میں قسم کھا تا ہوں میں جھوٹ
نہیں بولتا میں سچ میں جینا چا ہتا ہوں ۔خدا کے لیے مجھے جینے دیں ۔میں بھی
اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں سے فیض یاب ہو نا چا ہتا ہوں ۔میں دنیا کے خوبصورت
مناظر د یکھنا چا ہتا ہوں ۔میں برف سے ڈھکے ہوئے پہاڑ دیکھنا چا ہتا ہوں ۔میں
اپنے وطن کے صحراوں کی صبح کی ٹھنڈک محسوس کر نا چا ہتا ہوں ۔میں ا پنے خشک
ہو نٹوں کو وطن کی آبشاروں کے جھرنوں سے تر کر نا چا ہتا ہوں ۔قسم سے میں
جینا چا ہتا ہوں ۔ میں ا پنے وطن کے سرسبزو شاداب جنگلوں میں پر ندوں کے
ترنم میں ڈوب جا نا چا ہتا ہوں ۔میں اقوامِ عالم میں تن کر چلنا چا ہتا ہوں
۔میں فخر سے کہنا چا ہتا ہوں کہ ہا ں !میں پا کستانی ہوں ۔میں بھی د نیا کی
سیر و سیا حت کر نا چا ہتا ہوں ۔مگر کو ئی وزیر مشیر بن کر نہیں ۔میں ایک
عام پاکستانی ہوں ۔جس کی جمع عوام ہے ۔میں دراصل پا کستان ہوں ۔میں دہشت
گرد نہیں ،د ہشت زدہ ہوں ۔قسم سے میں ظالم نہیں ،مظلوم ہوں۔میں حیوان نہیں
،انسان ہوں ۔میں بھکاری نہیں ،ہاں غریب ہوں ۔میں خیرات نہیں مانگتا،مجھے
انکم سپورٹ نہیں ،فقط محنت کے لیے پر امن جگہ چا ہیے ۔
اے میر ے لیڈرو! اے میر ی خوشحا لی کے لیے چیخ چیخ کر بُلٹ پروف گاڑیوں
،کنٹینروں اور شیشوں کے پیچھے کھڑے ہو کر تقریر یں کر نے والو ،قسم سے میں
بھی جینا چا ہتا ہوں ۔جو انقلاب صرف میر ی موت سے آئے مجھے وہ انقلاب نہیں
چا ہئے ۔مجھے ووٹوں اور جعلی انقلاب سے کیا لینا د ینا ،مجھے تو اپنے بچوں
کے لیے روٹی چا ہیے ۔مجھے اپنی بہن کے لیے جہیز کمانا ہے ۔کسی کارخانے
،دکان و فیکٹری میں کام چا ہیے ۔ میں اپنے ہی گھر کو جلا جلا کر تھک گیا
ہوں ۔میں اپنے ہی بھا ئیوں سے دست وگر یباں ہو ہو کر تھک گیا ہوں ۔خدا کے
لیے !میری بھلا ئی کے لیے کام کر نا چھوڑ دو ۔خدا کے لیے !مجھے میرے حال پہ
چھوڑ دو۔اے میر ے ر ہنماؤ میری ر ہنما ئی چھوڑ دو۔میر ے درد کا تدارک کر نا
ہی چا ہتے ہو تو پہلے میر ے درد کا ادراک تو کر لو ۔کچھ زیادہ نہیں بس میر
ے پڑوس میں چند دن قیام کر لو ۔ا پنے بچوں کو چند دن کسی سرکاری سکول میں
داخل کر وا کر دیکھو۔فٹ پاتھ پر بیٹھ کر ایک دن صرف ایک دن ہر آنے جا نے
والے کی طرف اس اُمید سے دیکھ لو کہ شاید وہ تمھیں د یہاڑی کے لیے ا پنے
ساتھ لے جائے ۔میری طرح عام ہو کر میرے خاص دکھوں کا احساس کر کے دیکھو۔ہر
روز مجھے روشن کل کی خبر د ینے والو۔میں صرف آج کے دن تک کے لیے زندہ ہوں
بس میرے آج کو ذرا سا روشن کر دو۔پھر قبرستانوں میں لاکھ چراغاں بھی کرو گے
تو بھی میری تُربت میں اندھیرا ہی ہو گا۔اپنے کسی عزیزکا سرکاری ہسپتال میں
علاج کر وا کر تو دیکھو ،کس طرح ایک عام شخص قطرہ قطرہ موت کی آغوش میں تھک
