عیدالضحیٰ ایڈیشن2009

عید الضحیٰ اور فلسفہ قربانی
اُمتِ محمدی کا عظیم تہوار

قربانی جہاں ابراہیمی یادگار ہے وہاں سنتِ حبیب پروردگار بھی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مدینے میں دس سال قربانی کرتے رہے ایک اور روایت میں ہے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی ذبح فرما کر ارشاد فرمایا جس نے یہ عمل کیا ہماری سنت کو پا لیا کہا جاتا ہے کہ قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی اور یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور ہر معاشرے نے اپنے اپنے مذہبی عقائد اور نظریات کے مطابق اسے اپنائے رکھا تاریخ انسان نے سب سے پہلی قربانی انسانِ اوّل حضرت ابو البشر سیدنا آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے پیش کی تھی سورة المائدہ آیت نمبر ۷۲ ترجمہ ”اور انہیں ادم کے دونوں بیٹوں کی خبر ٹھیک ٹھیک پڑھ سنائے ! جب دونوں نے قربانی دی تو ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی (اس دوسرے نے ) کہا قسم ہے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا (پہلے نے) کہا(تو بلاوجہ ناراض ہوتا ہے) اللہ صرف پرہیز گاروں سے قبول فرماتا ہے (بہر حال ! میں یہاں اس واقع کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا ) واضح رہے کہ اسلام کا تصور قربانی سب سے عمدہ پاکیزہ اعلیٰ اور افضل ہے اس کے نزدیک قربانی کا مقصد عیش و طرب اور خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل اور محض جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اسلام نے اپنے متعلقین و منسلکین کو قر بانی کی صورت میں رضائے خداو خوشنودیِ مصطفی علیہ التحیة والثناءکے حصول کا بہترین طریقہ اور نفیس ترین طریقہ سیکھا دیا اور اسلام اور بانی اسلام پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر اپنا تن من دھن نثار کرنے کا بھی عمدہ ذیعہ بتا دیا جس کے واسطے سے مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی عظمت اور حبیب خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے خلوص اور ایثار کا جذبہ مؤجزن ہوتا ہے مخلوق پروری بندہ نوازی غم گساری اور ہمدردی کا ولولہ پیدا ہوتا ہے قربانی کا مقصد خدا کو منانا سنت ِ نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا طریقہ ابراہیمی کو بجا لانا اور شیطانی قوتوں کو خائب و خاسر بنانا ہے، قربانی کے متعلق حکم خداوندی ہے کہ

ترجمہ : ”ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ ان جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کریں جو انہیں عنایت ہوئے ہیں“ ایک اور جگہ قرآن ِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ ترجمہ:”اللہ تعالیٰ کو ان(جانوروں) کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے البتہ تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے اس آیتِ مبارکہ میں تقویٰ کا ذکر کر کے ارشاد فرمادیا کہ قربانی کے بارے میں تمہارا خلوص اور تقویٰ دیکھا جائے دل میں خلوص اور عمل میں تقویٰ کا رنگ جتنا زیادہ ہوگا بارگاہِ ربوبیت میں قربانی کا شرف اتنا ہی زیادہ نصیب ہوگا لہٰذا خلوص اور تقویٰ کے متعلق ہر ممکن کوشش کرو ترمذی میں ہے کہ عاقل وہ ہے جو خدا کے لئے تقویٰ کرے اور اپنے نفس کا حساب لیتا رہے اسی طرح حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے بڑائی تقویٰ میں دولت توکل میں اور عظمت تواضع میں ہے اور حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ دنائیوں میں اعلیٰ درجے کی دانائی تقویٰ ہے اور کمزوریوں میں سب سے بڑی بد اخلا قی اور بد اعمالی ہے۔ اسلام میں حرمت والے چار مہینے بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک ماہِ مبارکہ ذی الحجہ کا بھی ہے اور ذی الحجہ اسلامی سال کے مہینوں میں بارہویں مہینے کا نام ہے بے شک اس ماہِ مبارکہ میں عبادت و ذکر و ازکار کا رب کائنات اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے اجر و ثواب کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور اس با برکت مہینے میں اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازتا ہے بالخصوص اس ماہِ مبارکہ کا شروع کا عشرہ ( پہلے دس دنوں ) کی فضیلت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ رب کائنات نے ان ایام کو قرآن مجید فرقانِ حمید میں ”ایام معلومات“ کہہ کر مخاطب کیا ہے ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ترجمہ اور اللہ کا نام لیں، جانے ہوئے دنوں میں “ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اور دس راتوں کی قسم اس سے ذی الحجہ کی راتیں مراد ہیں “ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے ” اس شخص کے لئے ہلاکت ہے، جو ان دس دنوں کی بھلائی سے محروم رہا اور نویں ذی الحجہ کے روزے کا خیال رکھو کہ اس میں اس قدر بھلائیاں ہیں جن کا شمار نہیں “ ایک اور روایت ہے کہ حضور پرنور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” جس وقت عشرہِ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تم میں کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے یعنی کہ بال نہ کتروائے اور نہ ناخن کٹوائے ! اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈوایا اور نہ ناخن ترشوائے “ پیارے محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ”قربانی کے جانور کے پاس کھڑی ہو اس لئے کہ قربانی کے جانور کی گردن سے جب خون کا پہلا قطرہ گرے گا تو اس کا عوض تمہارے گناہ معاف کردیے جائیں گے “ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور ارشاد گرامی ہے ”جس شخص نے قربانی کرنے کی وسعت پائی پھر بھی قربانی نہیں کی بس وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے “ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”قربانی کے دن خون بہانے سے زیادہ بندے کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو محبوب نہیں قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں سمیت آئے گا اور بے شک اس کا خون زمین سے گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حاصل کرلیتا ہے بس دل کی خوشی کے ساتھ قربانی کیا کرو “صحابہ کرام رِضی اﷲ تعالیٰ عنہہ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ قربانی کیا شے ہے “۔ تو پیارے محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے “ اس پر صحابہ کرام نے عرض کیا ” یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تو اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا “ تاجدار مدینہ سکونِ قلب و سینہ حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”ہر بال کے عوض ایک نیکی“ صحابہ نے پھر عرض کیا ” یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اگر مینڈھا ہو ؟ “ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرمایا ”تب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی “ اسی طرح پیارے محمدمصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”جس شخص نے دل کی خوشی کے ساتھ اور طلبِ ثواب کے لئے قربانی کی وہ قربانی اسکے لئے دوزخ کی آگ سے آڑ ہوگی“۔ یوں یہ مہینہ نہایت ہی عظمت اور مرتبے والا ہے اس کا چاند(ہلال) نظر آتے ہی ہر قلب میں اس عظیم و الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس کی مثال تاریخ انسانی آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے بے شک یہ ماہِ مبارکہ اصل میں اس جلیل و قدر پیغمبر کی یادگار ہے جن کی زندگی قربانی کی عدیم المثال تصور تھی یہ جدالانبیا خلیل اللہ حضرت ابراہیم علی نبیناعلیہ الصلوة السلام ہیں آپ یہ اندازہ کریں کہ وہ کون سا امتحان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ابراہیم علیہ السلام) سے نہیں لیا مگر آپ کی ذاتِ والا صفات پر کسی میدان میں بھی پائے ثبات کو لغزش نہیں آئی یہ بھی حقیقیت ہے کہ دو چیزیں دنیا میں انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں ایک اپنی جان اور دوسری اپنی اولاد مگر کروڑوں، اربوں اور کھربوں سلام ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر کہ آپ نے اس وقت بھی ثابت قدمی اور تقویٰ کا وہ عظیم الشان مظاہرہ کیا کہ جب نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کو گو پئے میں ڈال کر ہلایا جا رہا ہے۔ منجنیق کے زریعے پھینکنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں کفر خوش ہے کہ آج کے بعد ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے والا کوئی نہیں ہوگا مخالف ہمیشہ کے لئے ختم ہوا جاتا ہے تو ادھر حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ”اے اللہ کے بندے پیارے خلیل علیہ السلام ! کوئی حکم کوئی حاجت ؟ اس کے جواب میں حضرت خلیل اللہ فرماتے ہیں اما الیک فلا ترجمہ ”تیرے ساتھ کوئی حاجت نہیں “ اور پھر جبرائیل علیہ السلام نے عرض کی اچھا تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کیجئے کہ مجھے آگ میں ڈالا جا رہا ہے “۔ آپ خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ”
