہاہے وہ کسی صورت میں اس کو قبول کرنے کے لئے تیارنہیں
ہیں۔ اس کی مثال تو اُس نیم حکیم جیسی ہے جو مریض کے مرض کی غلط تشخیص کردے
اوراس سلسے میں مریض کی بات ماننے پر آمادہ نہ ہو۔ ظاہر ہے جب تشخیص ہی غلط
ہوتو علاج کیسے درست ہوسکتاہے؟
اساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کامنصوبہ حسبِ معمول ڈائریکٹوریٹ آف سٹاف
ڈویپلپمنٹ لاہور (DSD) کے ذمہ کیاگیاہے کیونکہ اس طرح کے اور بھی بہت سے
منصوبے اسی ایسٹ انڈیاکمپنی کے ذریعے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک
پہنچائے جاچکے ہیں۔ جنوری ۲۰۱۴ء میں پنجاب کے تمام ایلیمنٹری کالجز میں اس
سلسلے میں بحث مباحثہ کاآغازکروایاگیا تھا اوراس بارے میں صوبہ کی سطح
پرDSDلاہورمیں ایک سیمینار جلد ہی منعقدکروانے کااعلان کیاگیا تھا۔
ایلیمنٹری کالجز کی سطح پر ابتدائی رپورٹس بھی DSD کو بھیجی گئیں تھیں جن
میں حاضر سروس اور مستقبل کے اساتذہ نے بھاری اکثریت کے ساتھ اساتذہ کے لئے
لائسنس کے اجراء کے منصوبہ کورد کیاتھا۔ بعض کالجز میں پرنسپل صاحبان نے ان
رپورٹس میں ردوبدل کرکے رزلٹ بھیجے تاکہ حکامِ بالاکی ناراضگی سے بچ سکیں۔
۲۵جون اور۲۶جون ۲۰۱۴ء میں اس سلسلے میں DSD لاہورمیں ایک سیمناربھی
منعقدکروایاگیاجس میں ہمارے چند دوست بھی شریک ہوئے۔ سیمینارمیں شریک احباب
کوکہاگیاتھا کہ اس بارے میں آپ سے اس منصوبہ کے بارے میں ہاں یانہ میں کوئی
جواب مطلوب نہ ہے۔ اساتذہ کے لئے لائسنس کے اجراء کافیصلہ حتمی ہے۔ آپ اس
سلسلے میں چندماڈل پیش کریں کہ کس طریقے سے اس منصوبہ پر بہترطریقے سے عمل
کیاجاسکتاہے۔ بعدمیں تمام شرکاءِ سیمینار کو انہی ماڈلز سے متعلق اپنے اپنے
کالج میں باقی فیکلٹی ممبران کوٹریننگ دینے اور ان سے بھی ماڈل بنواکر
رپورٹس DSD کوبھیجنے کاپابند کیاگیا۔
سابقہ تجربہ کی بنیادپراندازہ لگایاجاسکتاہے کہ مستقبل قریب میں اس منصوبہ
کوعملی طور پرنافذکردیاجائے گا۔ اس منصوبہ کی کامیابی یاناکامی کاانحصار
اساتذہ اور اساتذہ تنظیموں کے ردعمل پرہوگا۔ اگرکوئی شدیدمزاحمت سامنے نہ
آئی تو یہ منصوبہ حتمی طورپرلاگوکردیاجائے گا۔
یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا لائسنس کے اجراء سے اساتذہ کے معیار پرکوئی
اچھااثر پڑے گا؟
اس سے اساتذہ کی کارکردگی توبہتر نہ ہوگی، البتہ اُن میں عدم تحفظ اور
پریشانی کااضافہ ضرورہوگااور ہر استادلائسنس کے حصول کے لئے ہروقت کوشاں
رہے۔ اس سلسلے میں ہرحیلے سے مقصدحاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ جیساکہ دیگر
شعبوں میں لائسنس کے حصول کے لئے جتن کئے جاتے ہیں۔ رشوت واقرباء پروری
کوبھی جِلا ملے گی۔
ایک جواب یہ بھی دیاجاسکتاہے کہ اب تک دیگر شعبوں میں لائسنس جاری کرکے
معیارکاحصول یقینی نہیں بنایاجاسکا۔ ڈاکٹرز کولائسنس جاری کیاگیالیکن
مریضوں کے اعضاء بیچنے اورڈاکٹرز کی ڈیوٹی سے غیر حاضری اور عدم توجہ کی
وجہ سے واقع ہونے والی اموات کی خبریں آج بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی
ہیں۔ آج بھی لائسنس یافتہ وکلاء ہی انصاف کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
تمام ججز کی عدالت میں ڈھیروں مقدمات التواء کاشکارہیں۔ لائسنس یافتہ
ڈرائیورز ہونے کے باوجودٹریفک حادثات پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا۔
لائسنس یافتہ ڈیلر ہونے کے باوجودجعلی انسانی وزرعی ادویات کاکاروبارعُروج
پرہے۔
اگر اساتذہ کے لئے بھی لائسنس کااجراء کردیاگیاتواس کاحال بھی دیگرشعبہ
ہائے حیات سے مختلف ہرگزنہیں ہوسکتا۔ اتناضرورہوگاکہ حکومت کو اس کے ذریعے
سالانہ کروڑوں روپے کی آمدنی ضرورہوگی۔ اگرآمدنی کاحصول ہی مقصد ہے تو تمام
اساتذہ پرسالانہ پروفیشنل ٹیکس کے ذریعے کروڑوں روپے حاصل کئے جاسکتے ہیں۔
اس سے اساتذہ میں بے چینی سے بھی بچاجاسکتاہے اور حکومتی محاصل میں اضافہ
بھی کیاجاسکتاہے۔
آپ ﷺ کے فرمان کے مطابق کوئی شخص اس وقت تک کامل ایمان والانہیں ہوسکتاجب
تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے وہ چیزپسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتاہے۔ کیا
اساتذہ کے لائسنس کے لئے بے تاب وبے قراراربابِ اقتدار اپنے لئے بھی اس
کوپسندفرمائیں گے اور اگریہ تحفہ اتناہی نایاب ہے توکیا تعلیم کے ساتھ
دیگرتمام شعبہ ہائے زندگی ،سیاست، بیوروکریسی اورمسلح افواج ، میں بھی اس
کو لازمی بنائیں گے؟
آج ۲۷رمضان کی مقدس ساعتوں میں ملک وملت کے خیرخواہ احباب اور ملک وملت کے
وفاداراساتذہ کرام سے خصوصی گزارش ہے کہ اس سلسلے میں قائدانہ کرداراداکرتے
ہوئے قوم کی درست سمت میں رہنمائی فرمائیں۔ اساتذہ کرام خصوصا ایسی نسل کی
تشکیل نو کریں جواپنے محسنوں کے لئے احترام اورعزت پرمبنی پالیسیاں تشکیل
دے۔ موجودہ حالات وواقعات کی ذمہ داری بالواسطہ اساتذہ کرام پر بھی عائد
ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے فرائض کی بجاآوری میں غفلت کاارتکاب کیاہے ورنہ
اُن سے فیض حاصل کرنے والے خود اُنہی کے خلاف پالیسیاں بنانے کی سوچ اپنانے
پر مجبورنہ ہوتے۔ آیئے آج کے اس مقدس دن یہ عہد کریں کہ ہم سب اپنی قومی
ذمہ داریوں کو خوب نبھائیں گے اور اس ملک وملت کوعظیم سے عظیم تربنائیں گے
۔ ان شاء اﷲ
شکوہ ظلمت ِ شب سے تو کہیں بہترتھا
اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
|
|