کر سو جاتا ہے اور عام (میں) کچھ بھی نہیں کر پا تا ۔ایک روز ایسا باپ بن
کر دیکھو جس کی بیٹی بغیر سیکورٹی کے تعلیم حاصل کر تی ہے ،کام پہ جا تی ہے
،اور پھر کسی کی حوس کا شکار ہو جا تی ہے ۔یہ میر ے عام سے دکھ ہیں اے خاص
لوگو!اور اگر میں اور تم ایک ہی ہیں تو پھر میرا اور آپ کا دکھ جُدا جدا
کیوں ہے؟
زہر کھا کر ہم ہی کیوں مر تے ہیں ؟سستے بازار ہمارے لیے کیوں لگتے ہیں ؟ہم
عدالتوں میں ہی کیوں قتل ہو جاتے ہیں ؟اگر آپ ہمارے محافظ ہیں تو ہم ہی آپ
کی اور آپ کے خاندان کی سیکورٹی پر کیوں ما مور ہیں ؟آپ کو تعطیلات ہوتی
ہیں مگر ہماری چھٹیاں کیوں منسوخ کر دی جا تی ہیں ؟ہمارا لباس ایک جیسا
نہیں ۔ہماری خوراک ایک جیسی نہیں ۔ہمیں ایک جیسی سہولیات حاصل نہیں ۔ہمارے
گھر ایک جیسے نہیں ۔ ہمارے دکھ سکھ ایک جیسے نہیں ۔تو پھر میں کس طرح کہوں
کہ اس پرچم کے سا ئے تلے ہم ایک ہیں ۔
میرا تو فقط ایک ہی خواب ہے کہ مجھے بھی جینے د یا جا ئے ۔اگر میں اس وطن
کا شہری ہوں تو مجھے میر ے حقوق سے محروم نہ کیا جا ئے ۔مجھے میرے فرائض سے
غافل نہ کیا جا ئے ۔انسان ہوں کسی فرد یا پارٹی کی پراپر ٹی نہیں ہوں ۔کس
کس کی موت کامداوا چیک سے کر و گے؟کس کس بیٹی کی عزت کا بدل فقط چیک ہو
گا؟کیا سب دکھوں کا مرہم چیک ہے؟خُدا کے لیے درد بانٹو،چیک نہیں ۔
اگر واقعی آپ عوام کے لیے کچھ کر نا چا ہتے ہیں توسب سے پہلے یہ
دھرنے،انقلاب،جلوس کے عذاب سے ہماری جان چھوڑیں۔
اپنے اپنے عہدہ اور اپنے اپنے دا ئرے میں ر ہتے ہوئے محنت کر یں ۔فقط تنقید
اور الزام تراشی سے توبہ کر یں اور کو ئی ڈھنگ کی بات کر یں جسے نہ صرف ہم
بلکہ د نیا بھی غور سے سنے ۔پٹاری سے سانپ نکالنے والی سیاست چھوڑ کر خدمتِ
خلق کو اپنا شعار بنا ئیں ۔اور اگر یہ سب کچھ نہیں کر سکتے ،تو خُدا کے لیے
اس ملک کی اور ہماری جان چھوڑیں ۔کم ازکم یہ احسان ضرور اس قوم پر کر یں نہ
ہمار ا غم آپ کو ہوگا اور نہ آپ کی وجہ سے ہماری زندگی عذاب ہو گی ۔آپ لوگ
ہماری جان چھوڑیں گے تو اﷲ تعالیٰ ضرور ہم پہ رحم فر ما ئے گا۔صبر کر یں
خُدا کے لیے اس حکومت کو ا پنا کام کر نے دیں ۔مدت پوری ہو نے دیں ۔اگر یہ
اہل نہ ہو ئے تو عوام خود بخود انہیں مسترد کر دے گی ۔اور آپ کو منتخب کر
لے گی ۔عوام مزید آپ کے کھیل میں اپنا وقت اور پیسہ بر باد نہیں کر نا چا
ہتی۔ملک کی آخری اُمید(فوج) پہلے ہی زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی ۔ہمارے پاس
اقوامِ عالم میں اپنی عزت بچا نے کا یہ آخری اور فیصلہ کن مو قع ہے ۔اور
اگر اب ہم ہار گے تو نہ آپ کے ہاتھ کچھ آئے گا اور نہ آپ کے آقاؤں کے ہاتھ
کچھ آئیگا۔ہمارا کیا ہے ،ہم تو عام ہیں ۔ |