جانتا ہے وہ میرا رب ِ جلیل
آگ میں پڑتا ہے اس کا خلیل
اسے کیوں کہوں؟ کیا وہ سمیع و بصیر نہیں ہے؟ یہاں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ عقل نے اس موقعے پر حضر ت ابراہیم علیہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا ہوگا کہ ابراہیم جان بڑی عزیز شے ہے جو ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں ملتی اس کی حفاظت کرو
عقل بولی کہ بڑی شے جان ہے
عشق بولا کے یار پر قربان ہے

حضر ت علامہ اقبال رحمتہ اﷲ اس واقعے اور تقویٰ سے متعلق فرماتے ہیں
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا نے لب ِبام ابھی

اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عقل کی دلیل کو یکسر رد کرتے ہوئے عشق الہی میں آگ میں چھلانگ لگا دی تب اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم کو دیا ترجمہ اے آگ ! میرے ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجاؤ اور سلامتی والی ہوجا “ رب تعالیٰ کی جان کی آزمائش اور امتحان کے بعد ربِ کائنات کی جانب سے دوسرا بڑا اور سب سے کٹھن امتحان ہونے والا تھا اور وہ اولاد سے متعلق تھا اور یوں بھی جان کے بعد اولاد کا مقام آتا ہے انتہائی اختصار کے ساتھ رب کائنات اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر دوسرا امتحان شروع ہوا اور اس میں بھی وہ ثابت قدمی سے پورے اترے اور ایسے اترے کہ رہتی دنیا تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور جہاں تک انسانی نظر کام کرتی ہے وہاں تک سبزہ کا نام و نشان تک نہیں یہ اللہ کے پیارے خلیل اللہ اپنے لختِ جگر حضرت اسمعیل کو جو ابھی والدہ کی گود میں ہیں ان کی والدہ حضرت ہاجرہ سمیت اس وادی میں چھوڑ جا رہے ہیں حضرت ہاجرہ نے عرض کیا حضور یہ کس جرم کی سزا ہے آپ خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کے کسی بھی سوال کا کوئی بھی جواب نہیں دیا پھر کچھ دیر بعد حضرت ہاجرہ خود بولیں کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے تو پھر اس پر خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا ہاں ہاجرہ یہ اللہ کا ہی حکم ہے اتنا سننے کے بعد حضرت ہاجرہ نے فرمایا تو پھر ہمیں کوئی غم نہیں اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا “ کچھ دور جا کر حضرت خلیل اللہ نے دونوں ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے اور عرض کی ”اے میرے رب میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب ! اسلئے کے وہ نماز قائم رکھیں تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور پھل کھانے کو دے تاکہ وہ احسان فرمائیں “ حضرت خلیل اللہ نے یہ تین دعائیں کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی اہلیہ حضرت بی بی ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو جب اس بے آب و گیاہ مقام پر اللہ تعالی ٰ کے سپرد چھوڑے جا رہے تھے تو وہ اس وقت چلتے چلتے پانی کا ایک مکشیزہ ان کے نزدیک رکھ گئے تھے اور یہ مختصر سا کھانا پانی آخر کب تک چلتا بالآ خر ختم ہی ہوگیا تو حضرت بی بی ہاجرہ کو شدید تشویش ہوئی کہ ان کی گود میں معصوم پھول سا ننھا منا سا بچہ تھا وہ بچے کو پیارے سے دیکھتیں تو جی بھر آتا دور دور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ان سے بچے کی پیاس دیکھی نہ گئی وہ شیر خوار بچے کو زمین پر لیٹا کر اس کے لئے پانی کی تلاش میں بے قرار ہو گئیں قریب ایک پہاڑی پر گئیں تاکہ انہیں کہیں سے پانی مل جائے مگر بے سود پانی کہیں نظر نہیں آیا اور پھر واپس بچے کے پاس آئیں تو بچے کا پیاس سے برا حال تھا پھر دوسری پہاڑی پر چڑھیں مگر وہاں بھی مقصد حاصل نہ ہوا یہ دونوں پہاڑیاں جنہیں صفا اور مروہ کہا جاتا ہے وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑتی رہیں یوں وہ(ہاجرہ) ان کے درمیان سات مرتبہ دوڑیں۔ لیکن پانی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیا اس دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے خلیل کی اہل خانہ کی بے تابی دیکھ کر جوش میں آگئی اور جب آخری مرتبہ حضرت بی بی ہاجرہ بچے کے پاس آئیں تو عجیب منظر دیکھا کہ شیر خوار حضرت اسمعیل کی ایڑیاں رگڑنے کے مقام سے وہاں پر پانی کا ایک صاف چشمہ جاری ہے حضرت بی بی ہاجرہ کی اس پانی کے اچانک ظاہر ہونے سے خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ فوراً اللہ تعالی ٰ کا شکر بجا لائیں اور پھر خیال آیا کہ اب اس بڑھتے ہوئے پانی کو روکنا چاہئے چنانچہ بی بی ہاجرہ نے اس کے ارد گرد رکاوٹ بنائی پانی کو روکتے ہوئے حضرت بی بی ہاجرہ نے زم زم (یعنی ٹہرجا ) کہہ کر بے تحاشہ بہتے ہوئے پانی کے چشمے کو روک دیا۔ زم زم رک جانے کو کہتے مگر آ ج ہم زم زم اس پانی کو کہتے ہیں جسے دنیا کے کروڑوں لوگ بطور تبرک پیتے اور لے جاتے ہیں اگرچہ اسے آج بہتے ہوئے چار ہزار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے یہ چشمہ پہلے روز کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے اور اب تو اس پانی کو نکالنے کے لئے ٹیوب ویل جیسے جدید مشینری اور آلات بھی نصب کئے گئے ہیں۔ اس پانی کو پینے والوں کا اتنا ہجوم رہتا ہے کہ باری نہیں آتی مگر اس متبرک چشمے سے مبارک پانی کبھی ختم نہیں ہوا تاقیامت جاری و ساری رہے گا پیارے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر حضرت ہاجرہ اس پانی کو زم زم نہ کہتی تو یہ پانی ساری کائنات کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہوتا یہی صفا و مروہ ہے جہاں حاجیوں کے لئے ضروری ہے کہ وہی طریقہ اختیار کریں جو حضرت ہاجرہ نے کیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کی سنت کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا پھر اللہ تعالی ٰ نے ان پہاڑوں کو شعائر اللہ قرار دیا اور پھر اس بے آب و گیاہ کے درمیان زندگی کے اثار نمودار ہوئے اور آج یہ وادی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کی بدولت حسین و خوبصورت وادی میں تبدیل ہوگئی ہے آپ اندازہ کریں کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال گزر چکے ہیں مگر یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ جو فروٹ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملتا وہ مکّہ شریف میں موجود ہے قلب میں کھچے چلے آتے ہیں۔ اسی طرح جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بلوغت کے قریب پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آپ کی قربانی طلب فرمائی تین دن مسلسل خواب آتے رہے تیسری صبح آپ نے حضرت ہاجرہ سے کہا کہ میں اور بیٹا اسماعیل علیہ السلام ایک دعوت میں جا رہے ہیں۔ لہٰذا آپ اسے تیار کردیں حضرت ہاجرہ نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو بہت اچھا لباس پہنایا اور تیار کردیا آپ نے چھری اور رسی لی جنگل کی طرف چل دئے کعبہ شریف سے کچھ ہی دور پہنچے تو شیطان نے آپ کو اس قربانی سے روکنا چاہا سب سے پہلے بی بی ہاجرہ کے پاس گیا اور کہا کہ اے ہاجرہ آپ کو علم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اسمعیل علیہ السلام کو کہاں لے گئے ہیں ؟ حضرت بی بی ہاجرہ نے کہا کہ ایک دعوت پر گئے ہیں۔ تب شیطان بولا نہیں ابراہیم علیہ السلام اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے لے گئے ہیں حضرت بی بی ہاجرہ نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کیا ایک باپ بھی اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے شیطان نے کہا کہ ابراہیم کا خیال ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میری راہ میں اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کردو اس پر حضرت خلیل اللہ کی اہلیہ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی والدہ حضرت بی بی ہاجرہ نے ابلیس کو جواب دیا کہ میرے پروردگار کا یہی حکم ہے تو میں کون ہوں جو اس قربانی کی راہ میں رکاوٹ بنوں۔ اللہ تعالی ٰ کے حکم پر تو ایک سو اسمعیل ہوں تو ایک ایک کر کے قربان کرتی چلی جاؤں اور اس جواب کے بعد شیطان مایوس ہوگیا تو پھر اس نے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ورغلانا چاہا انکے قریب جا کر کہنے لگا تجھے تیرے والد ذبح کرنے کے لئے لے جا رہے ہیں۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام نے فرمایا کیوں شیطان نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے کہ اس پر حضرت اسمعیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ میری جان کی قربانی قبول فرمائے تو میں یہی کہوں گا کہ اس سے بڑھ کر کیا سعادت ہوسکتی ہے شیطان نے ہر ممکن کوشش کی کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کسی طرح سے اس قربانی سے رک جائیں مگر اللہ کے خلیل علیہ السلام کے عزم کے آگے بے بس ہوگیا اور ایک پہاڑ کے قریب لے جا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمعیل علیہ السلام سے کہا ”اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہو ں بتا تیری کیا مرضی ہے سعادت مند بیٹے نے جواب دیا اے ابا جان آپ کو جو حکم ملا ہے بلا خوف ِخطرپ ورا فرمائے مجھے آپ انشاءاللہ صبر کرنے والا پائیں گے اور پھر ابلیس نے کوشش شروع کی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کہنے لگا کہ آپ کیا غضب کررہے ہیں ایک خواب کو حقیقت سمجھ لیا ہے اور بیٹے کو ذبح کرنے پر تیار ہو گئے اے ملعون مجھ پر تیرا داؤ نہیں چل سکتا۔ میرا خواب شیطانی نہیں رحمانی ہے نبی کا خواب وحی ِ الہی ہوتا ہے میں اللہ کے حکم سے ہرگز منہ نہیں موڑوں گا شیطان نے ہر طرف سے مایوس ہو کر سر پیٹ لیا ہائے اب کیا ہوگا جب باپ اور بیٹا دونوں رضائے الہی سے راضی ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو زمین پر جبین کے بل لٹا دیا ۔ قرآن کریم ارشاد کرتا ہے
ترجمہ ”دونوں تیار ہوگئے تو باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا “

چھری چلانے سے پہلے بیٹے نے باپ کو کہا ابا جان میری تین باتیں قبول فرمائیں پہلی یہ کہ میرے ہاتھ پاؤں رسی سے باندھ دیں تاکہ تڑپنے سے کوئی خون کا چھینٹا آپ کے لباس پر نہ پڑے دوسری یہ کہ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لیجئے کہیں ایسا نہ ہو کہ ہاتھ میری محبت کی وجہ سے رک جائے اور تیسری بات یہ کہ میرا خون آلود کرتا میری والدہ کے پاس پہنچا دیجئے وہ اسے دیکھ کر اپنے دل کو تسلی دے لیا کرے گی باپ نے بیٹے کے گلے پر چھری رکھ دی تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم ِ فلک نے نہیں دیکھا ہوگا تیز چھری حضرت اسمعیل علیہ السلام کے گلے پر پہنچ کر کند ہوگئی ۔ دو مرتبہ ایسا ہی ہوا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسے ایک پتھر پر دے مارا پتھر کو چھری نے دو ٹکڑے کر دئے ابراہیم علیہ السلام نے چھری سے کہا تو نے پتھر جیسی سخت چیز کو دو ٹکڑ کردئے لیکن اسمعیل کا گلا ریشم سے بھی نرم تھا چھری نے کہا ترجمہ ” خلیل اللہ کہتا ہے کاٹ مگر جلیل کہتا ہے خبردار جو اسمعیل کا بال بھی بیکا کیا ۔جب خلیل اللہ خود جلیل اللہ کا حکم مان کر لٹائے بیٹھا ہے تو میں کیسے انکار کر سکتی ہوں ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ میں قربان کرنے کے لئے اور میرا بیٹا قربان ہونے کے لئے تیار ہے تو تو کیوں تو رکاوٹ بنتی ہے ابراہیم علیہ السلام نے پھر چھری اٹھائی چھری حضرت اسمعیل علیہ السلام کی گردن پر پہنچنے سے پہلے پہلے حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک مینڈھا لے آئے اس کو نیچے رکھ دیا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کو اٹھا لیا مینڈھا ذبح ہوگیا تو آواز آئی ترجمہ ”اور ہم نے پکارا اے ابراہیم علیہ السلام ! تو نے خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں ۔´ بےشک یہ صاف آزمائش ہے ہم نے اس کا فدیہ ذبح عظیم کے ساتھ کردیا اور اسے بعد والوں میں باقی رکھا “

ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالی اور اسے قیامت تک باقی رکھا اب ہر سال اس یاد کو تازہ کیا جاتا ہے ۔

مندرجہ بالا حقائق سے قربانی کی حقیقت خوب نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ قربانی سے مقصود رضائے خداوندی کا حصول ہے قربانی کے ان مقاصد اور مطالب کے پیش نظر کوئی مسلمان بھی قربانی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا اور آج اغیار کل مسلمانوں کے دلوں سے اسی جذبے قربانی کو نکلنا اور ختم کرنا چاہتا ہے کہ ان کے دلوں سے جذبے قربانی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہوجائے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کے دلوںسے جذبہ قربا نی ختم کرنے کے لئے آزاد و روشن خیالی کا ایک ایسا پودا اگا دیا ہے کہ مسلمان آہستہ آہستہ حکم خداوندی اور سنت ِ نبوی سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم حکم خداوندی کہ احکامات کی پیروی نہ کر کے زندہ رہ سکیں گے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 890087 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.